اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

والٹن کیمپ نئیں مکیا||عامر حسینی

عامر حسینی پاکستان کے نامور صحافی ہیں ، سرائیکی وسیب کے ضلع خانیوال سے تعلق ہے، ، وہ مختلف موضوعات پرملتان سمیت ملک بھر میں شائع ہونے والے قومی روزناموں میں لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوشل میڈیا، جنگ گروپ نے ہمارے’سابق’ مرشد وجاہت مسعود کو بلاشبہ نئی پہچان دی ہے جس میں ان کا سب سے بڑا تعارف ایک ‘کالم نگار’ ہونا ہے ۔ ایسا کالم نگار جو اردو کالم نگاری کی کلاسیکی روایت سے بندھا ہوا ہے اور جس نے جتنا کہا ہے اور لکھا ہے اس سے کہیں زیادہ ابھی اس کے دماغ میں موجود ہے- اس سے آگے میں نے چاہا کہ میں یہ لکھوں ‘مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے ان سے ‘انشا پردازی’ کے باب میں بہت کچھ سیکھا ہے’۔ مگر سابق مرشد کے ‘اردو انشاء پردازی’ کے باب میں سخت ترین نظم و ضبط کا خیال آیا تو میں نے ارادہ ترک کردیا- (سابق مرشد نے مجھے بہت سی انگریزی میں مستعمل اصطلاحوں کے اردو میں متبادل لفظ استعمال کرنا سکھائے جن میں سے ‘اسٹبلشمنٹ’ کا اردو مترادف ‘غیر منتخب ہئیت حاکمہ’ بھی ہے جسے میں نے جب جب استعمال کیا تو پڑھنے والوں کو بتانا پڑا کہ اس سے مراد ‘اسٹبلشمنٹ’ ہے۔
لیکن ان سے سوشل میڈیا پر متعارف ہونے والوں کے لیے ان کا پنجابی زبان کا شاعر ہونا جیسے نئی اطلاع تھی جب انہوں نے اپنی ایک پوسٹ میں لکھا،
"اوہ میں مر گیا۔ اللہ پنجابی زبان پر رحم کرے۔ میری بیس برس سے روٹھی ہوئی پنجابی شاعری پھر سے دستک دے رہی ہے۔ خدا معلوم یہ مصرع میرا اپنا ہے یا اپنے ہی جیسے کسی مردود کے کلام پر دراز دستی کر رہا ہوں،
چیتر دے دکھ کس ڈٹھے نیں”
اس پر نیچے کمنٹ سیکشن میں اکثریت نے ان کو شاعری کرنے کا مشورہ دیا تو مجھے احساس ہوا کہ سوشل میڈیا نے ان کے پنجابی کے شاعر ہونے کا علم نہیں ہے۔ ان کی پنجابی نظموں کی ایک کتاب ‘والٹن نئیں مکیا’ جب چھپ کر آئی تھی تو اس نے واجاہت مسعود کو شعر و ادب کی دنیا میں ایک مستند پنجابی شاعر کے طور پر مشہور کردیا تھا{سابق مرشد کو ‘مستند شاعر’ جیسی اصطلاحوں سے شدید جڑ ہے میں ان سے معذرت خواہ ہوں، سردست میرے ذہن میں کچھ اور جملے آئے ہی نہیں } اور پھر عرصہ دراز بعد ان کی نظموں کی یہی کتاب دوبارہ چھپ کر آئی بھی تھی اس وقت تک وہ سوشل میڈیا پرمشہور ہوچکے تھے لیکن لگتا ہے کہ بہت سارے نوجوانوں نے اسے نظر انداز کردیا-
وجاہت مسعود کی یہ نظم اور بہت ساری نظمیں اس زمانے کی ہیں جب وہ جنرل ضياع الحق کے روحانی بیٹے میاں نواز شریف اور اس کی جانب سے سیاست میں متعارف کرائے جانے والی کمرشل [بلکہ بازاری) ثقافت کے خلاف ڈٹ کر کھڑے تھے۔ نیچے کمنٹ میں انہوں نے اس طرف اشارہ بھی دیا ہے۔
میں بھی صبح سویرے اپنے گھر کے سامنے ٹنڈ منڈ درختوں پر کہیں کہیں نئے پتوں کو نمودار ہوتے دیکھ رہا تھا جب ان کی یہ پوسٹ میری نظر سے گزری تو میں واپس اپنے کمرے میں آیا اور ان چند ایک پنجابی نظموں کو ٹائپ کیا- دو کو فیس بک پر لوڈ کیا اور دو کو وٹس ایپ پر اپنے چند دوستوں کو بھیج دیں-
