نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران حکومت کے بارے میں سب اچھا کا ماحول بنانے والے ترجمانوں کی فوج ظفر موج اصرار کئے جارہی ہے کہ رواں برس ہمارے ہاں کئی زرعی اجناس کی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ دیہات میں اس کی بدولت خوش حالی کی طاقت ور لہر نمودار ہوئی۔مفروضہ خوش حالی کو موٹرسائیکلوں کی فروخت میں ریکارڈ اضافے کا حوالہ دیتے ہوئے اجاگر کیا جارہا ہے۔شوکت ترین صاحب کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ فقط دیہات ہی نہیں ہمارے شہر بھی معاشی ترقی کے تیز تر عمل سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔مہنگے ریستورانوں میں بیٹھنے کی جگہ حاصل کرنے کیلئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔حکومتی دعوئوں پر اعتبار کریں تو ہمارے ہاں معاشی ترقی میں جو تیزی آئی ہے اسے قابو میں لانا لازمی ہوگیا۔علم معیشت کی زبان میں اسے ضرورت سے زیادہ گرم ہوئے سسٹم کو کنٹرول کرنا پکارتے ہیں۔
نظر بظاہر حد سے بڑھی خوش حالی کے عمل کے روکنے کے لئے منگل کے روز سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر نے بینکوں سے قرض لی رقوم کی شرح سود میں ایک فی صد اضافے کا اعلان کردیا ہے۔ شرح سود میں اضافہ درحقیقت افراطِ زر کی سنگینی کو تسلیم کرنا ہوتا ہے۔مجھے اگرچہ سمجھ نہیں آرہی کہ شرح سود میں منگل کے روز ہوا اضافہ بازار میں موجود ضروریات زندگی کی بنیادی اشیاء کے نرخوں میں کمی کیسے لائے گا۔علم معاشیات کی بابت مجھ جیسے جاہل کو ہمارے ہاں مہنگائی کی شدید لہر کی بنیادی وجہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قدر نظر آتی ہے۔اس کے علاوہ بجلی،گیس اور پیٹرول کے نرخوں میں اضافہ بھی کلیدی کردار کا حامل ہے۔
رواں برس کا بجٹ قومی اسمبلی کے روبرورکھتے ہوئے شوکت ترین صاحب نے ازخود بجلی کی قیمتوں میں گرانقدر اضافے کو بارہا مہنگائی کا بنیادی سبب قرار دیا تھا۔وہ یہ اعتراف کرتے رہے کہ مذکورہ اضافہ آئی ایم ایف کے دبائو کے تحت ہورہا ہے۔انہوں نے وعدہ کیا کہ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے سے وہ اس ضمن میں ازسرنومذاکرات شروع کرنا چاہیں گے۔آئی ایم ایف کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہماری معاشی نمو کو ناممکن بنادے گا۔عالمی معیشت کے نگہبانوں کو تاہم اپنی بات سمجھانے میں وہ ناکام رہے۔ اب اسی تنخواہ پر گزارہ کرنے کو تیار ہیں۔
بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کے علاوہ رواں ماہ کے آخری ہفتے میں شوکت ترین صاحب کو منی بجٹ بھی متعارف کروانا ہے۔اس کے ذریعے ساڑھے تین سو ارب روپے کے نئے ٹیکس لاگو ہوں گے۔
با زار میں میسر بے تحاشہ اشیاء کے سیلز ٹیکس میں بھی اضافہ ہوگا۔ مذکورہ بالا اقدامات باہم مل کر ہمارے ہاں مہنگائی اور کسادبازاری کی نئی اور شدید ترین لہر برپا کریں گے۔ہمیں مگر یہ بتاتے ہوئے دلاسے دئیے جارہے ہیں کہ پاکستان آج بھی دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔میڈیا میں گھسے چند قنوطی لوگ مگر مارے گئے کی دہائی مچارہے ہیں۔ایسے صحافی فقط عمران حکومت کے ناقد ہی نہیں۔ وہ پاکستان کے بارے میں مثبت خبریں پھیلانے کو بھی کبھی تیار نہیں ہوتے۔
ہمہ وقت مایوسی پھیلاتے صحافیوں سے اکتاکر فواد چودھری صاحب نے فیصلہ کیا ہے کہ خطیر سرمایہ کاری سے ظہیر الدین بابر اور ٹیپوسلطان کے بارے میں فلمیں یا ڈرامائی سلسلے تیار ہوں۔ترکی کے سلطان اردوان نے بھی عظمت رفتہ یا دکرنے کے لئے ارطغرل جیسے ڈرامے تیار کروائے تھے۔ہمارے ہاں بھی اسے بہت چائو سے دکھایاگیا ہے۔ ارطغرل کی کھڑکی توڑ کامیابی کے باوجود گزشتہ کئی دنوں سے ترکی کی کرنسی کی قدر مسلسل گررہی ہے۔اپنے سٹیٹ بینک کے پانچ گورنر یکے بعد دیگرے تبدیل کرنے کے باوجود اردوان اسے سنبھال نہیں پایا ہے۔ مجھے خبر نہیں کہ ظہیر الدین بابر کے بارے میں تیار کردہ فلم یا ڈرامائی سلسلہ پاکستانی روپے کی قدر کو کیسے مستحکم کرسکتا ہے۔
گزشتہ کئی دنوں سے ملکی سیاست کے بارے میں لکھنے سے میں اکتایا ہوا ہوں۔ جوانی میں ڈرامہ نویسی کا شوق لاحق تھا۔ اسے یاد کرتے ہوئے سنجیدگی سے سوچا کہ ظہیر الدین بابر کی لکھی آپ بیتی-تزک بابری- کو ایک بار پھر غور سے پڑھوں۔ اس کے بعد ڈرامے کا سکرپٹ لکھنے کے قابل ہوا تو اسے مکمل کرکے فواد چودھری صاحب سے رابطہ کروں۔ چودھری صاحب کے بزرگوں سے میرے قریبی مراسم رہے ہیں۔ بطور وزیر اطلاعات اگرچہ وہ مجھے ٹی وی سکرینوں کے قابل نہیں سمجھتے۔ ظہیر الدین بابر کے بارے میں لکھے ڈرامے کو شاید وہ شفقت بھری توجہ سے پڑھنے کو آمادہ ہوجائیں۔
’’تزک بابری‘‘ کو ازسرنوپڑھنے کے بعد مگر میں گھبرا گیا۔بابر نے اس میں اپنی محبتوں کے کئی ایسے قصے بھی لکھے ہیں جنہیں دہرانا اخلاقی اعتبار سے براتصور کیا جائے گا۔ ہمارے خطے میں آباد افراد اور یہاں کی آب وہوا اور رہن سہن کو بھی وہ بہت حقارت سے بیان کرتا ہے۔دلی تک پہنچنے سے قبل اس نے کئی مقامات پر مزاحمت کرتے قبائل پرقابو پانے کے بعد ان کی کھوپڑیوں کے مینار بھی کھڑے کئے تھے۔ ان سب کا ذکر ہوا تو بابر ایک ہیرو کے بجائے اپنے مخالفین کو سفاکی سے کچلتا ہی نظر آئے گا جبکہ فواد چودھری صاحب اسے ایک نیک دل دلاور کے طورپر پیش کرنا چاہیں گے۔آنے والی تھاں پر لہٰذا واپس لوٹ آتا ہوں۔ آپ کو یہ اطلاع دینے کو مجبور کہ ہمارے ہاں منگل کے روز شرح سود کی بابت ہوئے فیصلے اور منی بجٹ متعارف ہونے کے بعد مہنگائی اورکسادبازاری کی شدید لہر ہر صورت رونما ہوگی۔
رواں برس کے برعکس مجھے خدشہ یہ بھی لاحق ہے کہ کم از کم گندم کی پیداوار کے حوالے سے ہم ایک سنگین بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ہمارے بارانی علاقوں میں تین ماہ تک بارش نہیں ہوئی۔اس کی وجہ سے زمین کو وہ وتر نصیب نہیں ہوا جو گندم کی بوائی کو درکار ہوتا ہے۔نہروں کے ذریعے سیراب ہوئے رقبوں میں بھی کاشت کار کو اچھی فصل یقینی بنانے کے لئے کھاد گراںترین نرخوں پر مل رہی ہے۔مناسب کھاد کے بغیر زیادہ سے زیادہ پیداوار دینے والے بیج بھی تقریباََ ناکارہ ہوجاتے ہیں۔سب اچھا کا ورد کرنے والے ترجمانوں کی فوج ظفر موج کو لیکن ٹھوس انداز میں ابھرتے اس بحران کا دراک ہی نہیں ہے۔ موٹرسائیکلوں کی ریکارڈ فرخت کے ذکر ہی سے ہمار ا جی بہلایا جارہا ہے۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر