نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری جغرافیائی سے زیاد ہ ’’نظریاتی‘‘ سرحدوں کے مستعد نگہبانوں نے بہت چائوسے ’’صحافیوں‘‘ کا ایک گروہ تیار کیا تھا۔دہشت گردوں کے خلاف آپریشنوں کے دوران یہ صحافی کئی ’’محاذوں‘‘ پر ہیلی کاپٹروں میں لاد کر پہنچائے جاتے تھے۔ ’’میدانِ جنگ‘‘ سے انہوں نے میرے اور آپ جیسے جاہلوں کو جنگی امور کے بارے میں علم فراہم کرنا شروع کردیا۔ ان کی مہارت اور جانفشانی کی بدولت ہم صحافیوں میں سے محبانِ وطن اور غداروں کے مابین تخصیص بھی ہوگئی۔ غداری کی تہمت سے میں عموماََ محفوظ رہا کیونکہ چند موضوعات ہیں جن کے بارے میں حب الوطنی کے حتمی ٹھیکے داروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ جذباتی ہو جاتا ہوں۔ مسئلہ کشمیر ایسے امور میں سرفہرست ہے۔
غداری کے الزام سے بچ جانے کے باوجود ’’لفافہ‘‘ مگر مشہور ہوگیا۔ مذکورہ تہمت کی بنیادی وجہ وہ ڈھٹائی تھی جس کی بنیاد پر میں کرکٹ سے سیاست میں آئے کرشمہ ساز کو ’’باریاں لینے والوں‘‘ کے مقابلے میں سچا،کھرا اور ایماندار متبادل ٹھہرانے کی دوڑ میں شامل نہ ہوا۔اب اگرچہ اس دوڑ میں شامل نہ ہونے پر خود کی تنہائی میں بیٹھے ملامت میں مصروف ہوجاتا ہوں۔پچھتاوے سے مگر کچھ حاصل بھی نہیں ہوسکتا۔بہتر یہی ہے کہ جیسا ہوں وہی رہتے ہوئے سرجھکاکر نوکری بچاتا رہوں۔’’بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور ‘‘دیکھ لیں گے والی بے اعتنائی اختیار کرنے کو آمادہ ہوں۔دل مگر مان کر ہی نہیں دیتا۔
وہ جنہیں ہیلی کاپٹروں میں بٹھاکر ’’محاذوں‘‘ سے ہماری ذہن سازی کو مامور کیا گیا تھا ان میں سے چند نمایاں افراد امریکہ جاچکے ہیں۔ وہاں سے یوٹیوب کی بدولت قوم کی ذہن سازی جاری ر کھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک صاحب نے اپنے حالیہ خطاب میں بھارت کے نریندر مودی کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ پاکستان پر اعتبار نہ کرے۔ ہماری ریاست کے وسائل سے ’’ذہن ساز‘‘ بنائے افراد کی ایک معقول تعداد ان دنوں آئی ایم ایف کو بھی پاکستان کی معیشت سنبھالنے سے بھی روک رہی ہے۔ان کی دانست میں پاکستان کے دیوالیہ ہوجانے کے بعد ہی عوام یہ دریافت کرپائیں گے کہ عمران حکومت سے محروم ہوجانے کے بعد ہمیں چین کا ایک پل بھی کیوں نصیب نہیں ہورہا۔
پاکستان کے معاشی مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے قیدی نمبر804 سے باندھی توقعات مگر آج کے کالم کا موضوع نہیں۔گزشتہ تین روز سے مجھے پاکستان کی افغانستان کے ساتھ بڑھتی کشیدگی پریشان کئے ہوئے ہے۔ تین روز قبل شمالی وزیرستان کے ایک اہم مقام پر حافظ گل بہادر نامی ’’وار لارڈ‘‘ کی سرپرستی میں کام کرنے والے گروہ کے چند افراد نے دھاوا بول دیا۔ دہشت گردوں کا یہ گروپ بالآخر پاک فوج کی ایک ٹولی کے مقابل آیا۔ مذکورہ گروہ کا مقابلہ کرتے ہوئے سات جوان شہید ہوگئے۔ ان میں دو افسر بھی شامل تھے۔ شہدا کی نمازجنازہ میں حال ہی میں دوسری بار صدرمنتخب ہوئے آصف علی زرداری بھی شریک ہوئے۔ شہدا کے تابوتوں کو کندھادینے کے علاوہ انہوں نے دہشت گردوں کو سخت الفاظ میں ’’سبق سکھانے‘‘ کا پیغام بھی دیا۔نو منتخب صدر پاکستان کی شہدا کی نماز جنازہ میں شرکت اور وہاں دئے پیغام نے مجھے یہ سوچنے کو مجبور کیا کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں کئی برسوں سے پناہ گزین ہوئے دہشت گردوں کے چند ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کا ارادہ ہے۔پیر کی سہ پہر میں درست ثابت ہوا۔ ہماری وزارت خارجہ نے ایک پریس ریلیز کے ذریعے قوم کو مطلع کردیا کہ اتوار اور پیر کی درمیانی رات شمالی اور جنوبی وزیرستان سے ملحق دو مقامات پر پاک فضائیہ نے بمباری کی ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں دیگر دہشت گردوں کے علاوہ 16مارچ 2024ء کو شمالی وزیرستان میں ہوئی واردات کے سرغنہ کو بھی ہلاک کردیا گیا ہے۔
ہماری جانب سے جائز وجوہات کی بنیاد پر جو کارروائی ہوئی وہ ہر اعتبار سے ’’جوابی‘‘ تھی۔ ’’تنگ آمد…‘‘ کا پیغام دیتی۔ 1994ء سے ہمارے لاڈلے ہوئے طالبان مگر اس سے ناراض ہوگئے۔ان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے نہایت حقارت سے دعویٰ کیا کہ ہماری کارروائی کے نتیجے میں کوئی دہشت گرد ہلاک نہیں ہوا۔ فقط چند عورتیں اور بچے ہلاک ہوئے۔اس کے بعد موصوف نے ہمیں ’’اپنا گھر سیدھا‘‘ رکھنے کا مشورہ بھی دیا۔ مصررہے کہ پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث افراد پاکستان ہی میں رہتے ہیں۔ افغانستان کی طالبان حکومت کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں۔مذکورہ پیغام دینے کے باوجود طالبان حکومت نے بین الاقوامی خبررساں ایجنسیوں کو یہ ’’خبر‘‘ بھی فراہم کی ہے کہ پاکستان کی جوابی کارروائی سے ناخوش افغان سپاہیوں کے ایک گروہ نے ہماری سرحدی چوکی پر گولیاں اور بم اچھالے ہیں۔کئی اعتبار سے ’’علامتی‘‘ دکھتی اس کارروائی کے ذریعے طالبان ہمیں یہ پیغام دیتے محسوس ہوئے کہ ان کی زمین پر پاکستان سے ہوئے آئندہ کسی حملے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔معاملہ دونوں ممالک کے مابین جنگ کی صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔
میر علی میں ہوئی دہشت گردی اور اس سے مشتعل ہوکر پاکستان کے جانب سے افغان زمین پر سبق سکھاتی کارروائی کے بعد سے میں نے ریگولراور سوشل میڈیا کو بہت غور سے جانچا ہے۔ٹی وی ٹاک شوز میں ریٹنگ کے حوالے سے قابل رشک تصور ہوئے اینکروں کی اکثریت نے مذکورہ معاملے کو محض سرسری انداز میں ٹچ کیا۔ ہمارے ’’ذہن سازوں‘‘ کی اکثریت ابھی تک یہ طے نہیں کرپائی ہے کہ تحریک انصاف کے سنی اتحاد کونسل میں ادغام کا ذمہ دار کسے ٹھہرائیں۔ مذکورہ ادغام کار بے سود ثابت ہوا کیونکہ اس کی وجہ سے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کو 8فروری 2024ء کے روز ملے اجتماعی ووٹوں کی مناسبت سے سنی اتحاد کونسل عورتوں اور اقلیتوں کے لئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مختص نشستیں حاصل نہیں کرپائی ہے۔
میں جن دنوں ’’صحافی‘‘ تھا اور ازخود پیش قدمی کی گنجائش ابھی تک ہمارے شعبے میں موجود تھی تو حافظ گل بہادر کو ’’گڈطالبان‘‘ تصور کیا جاتا تھا۔ یہ طالبان کی ایسی قسم تھی جو ’’غیر ملکی سامراج‘‘ کے قبضے میں آئے افغانستان کو ’’آزاد‘‘ کروانے کے لئے سرحد پار کارروائیوں میں مصروف رہتی تھی۔ پاکستان کی سرزمین پروہ عام اور پرامن شہریوں کی طرح رہتے تھے۔ہیلی کاپٹروں میں لاد کر ’’محاذ جنگ‘‘ پر لے جائے ’’ذہن سازوں‘‘ نے مجھے آج تک نہیں بتایا کہ حافظ گل بہادر ’’گڈ‘‘ سے ’’بیڈ‘‘ کب اور کیوں ہوا۔ یہ عقدہ کھلے تب ہی مزید بات ہوسکتی ہے۔پہلے مگر یہ معلوم کرنا ہوگا کہ آزادی صحافت کی موجودہ بہار میں مجھے پاک -افغان تعلقات کے بارے میں لب کشائی کی سہولت میسر ہے یا نہیں۔بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