فیس بک پر ہمارے ایک سینئر ساتھی نے کہا کہ میں ان کی نظم کا آزاد ترجمہ کر ڈالوں – میرے لیے یہ کافی مشکل کام تھا- ایک تو پنجابی میری زبان نہیں ہے، دوسرا میری طبعیت بھی کوئی موزوں نہیں ہے، تیسرا دماغ میں شاعر والا میٹر بھی نہیں ہے، اس لیے سوچا ‘عزت سادات’ بچا لی جائے۔ پھر خیال آیا کہ یہ میرے سینئر ساتھی کے ساتھ زیادتی ہوگی اگر میں ان کو اس نظم کی معنویت سے لطف اندوز ہونے سے محروم کردوں – اس دوران مجھ سے ہمارے دوست صہیب عالم نے ‘تپہ’ کا مطلب پوچھ لیا –
میں نے اس لفظ کا سراغ سنسکرت میں لگایا لیکن چاہتا تھا کہ پنجابی کا کوئی عارف اس کی تصدیق کردے تو بھائی عارف سپرا سے پوچھ لیا اور انہوں نے جھنگ کے گرد و نواح میں ‘تپی’ ڈھونڈ نکالا اور میرے وجدان کی تصدیق کردی ( میرے استاد حسن ظفر عارف کے سامنے سے یہ’وجدان’ والا جملہ بولا جاتا تو وہ مجھے ڈانٹ ڈپٹ کر کہتے کہ تمہارے اندر سے یہ ‘مابعد الطبعیاتی اثر’ کب نکلے گا حالانکہ تم ان شاگردوں میں سے ہو جنھوں نے مارکس کی ‘جرمن آئیڈیالوجی’ اور لینن کی ‘مادیت پرستی اور تجربی تنقید’ اچھے سے پڑھی بھی ہے اور سمجھی بھی ہے[خدا جانے انھیں یہ گمان کہاں سے ہوگیا تھا حالانکہ میں آج بھی یہ دونوں کتابیں اٹک اٹک کر پڑھتا ہوں اور سمجھنے کی بات تو رہنے دیجیے]۔ پھر ایسی باتیں کیوں کرتے ہو) {اب اگر میں اپنے استاد کے غیظ و غضب سے بچنے کے لیے دوسری راہ چلتا تو سابق مرشد نے فوری مجھے ‘مارکسی مولوی’ قرار دے دینا ہے – ویسے وہ مجھے پیار سے ‘مولانا’ تو کہتے ہی رہتے تھے جن دنوں میں انہیں ہاتھ سے لکھے کالم اسکین کرکے فیکس کرایا کرتا تھا یا ای میل کرتا تھا اور پھر انہوں نے مجھے الٹی میٹم دیا کہ اگر میں نے ‘ایک ہفتے’ میں کمپوزنگ نہ سیکھی تو وہ مجھے چھاپنا بند کریں گے ‘کیسے ترقی پسند ہو جو نئی ٹیکنالوجی سے دور بھاگتے ہو’ اور میں نے ‘ نہ پائے ماندن، نہ جائے ماندن’ کے مصداق اردو کمپوزنگ سیکھ لی- آج یہ انہی کا فیض ہے جو میں اتنا کچھ لکھ پاتا ہوں) خیر میں یہاں ان کی ایک نظم کا آزاد( بلکہ کسی حد تک اپنے تصرفات کے ساتھ ) دے رہا ہوں:
شاہ حسین سے ملاقات (نظم)
شاعر: وجاہت مسعود
شاہ حسین! آ جاؤ ، بیٹھو
بات سناؤ، سگریٹ پی لو
شراب کا گھونٹ نہ مانگو
آج اتوار ہے
ہمارا ‘ڈیوڈ’ چھٹی پر ہے
(دیکھو) مادھو لال کا نام نہ نکلے
تخت لاہور، اب وہ نہیں ہے، بھائی
ہوش کی سوئی ناکے سے ٹوٹ گئی
پریم کا دھاگہ الجھ گیا ہے
شاہ حسی، (اے) میرے سائیں
میں تو کہتا ہوں ایسا کرلو
پنڈی والوں سے یاری کرلو
(پھر تو) برگر شرگر، شکّر پڑیاں لڑکے، لڑکیاں
کوئی نہیں پوچھے گا، موج کرو
فتو شاہ پر نطر پڑی تھی
سبز پگری تھی سر کے اوپر
کالی سیاہ جرسی پہن کے اندر پچارو کے بیٹھ کر چمک رہے تھے
(اور) کہتے جاتے تھے
جھنگ شہر ہے مرکز اپنا
کیدو صاحب ہیں لیڈر اپنے
ویسے تو اپنا(ہی) راج ہے ہر جا
تھانے دار بھی ہم سے کانپیں
اخبار میں بھی اپن ہی بالک
ساندل بار کا کوئی اچکا
اپنے قابو سے باہر نہیں ہے
رائے ونڈ بھی جانا چاہئیے
کبھی کبھار
شاہ حسین جی
فتو شاہ کو کچھ بھی کہہ لو
بات آخر سچ کہتے ہیں
تیاری تو بہت زور کی ہے بھائی
(پھر بھی ) اونچ نیچ تو ہوجاتی ہے
ختم شد

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: