اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زمین‘ زبان اور سریندر بھوٹانی۔۔۔||رسول بخش رئیس

رسول بخش رئیس سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے رہنے والے ہیں وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ملکی ،علاقائی اور عالمی معاملات پر مختلف اخباروں ،رسائل و جرائد میں لکھ بھی رہے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زمین اور زبان کا بندھن بھی کیا خوب ہے جو زندگی بھر نہیں ٹوٹتا۔ جہاں بچپن گزرا ہو‘ آنکھیں کھولی ہوں‘ آباؤ اجداد کی کبھی دنیا آباد رہی ہو‘ وہ سب کچھ چھوڑ کر کہیں اور جا کر بسنا پڑے تو یہ صدمہ کم لوگ ہی بھول پاتے ہیں۔ ہندوستان تقسیم ہوا تو حالات کے جبر نے آگ اور خون کا ایسا دریا بہایا کہ برصغیر کے طول و عرض میں بستی اقلیتوں کو فسادات کا نشانہ بننا پڑا۔ لاکھوں لوگ سرحد کے دونوں طرف مارے گئے۔ لاکھوں مسلمان ہندوستان چھوڑ کر پاکستان میں آباد ہوئے‘ اسی طرح لاکھوں ہندوؤں اور سکھوں کو پاکستان چھوڑنا پڑا۔ آبادی کی نقل مکانی اور فرقہ ورانہ فسادات کی شدت کا شاید کسی کو اندازہ نہ ہو سکا۔ روکنے کی کوششیں تو بہت ہوئیں مگر برطانیہ کو اچانک اور عجلت میں اپنی دیرینہ سلطنت کو چھوڑنا پڑا۔ نئی ریاستوں کے کمزور خدوخال سے موقع پرست لٹیروں اور شرپسندوں کو ہزاروں برسوں سے قریب بستے ہمسایوں کی جائیدادیں‘ زمین‘ کاروبار اور دھن دولت اپنے نام کرنے کا موقع مل گیا۔ ہمارے ضلع راجن پور اور جنوبی پنجاب کے دیگر علاقوں میں ہندو ہماری طرح وادیٔ سندھ کے قدیمی باشندے تھے۔ ان میں چھوٹے بڑے زمیندار‘ زیادہ تر شہروں میں کاروبارکرتے اور تعلیم یافتہ سرکاری محکموں میں غالب تھے۔ آزادی کے بعد جب سے ہوش سنبھالا ہے ایک ہندو خاندان بھی راجن پور اور ڈیرہ غازی خان میں نہیں دیکھا۔ شمال کے اضلاع میں بھی غالباً یہی صورتحال ہے۔ بچپن میں سنا تھا کہ ہمارے چھوٹے قصبوں‘ دیہات اور قریبی شہروں میں ہندو آباد تھے۔ معمر مقامی باشندے اکثر اپنے پرانے ہندو دوستوں کو یاد کرتے تھے۔
چھوٹے سے قصبے عمرکوٹ میں گورے رنگ کا ایک شخص دین محمد درزی تھا جس نے اسلام قبول کیا اور اپنے رشتے داروں کے ساتھ ہندوستان جانے سے انکار کردیا۔ پہلے اس کا نام بھوجا رام تھا۔ کہانی یہ تھی کہ وہ ایک مسلمان عورت کے عشق میں گرفتار تھا اور وہیں رہ گیا۔ سکول کے ابتدائی دور میں اکثر اپنے ہمسایوں‘ دوستوں اور کاروباری شراکت داروں سے آپس میں مل جل کر رہنے کی باتیں سنتا تو حیرانی ہوتی کہ وہ کیوں ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ سینکڑوں کی تعداد میں دکانیں اور پکے مکانات‘ کچھ دو منزلہ‘ کاروباری اور سرکاری عہدوں پر فائز ہندوؤں کے تھے۔ مشرقی پنجاب سے ہجرت کرنے والے افراد ان میں آباد ہو گئے۔ یہ بھی سن رکھا تھا کہ شہر میں نہ کوئی فساد ہوا‘ نہ لڑائی جھگڑا‘ ایک دن فوجی ٹرکوں میں سوار ہو کر کہیں چلے گئے۔ ایک واقعہ کے بارے میں مجھے زیادہ دلچسپی تھی کہ جب روجھان سے سینکڑوں ہندو خاندانوں کے ٹرک قافلوں کی صورت میں راجن پور کی طرف شام کے وقت ایک معمولی سکیورٹی گارڈ کے ساتھ روانہ ہوئے توایک جگہ چھپے کچھ لوگوں نے ان پر حملہ کردیا۔ مقصد لوٹ مار کرنے کے علاوہ کچھ نہ تھا‘ مگر اس کے لیے وہ قتلِ عام کرگزرے۔ اچانک فائرنگ کے نتیجے میں بسوں اور ٹرکوں میں سوار 20‘ 25 ہندو مارے گئے مگر جوابی فائرنگ سے انہیں پسپا ہونا پڑا۔ اس قافلے کے ساتھ بچپن سے ہی ہمدردی تھی کہ مال و دولت کی ہوس میں ناحق انسانوں کا قتل ہر مذہب اور انسانی اصولوں کے خلاف ہے۔ اب کچھ بات سمجھ میں آتی ہے جب دنیا کے ہر حصے میں مسلمان مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے اور دہشت گردی کو کچھ بھٹکے ہوئے لوگ جائز قرار دے رہے ہیں۔
دل میں فرقہ وارانہ فسادات اور ہندوؤں کی اپنے آبائی علاقے سے ہجرت کی کسک تو رہی مگر جامعات میں تعلیم اور تحقیق کا رُخ کسی اور طرف جا نکلا۔ اتفاق سے 2007ء میں دہلی میں ایک کانفرنس میں اپنا پیپر پیش کرنے کے بعد سٹیج سے نیچے اُترا تو کئی لوگوں نے مصافحہ کیا مگر ان میں سے ایک نے اپنا تعارف سفارت کار سدھرشن بھوٹانی کے نام سے کرایا۔ وہ میرے آبائی علاقے کے بارے میں معلوم کرنا شروع ہو گئے۔ راجن پور کی بات کی تو ایک دم چونک گئے۔ کہا: اچھا تو آپ وہاں سے ہیں‘ ہم بھی تو راجن پور سے تھے۔ ”تھے‘‘ میں دکھ‘ آہیں‘ افسردگی اور تلخ یادوں کی جھلک اتنی نمایاں تھی کہ وہ ساری زندگی سفارت کاری میں گزارنے کے باوجود اپنے چہرے اور کلام کے تاثرات کو نہ چھپا سکے۔ ہم اگلے روز دوبارہ ملے تو میں نے اپنے قصبے کے قریب قافلے پر حملے کا قصہ دہرایا کہ یہ سن رکھا ہے‘ نہ جانے وہ کون لوگ تھے اور کیا آپ کو معلوم ہے کہ اصل واقعہ کیا تھا۔ کہا: ہم کبھی بات تو نہیں کرتے مگر اس قافلے میں ہمارے والد وکیل جگن ناتھ بھوٹانی قتل ہوئے تھے اور اس وقت میری عمر گیارہ سال تھی۔ ہماری بات سرائیکی زبان میں ہو رہی تھی۔ حیران تھا کہ نئے ملک میں جا کر بھی انہوں نے اپنی ماں بولی کو دل سے لگائے رکھا ہے۔ اگلے دن ان کے چھوٹے بھائی پروفیسر سریندر بھوٹانی سے ملاقات ہوئی۔ یقین جانیں ایسا احساس ہوا کہ جیسے ہم پرانے بچھڑے ہوئے بھائی اور دوست ہیں جو اس زبان اور زمین کے رشتوں میں پروئے گئے ہیں۔ سدھرشن کا تو کچھ سال پہلے انتقال ہو گیا۔ یاد پڑتا ہے کہ ان کے بارے میں ایک مضمون لکھا تھا مگر سریندر بھوٹانی صاحب سے بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ وہ وارسا‘ پولینڈ میں آباد ہیں۔ کل ہی ایک بار پھر انہیں یہاں آنے کی دعوت دی تو ہمیشہ کی طرح کہنے لگے کہ اب بوڑھے ہو چکے ہیں‘ آنا مشکل ہے۔ وہ راجن پور اور سرائیکی وسیب کے تقریباً 20‘ 25 لوگوں سے رابطہ رکھتے ہیں اور اکثر اس زبان کی شاعری‘ موسیقی اور مزیدار کہانیاں ان کے ساتھ شیئر کرتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ اور ان کی دو بہنیں‘ جن میں سے ایک آسٹریلیا اور دوسری امریکہ میں آباد ہے‘ ہر روز ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں اور سرائیکی کے علاوہ کبھی دوسری زبان میں بات نہیں کی۔ شاید ہمارے ساتھ ان کی زبان اور زمین کا رشتہ صرف ہماری زندگیوں تک قائم رہے‘ ہماری اولادوں نے تو اپنے جہان آباد کر لیے ہیں۔ نہ جانے وہ کہاں ہوں گے۔
وہ 25اکتوبر 1947ء کا دن تھا جب وہ افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ بھوٹانیوں کا خاندان اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا اور شری جگن ناتھ بھوٹانی راجن پور کے پہلے وکیل تھے جنہوں نے 1923ء میں وہاں سے وکالت شروع کی اور وہیں رہے۔ ان کے ماموں آسانند نارنگ ڈاکٹر تھے اورکنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کی والدہ محترمہ گیان دیوی ناگپال مظفرگڑھ کے بگلا رام ناگیاں کی صاحبزادی تھیں جن کی ڈیرہ دین پناہ میں 20ہزار ایکڑ زمین تھی۔ وہ آریہ سماج کی تحریک کی رکن اور لالہ لالجپت رائے کی پُرزور حامی تھیں۔ ان کے خاندان کے اکثر لوگ ملازمت پیشہ تھے اور انہوں نے ان یتیم بچوں کی کفالت کی مگر یہ ان کی والدہ کی رہنمائی تھی کہ سب نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور نئے ملک میں مقام بنایا۔ کل طویل گفتگو میں بار بارکریدا کہ انہیں اپنا پرانا وطن چھوڑنے کا کبھی دکھ محسوس ہوتا تھا تو کہنے لگے کہ امی ” گزر گئی گزران‘ کیا جھونپڑی کیا مکان‘‘ کہہ کے خاموش ہو جاتی تھیں۔
زمین تو انہیں چھوڑنا پڑی مگر اس خاندان نے اپنی زبان آج تک نہیں چھوڑی۔ خوشی ہے کہ بچپن کے زمانے کی ایک کہانی کے کردار زندگی میں مل گئے اور رشتہ آج تک قائم ہے۔ سریندرکہتے ہیں کہ ہمیں کسی سے شکایت نہیں‘ ہم سب حالات کا شکار ہوئے تھے۔ یہ تو صرف ایک واقعہ ہے۔ ہزاروں داستانیں ہیں جو لاکھوں لوگ اپنے دلوں میں لیے تہہِ خاک چلے گئے۔ افسوس‘ ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ نفرتیں‘ قتل و غارت اور معصوم زندگیوں کو تباہ کرنے کی روش نئے اور زیادہ خطرناک انداز میں آج بھی پائی جاتی ہے۔ سوچتا ہوں اب تو حالات نہیں‘ شدت پسندی کا جبر ہے اور ان کے سرپرستوں کا۔ ہم مزید کتنا بکھریں اور بکھیریں گے؟

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: