اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گوتم کا آخری وعظ۔۔۔||رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا پاکستان کے نامور صحافی ہیں ، سرائیکی وسیب کے ضلع لیہ سے تعلق ہے ، وہ مختلف موضوعات پر قومی روزناموں میں لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسانی جبلتوں میں سے ایک خطرناک جبلت انسان کا خود کو دوسروں سے مختلف اور برتر دکھانے کا شوق ہے۔انسان دوسروں کی توجہ چاہتا ہے۔ اس کیلئے وہ کئی اچھے برے حربے استعمال کرتا ہے۔ آپ کبھی غور کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہم روزانہ کچھ نہ کچھ ایسا کام کرتے ہیں جس سے دوسرے ہمیں توجہ دیں۔ ہم خود کو اہم سمجھیں۔ ہم سٹار بن جائیں۔ راتوں رات مشہور ہو جائیں۔ اگرچہ اکثر لوگوں کو راتوں رات امیر ہونے کا جنون ہوتا ہے لیکن اس سے بڑا خوفناک جنون راتوں رات مشہور ہونے کا ہے۔ بڑا آدمی بننے کا جنون۔ پہلے اپنا ملک فتح کرنے کا جنون تو پھر پوری دنیا فتح کرنے کا جنون۔ اگر کوئی اپنے ملک کا بادشاہ بن گیا ہے تو اگلا جنون شہنشاہ بننے کا ہوتا ہے کہ اب پوری دنیا آپ کی واہ واہ کرے۔ اس لیول تک پہنچنے کیلئے آپ انسانوں کا لہو بہانے‘ تباہی و بربادی پھیلانے سے بھی نہیں ڈرتے۔ آپ خود کو عظیم بنانے کے چکر میں انسانوں کی لاشوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ آپ نتائج کی پروا نہیں کرتے۔ پھر آپ کے نزدیک آپ کی عظمت اہم ہے۔ یہ سب کیڑے نما انسان آپ کی خدمت کیلئے پیدا ہوئے ہیں۔ ان کا لہو بہے گا تو ہی آپ کی عظمت کے جھنڈے گاڑے جائیں گے۔ آپ جتنے زیادہ انسان اپنی عظمت کی دھاک بٹھانے کیلئے قتل کرتے ہیں‘ مورخین آپ کو تاریخ کی کتابوں میں اتنا بڑا عظیم فاتح کا لقب دیتے ہیں۔ آپ کے خونی کارناموں کی داستانیں نسلوں تک چلتی ہیں۔ آپ کو ایک بہادر انسان مانا جاتا ہے جو عام انسان کی طرح خوف کا شکار نہیں ہوا بلکہ لاشوں کے ڈھیر لگا دیے۔آپ پھر خبطِ عظمت کا شکار ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس عام لوگ اپنی دھاک بٹھانے یا توجہ پانے کیلئے عام حرکتیں کریں گے۔ آپ یوٹیوب پر جا کر دیکھیں کہ عام لوگ محض لائکس‘ ویوز یا کمنٹس کیلئے جان پر کھیل جاتے ہیں کہ وہ ایسی کوئی حرکت کریں جس سے واہ واہ ہو جائے۔ایسے کلپس ملتے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے بندہ محض چند لائکس کیلئے مرنے پر تُل جاتا ہے۔ ایک کلپ میں ایک نوجوان ٹک ٹاک بنا رہا تھا‘ پیچھے سے تیز رفتار ریل گاڑی آرہی ہے‘وہ گاڑی سے کندھا ملا کر بالکل قریب سے پورے اعتماد سے چلتا آرہا ہے جیسے ٹرین ابھی رکے گی‘ اس سے پوچھے گی مہاراج اجازت ہو تو میں گزر جائوں اور جواب ملے گا کم بخت دیکھ نہیں رہی مہاراج چل رہے ہیں‘ ٹک ٹاک وڈیو بن رہی ہے‘ کچھ دیر صبر کر‘اتنی جلدی کاہے کو ہے تجھے۔ اتنی دیر میں تیز رفتار ٹرین ہماری نظروں کے سامنے اس جسم کو کاٹ کر دور پھینک دیتی ہے۔ جو وڈیو بنا رہا ہے وہ بھی اسکی طرح یہی تصور کیے ہوئے ہے کہ گاڑی اس نوجوان دوست کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ اس لیے وہ جتنا گاڑی کے قریب ہوسکتا ہے وہ بھی ہورہا ہے۔ وجہ ایک ہی ہے کہ جب یہ وڈیو ٹک ٹاک پر چلے گی تو ہزاروں ویوز ملیں گے۔ لوگ دانتوں میں انگلیاں دبا لیں گے کہ یا رب ایسی چنگاری بھی اپنی خاکستر میں تھی۔ اور پھر ہر طرف سے داد کے ڈونگرے برسیں گے اور آپ مشہور ہو جائیں گے۔ مشہور ہونے کا جنون جان لے گیا۔
یہ ایک ہی کلپ نہیں جہاں انسان جان پر کھیل گئے کہ مشہور ہونا ہے‘ ایسے ہزاروں کلپس ہیں۔ وہ کام کرنا ہے جو عام لوگ کرنے سے ڈرتے ہیں۔ کئی لوگ اونچی عمارتوں کے کونے سے سیلفی لیتے ہوئے نیچے گرے اور مارے گئے۔ ایک سیلفی جان لے گئی جو انہوں نے انسٹا گرام پر لگا کر داد پانی تھی‘ لائکس ملنے تھے‘ لوگوں کی توجہ لینی تھی‘ فالورز بڑھانے تھے۔ فالورز ملے یا نہ ملے لیکن گھر والوں کو ہمیشہ کیلئے دردناک تکلیف مل گئی۔ کئی لوگ پہاڑوں کی چوٹی کے آخری کناروں سے سیلفی یا ٹک ٹاک بناتے پھسل کر نیچے گرے اور مارے گئے۔ لائکس اور بلے بلے کا شوق انہیں چھ فٹ زمین کے اندر لے گیا اور پورا خاندان تباہ ہوا۔ سڑکوں پر آپ کو نوجوان ون ویلنگ کرتے نظر آئیں گے۔ درجنوں نوجوان بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن ٹک ٹاک یا انسٹا کا شوق انہیں لے ڈوبا۔ یوں اس سے پتا چلتا ہے کہ انسان کے نزدیک مشہوری وہ نشہ ہے جس کیلئے جان دی سکتی ہے یا جان لی جاسکتی ہے۔ واہ واہ کیلئے جان کی بازی لگائی جا سکتی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جب ٹی وی چینل شروع ہوئے تو کیا کیا تماشے ہم لوگ سکرین پر کرتے تھے کہ ریٹنگ ملے گی۔ ریٹنگ ملے گی تو آپ کی ذاتی مشہوری ہوگی تو چینل کو بزنس ملے گا کہ اس کے شو زیادہ دیکھے جاتے ہیں۔ یوں اچھے اچھے خاندانی سیاستدان بھی چینل پر ایکسپوز ہوئے۔ لوگ یقین نہیں کرسکتے کہ اتنا معزز لگنے والا بندہ چھچھورا ہے۔ یہ لو گ مرغوں کی طرح لڑے تاکہ لوگ انہیں بہادر سمجھیں۔ لوگوں نے ڈرامے دیکھنا بند کر دیے اور ٹی وی شوز نئی انٹرٹینمنٹ بن گئے۔ دھیرے دھیرے لوگ اس کھیل سے تنگ آگئے۔ ریٹنگز گرنے لگیں تو نیا تماشا ڈھونڈ لیا گیا اور یہ تھا سوشل میڈیا جو فری فار آل تھا۔ توجہ حاصل کرنے کا نیا ہتھیار ہاتھ آگیا۔ اخبار اور ٹی وی چینل پر اب بھی کوئی روکنے والا تھا۔ ایڈیٹر تھا‘ نیوز ایڈیٹر‘ سب ایڈیٹر‘ بیوروچیف تھے جو کسی بھی خبر کو شائع کرنے سے پہلے ہر زاویے سے اس کی تصدیق کرتے۔ بارہ گھنٹے کا وقت ہوتا تھا خبر چھپنے کا‘ لہٰذا ہر قسمی احتیاط برتی جاتی۔ ایڈیٹر کا رعب تھا۔ رپورٹر کو علم تھا کہ نہ صرف اخبار کی عزت خطرے میں پڑے گی بلکہ اس کی اپنی خبر غلط نکل آئی تو اپنا مستقبل بھی تباہ ہو گا‘ وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔ یوں ایک پروفیشنل گرومنگ ہوتی تھی۔ پھر ٹی وی آیا تو وہاں کسی حد تک یہ پروفیشنل پابندیاں کم تھیں اور جس کے ہاتھ میں مائیک آگیا اس نے تباہی مچا دی۔ اب لائیو اس کو کون روک سکتا تھا؟ خیر ابھی ہمیں علم نہ تھا کہ سوشل میڈیا ایج ہمارا انتظار کررہا ہے جہاں اخبار‘ یوٹیوب یا ٹویٹر کے مالک بھی آپ خود ہیں‘ خود ایڈیٹر‘ خود نیوز ایڈیٹر اور سب ایڈیٹر یا بیوروچیف ہیں۔ اب آپ ہی باس ہیں‘ جو چاہیں لکھیں‘ پوسٹ کریں یا کلپ لگا دیں۔ اور پھر ہم نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ میرے جیسوں نے یوٹیوب اور ٹویٹر یا فیس بک پر تباہی مچا دی تو ویوز کے بدلے یوٹیوب پر ڈالرز ملنا شروع ہوگئے۔ پھر مقابلہ شروع ہوگیا کس کا ٹویٹ لاکھوں دفعہ ری ٹویٹ ہوتا ہے۔ کتنے لاکھ لائکس ملتے ہیں‘کتنے ملین فالورز فیس بک‘ انسٹا گرام یا ٹویٹر پر ملتے ہیں۔ یہ انسانی جبلت کا نیا پہلو تھا۔ وہی پرانی خواہش کہ میں دوسروں سے بہتر ہوں۔ لوگ میرے کارناموں اور باتوں پر تالیاں بجائیں۔ مجھے عظیم سمجھا جائے۔ اور یوں ڈالروں‘ ویوز‘ لائکس اور کمنٹس کی خواہش نے پورے معاشرے کو تباہ کر دیا۔ رہی سہی کسر ٹک ٹاک نے پوری کردی۔ ایسے ایسے اچھے گھرانوں کے وڈیو کلپس سامنے آنا شروع ہوئے کہ یقین نہیں آتا۔ میرے جیسا ماڈریٹ اور پروگریسو بندہ بھی منہ میں انگلیاں دبا کر رہ گیا۔ ٹویٹر پر ایک مقابلہ شروع ہوگیا کہ آپ کیسا کمنٹ اپنے مخالف پر کرتے ہیں کہ ٹویٹر پر آگ لگ جائے۔ اس کے مخالف سو نہ سکیں۔ لوگ دھڑا دھڑری ٹویٹس کرتے رہیں۔ ہمارے ہاں تنقید کا مطلب دوسرے کو گالیاں دینا سمجھا جاتا ہے۔ یوں سوشل میڈیا پر مقابلہ ہے کہ بڑی گالی کون دے سکتا ہے۔جو بڑی گالی دے گا‘ کسی کے بڑے کی انسلٹ کرے گا‘ کسی کو ذلیل کرے گا وہی سکندر ٹھہرے گا۔ مشہور اور اہم ہونے کا جنون یہاں تک لے آیا ہے کہ اب ہم سب عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔
ہمارے ملتان کے شاعر اسلم انصاری صاحب کی شہرہ آفاق نظم ”گوتم کا آخری وعظ ‘‘یاد آتی ہے۔
یہ زندہ رہنے کا‘ باقی رہنے کا شوق‘ یہ اہتمام دکھ ہے
سکوت دکھ ہے‘ کہ اس کے کربِ عظیم کو کون سہہ سکا ہے
کلام دکھ ہے‘ کہ کون دنیا میں کہہ سکا ہے جو ماورائے کلام دکھ ہے
یہ ہونا دکھ ہے‘ نہ ہونا دکھ ہے‘ ثبات دکھ ہے‘ دوام دکھ ہے
مرے عزیزو تمام دکھ ہے!مرے عزیزو تمام دکھ ہے!

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: