نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگوں کو بہلانے کیلئے نہیں بلکہ اپنے پریشان دل کو تسلی دینے کیلئے کئی دنوں سے ’’اچھی خبر‘‘ سننے کو بے قرار رہتا ہوں۔ کسی جانب سے مگر حرف تسلی سننے کو نہیں مل رہا۔وہ دوست جو دنیا کی بہترین اور مشہور یونیورسٹیوں سے علم معیشت کی ڈگریاں لے کر وطن لوٹے ہیں، معاشیات کی مبادیات سے نابلد مجھ جاہل کو سادہ ترین الفاظ میں یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مہنگائی ایک گانے والی ’’پارٹی‘‘ کی طرح ابھی تو شروع ہوئی ہے۔ان کے خیال میں بنیادی مسئلہ پاکستان پر غیر ملکی قرضوں کے علاوہ وہ قرض بھی ہے جو حکومت ہمارے ہی بینکوں سے بھاری بھر کم شرح سود پر اپنے روزمرہّ اخراجات چلانے کے لئے مسلسل لئے جارہی ہے۔ریاست روپیٹ کر جو ٹیکس جمع کرتی ہے وہ پہلے سے لئے قرض یا اس کے سود کی ادائیگی میں خرچ ہوجاتا ہے۔ زندگی رواں رکھنے کے لئے لہٰذا ریاست پاکستان مزید قرض لینے کو مجبور ہوجاتی ہے۔ یوں دائرے میں جاری ایک سفر ہے جس نے ہم سب کو اب حواس باختہ بنادیا ہے۔
کئی مہربان دوست تنہائی میں میرے ساتھ بیٹھے نہایت خلوص سے اس امر پر بھی دْکھ کا اظہار کرتے ہیں کہ 1980ء کی دہائی میں مجھے برطانیہ اور امریکہ میں صحافت ہی کے شعبے میں مناسب نوکریوں کی پیش کش ہوئی تھی۔ سوچتے ہیں کہ مجھے ان کو ٹھکرانا نہیں چاہیے تھا۔ انہیں قبول کرلیا ہوتا تو ان دنوں آرام سے قسطوں میں خریدے گھر کی تمام اقساط ادا کرنے کے بعد بینک میں بچاکررکھی رقم یا پنشن سے مطمئن محسوس کررہا ہوتا۔ کئی دوست بہت سنجیدگی سے یہ بھی سوچتے ہیں کہ میں نے اور میری بیوی نے دن رات کی محنت کے بعد اسلام آباد میں اپنا مکان تعمیر کرکے غلطی کی ہے۔بہتر یہی تھا کہ ہم اپنی جمع پونجی سے دوبئی میں کوئی فلیٹ لے کر اسے کرائے پر چڑھادیتے اور مزے کرتے۔ آپس کی بات ہے کبھی کبھار میں بھی تنہائی میں سوچتا ہوں کہ ہم دونوں میاں بیوی جب بوڑھے ہوجائیں گے تو اس وقت جو گھر ہم نے بہت چائو سے تعمیر کیا ہے اس کی دیکھ بھال مشکل ہی نہیں بہت مہنگی بھی ہوجائے گی۔
میری بچیوں کے سکول کے دنوں ہی سے جو دوست ہمارے گھر کے رکن بن گئے تھے بتدریج اعلیٰ تعلیم اور بعدازاں نوکریاں لے کر امریکہ اور یورپ جاچکے ہیں۔میری بڑی بیٹی بھی شادی کے بعد لندن منتقل ہوچکی ہے اور اب چھوٹی کو تعلیم کیلئے بھیجنا ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ وہ اور اس کی بہن بالآخر بڑھاپے کے آخری دنوں میں ہمارے اردگرد موجود ہوں۔بہرحال وطن عزیز کے معاشی مسائل کے بارے میں روزمرہ زندگی کے ٹھوس تقاضوں کی وجہ سے ذہن پر مستقل فکرمندی کا غبار مسلط رہتا ہے۔
ایک محاورہ کے مطابق ڈوبتا شخص تنکے کو بھی سہارے کی صورت دیکھنے کو مجبور ہوجاتا ہے۔شاید اسی باعث اورنگزیب صاحب شہباز حکومت کے وزیر خزانہ ہوئے تو مجھے بہت اچھالگا۔ اس ضمن میں مزید آگے بڑھنے سے قبل یہ وضاحت دینا لازمی ہے کہ ذاتی طورپر موصوف سے میں ہرگز واقف نہیں۔ان کی بطوروزیر خزانہ تعیناتی ہوئی تو مسلم لیگ (نون) کے حامیوں اور ناقدین کی کثیر تعداد نے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ طنز کے زہر میں ڈبوکر لوگ سوال یہ اٹھانا شروع ہوگئے کہ 1990ء سے تین سے زیادہ بار حکومت میں رہی پاکستان مسلم لیگ (نون) اپنی صفوں میں سے کوئی وزیر خزانہ کیوں ڈھونڈ نہیں پائی۔ اس کے علاوہ کہانیاں یہ بھی چلیں کہ اورنگزیب صاحب شہباز شریف کی ’’دریافت‘‘ نہیں۔انہیں درحقیقت ’’وہاں‘‘ سے ریاست کے معاشی امورسنوارنے کیلئے بھیجا گیا ہے۔
عام انسانوں کی اکثریت کی طرح میرادل بھی مشہور اور کامیاب شمار ہوئے اشخاص کے بارے میں منفی باتیں سن کر بہت خوش ہوتا ہے۔وزیر خزانہ اورنگزیب کے خلاف مگر طعنوں کا سلسلہ شروع ہوا تو میرے ذہن میں نجانے کیوں چند سوالات اٹھے جنہوں نے مجھے موصوف کی تعیناتی کو ’’اچھی خبر‘‘تصور کرنے کو مجبور کردیا۔ سب سے اہم پہلو جس نے مجھے سوچنے کو مجبور کیا یہ حقیقت تھی کہ وہ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کے ایک مشہور اور کامیاب تصور ہوتے بینک کے سربراہ کی حیثیت میں بھاری بھر کم تنخواہ اور پرکشش مراعات سے لطف اندوز ہورہے تھے۔بطور وفاقی وزیر انہیں جو تنخواہ اور مراعات ملیں گی وہ بینک سے ملی تنخواہ کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرہ ہوں گی۔ اس کے علاوہ ان دنوں جب ہمارے پڑھے لکھے پروفیشنلز کی کثیر تعداد غیر ملکی شہریت اور پاسپورٹ لینے کو مرے چلی جارہی ہے تو اورنگزیب صاحب نے وزارت خزانہ کا حلف اٹھانے سے قبل ہالینڈ کی شہریت ترک کردی اور دوبارہ پاکستانی شہری بن گئے۔
ان دونکات پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے مجھے یہ خیال بھی آیا کہ شہباز حکومت واقعتا پراپیگنڈہ کے محاذ پر قطعاََ بے اثر ہے۔میرے ذہن میں اورنگزیب صاحب کی بطور وزیر خزانہ تعیناتی کے حوالے سے جو ’’مثبت‘‘ نکات آئے انہیں ریگولر اور سوشل میڈیا پر مہارت سے اچھالتے ہوئے یہ کہانی پھیلائی جاسکتی تھی کہ اگر پاکستان کی معیشت واقعتا بہت تیزی سے ڈوبنے کی جانب بڑھ رہی ہے تو غیر ملکی شہریت کا حامل ایک کامیاب ترین بینکار اپنی ملازمت اور شہریت چھوڑ کر شہباز حکومت کی کابینہ میں کیوں شامل ہوا ہے۔ جو نکات میرے ذہن میں ازخود نمودار ہوئے ان کا ڈھول پیٹنے کی حکومت کے ماہرین ابلاغ نے ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ سوشل میڈیا پر اس کے ’’رضا کار‘‘ بلکہ ابھی تک ’’اجنبیوں‘‘کے کابینہ میں شامل ہونے کی بابت ماتم کنائی میں مصروف ہیں۔
وزیر خزانہ اورنگزیب کے بارے میں میرے ذہن میں جو مثبت نکات آئے تھے انہیں معاشی امور سے مجھ سے کہیں زیادہ آگاہ دوستوں کے روبرو رکھا تو وہ میری ’’سادگی‘‘ پر حیران ہونا شروع ہوگئے۔یاد دلایا کہ شوکت عزیز بھی دنیا کے معروف ترین بینکار شمار ہوتے تھے۔ وہ ایک عالمی بینک کی نوکری چھوڑ کر جنرل مشرف کے ملٹری ٹیک اوور کے بعد وطن آئے تھے۔ ہماری معیشت کو مگر دیرپا بنیادوں پر مستحکم نہ بناسکے۔ شوکت ترین ایک اور بینکار تھے جو عمران حکومت میں شامل ہوئے تو نہایت حقارت سے آئی ایم ایف کو للکارنا شروع ہوگئے۔ان دو افراد کے علاوہ مجھے حفیظ شیخ بھی یاد دلائے گئے ہیں جو جنرل مشرف کے بعد آصف علی زرداری اور عمران خان کیلئے معیشت ’’سنوارنے‘‘ کے لئے بہت چائو سے تعینات ہوئے اور کوئی ’’جلوہ‘‘ نہ دکھاپائے۔ ان دوستوں سے گفتگو کے بعد اندازہ ہوا ہے کہ پاکستان میں اس وقت پریشانی اور بدگمانی کی جو فضا طاری ہے اس کے ہوتے ہوئے ’’اچھی خبروں‘‘کا ذکر ناممکن ہے۔بحیثیت قوم ہم امید سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ مجھے خبر نہیں کہ اس کا ذمہ دار کسے ٹھہرائوں۔خود ہی کو دوش دئے کر کوسنا شروع ہوجاتا ہوں۔بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر