اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

وزیراعظم عمران خان نے انٹرویو میں شکوہ کیا کہ قوم ٹیکس نہیں دیتی اور چاہتی ہے سہولتیں دنیا بھر کی ملیں۔ کیا واقعی پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے؟ یہ حکمرانوں کا پرانا طریقہ ہے کہ سارا ملبہ عوام پر ڈال دو اور مسلسل ملامت کرتے رہو۔

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعظم عمران خان نے انٹرویو میں شکوہ کیا کہ قوم ٹیکس نہیں دیتی اور چاہتی ہے سہولتیں دنیا بھر کی ملیں۔ کیا واقعی پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے؟ یہ حکمرانوں کا پرانا طریقہ ہے کہ سارا ملبہ عوام پر ڈال دو اور مسلسل ملامت کرتے رہو۔ یہی عمران خان صاحب کہتے تھے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے کیونکہ حکمران چور اور لٹیرے ہیں‘ حکمران ایماندار ہوں اور پیسہ عیاشیوں پر خرچ نہ ہورہا ہو تو کھربوں اکٹھے کیے جا سکتے ہیں۔ نواز شریف اور زرداری کی حکومتوں میں کم ٹیکس اکٹھا ہونے کی وجہ ان کے نزدیک یہ تھی کہ وہ کرپٹ تھے۔

لوگ حکمرانوں کو پیسہ دینے کے بجائے چیریٹی کرتے ہیں یا چوری کرتے ہیں‘ لیکن حکومت کو نہیں دیتے۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ لوگوں سے چندہ اکٹھا کر کے ہی کینسر ہسپتال بنایا کیونکہ لوگوں کو مجھ پر بھروسہ تھا کہ میں ان کا پیسہ غلط خرچ نہیں کروں گا۔ اگر وہ حکمران بن گئے تو بیرون ملک مقیم پاکستانی ان پر ڈالروں کی بارش کردیں گے‘ پاکستان دوسرے ملکوں کو قرضہ دے گا اور بیرون ملک سے لوگ پاکستان میں نوکریاں کرنے آیا کرینگے۔

عمران خان کی یہ باتیں لوگوں کو اس لیے اپیل کرتی تھیں کہ اس ملک کے جو بھی حکمران بنے انہوں نے اربوں روپے اپنے خاندانوں پر خرچ کیے یا اپنی عیاشیوں پر۔ شریف فیملی کو ہی دیکھ لیں‘ انہوں نے پندرہ ارب روپے صرف رائے ونڈ اور سکیورٹی کے نام پر خرچ کر دیے۔

مری کا گورنر ہاؤس‘ جہاں شریف خاندان ویک اینڈ گزارتا تھا‘ کی ساٹھ کروڑ روپے سے آرائش کرائی گئی۔ ہیلی کاپٹر سے کھانے اسلام آباد سے مری جاتے تھے۔ اسحاق ڈار نے چالیس کروڑ روپے کی تیس لگژری گاڑیاں منگوا لیں اور سب شریف خاندان میں پروٹوکول اور سکیورٹی کے نام پر بانٹ دی گئیں۔

نواز شریف نے عوام کے ٹیکسوں پر سو سے زائد بیرون ملک دورے کیے‘ پاکستان سے چار سو دن سے زائد باہر رہے اور سارا خرچہ عوام کے ٹیکسوں سے ادا ہوا۔ یہ صرف نواز شریف کی بات تھی‘ شہباز شریف اور ان کے گھرانوں کے اخراجات اور دیگر لوازمات اس کے علاوہ تھے جو درجنوں گاڑیاں اور سکیورٹی اہلکار لے کر پھرتے تھے۔ ایک وقت میں بتایا گیاکہ شریف خاندان کے مختلف لوگوں کی حفاظت پر تین ہزار سے زائد اہلکار دن رات ڈیوٹی دے رہے تھے۔

یوں جب لوگ عمران خان صاحب سے یہ سنتے کہ وہ حکمران بن گئے تو سب عیاشیاں اور خرچے بند ہوجائیں گے اور اربوں روپے اکٹھے ہوں گے تو وہ سمجھنے لگے کہ بندہ اگر ایماندار ہو تو سب مسائل حل ہوسکتے ہیں اور عمران خان صاحب سے زیادہ ایماندار کون ہوگا۔ خان صاحب بار بار کہتے کہ یہ عظیم قوم ہے لیکن لیڈر لٹیرے ملے‘ ان جیسا لیڈر مل گیا تو وہ قوم کی تقدیر بدل دے گا۔

وہ کہتے کہ نواز شریف اور زرداری کی کابینہ چوروں اور کرپٹ لوگوں پر مشتمل تھی اور اگر انہیں موقع ملا تو وہ ایسی کابینہ بنائیں گے کہ سارے اَش اَش کر اٹھیں گے۔ یوں عمران خان کا یہ امیج بنتا گیا کہ بیرون ملک پاکستانیوں اور اندورن ملک سے پیسہ اکٹھا کرنا ہے تو ان سے بہتر چوائس کوئی نہیں۔ مقتدر حلقے بھی قائل ہو گئے کہ بندہ ایماندار ہے۔

اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ وزیراعظم بنتے ہی عمران خان صاحب کو اس قوم میں ایک کے بعد ایک خامی نظر آنا شروع ہوگئی۔ اب کہتے ہیں کہ یہ قوم وہ نہیں جس کی وہ امید کر رہے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ کابینہ چھوٹی رکھوں گا‘ مگر انہوں نے تمام یار دوست مشیر بنا دیے۔

جن پرویز الٰہی کو وہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے انہی سے پاور شیئرنگ کی‘ جس اعلیٰ قیادت کا وعدہ کیا تھا وہ عثمان بزدار کی شکل میں پورا کیا‘ رہی سہی کسر اسلام آباد میں پوری کی جہاں علی زیدی‘ اعظم سواتی‘ زلفی بخاری‘ رزاق دائود اور دیگر دوستوں کو وزیر‘ مشیر بنایا۔ علی زیدی امریکہ سے دلوالیہ ہو کر آئے‘ انہیں وزیر بنا دیا کیونکہ وہ امریکہ میں تحریکِ انصاف کے لئے چندہ اکٹھا کرتے تھے۔

زلفی بخاری اس لیے وزیر بن گئے کہ وہ لندن ایئرپورٹ سے پک اینڈ ڈراپ کے علاوہ انہیں وہاں ٹھہرانے اور ان کی دوسری ضروریات کا خیا ل رکھتے تھے لیکن جب ارشد شریف نے ایک انٹرویو میں پوچھ کہ زلفی بخاری کون ہے تو خان صاحب نے کہا: وہ آٹھ برس پرانا دوست اور لندن کا بڑا کاروباری ہے۔ اس پر ارشد نے پوچھا کہ وہ کیا کاروبار کرتا ہے؟ جواب تھا کہ انہیں نہیں پتہ کہ وہ کاروبار کیا کرتا ہے۔

اسحاق ڈار نے جو چالیس کروڑ روپے کی گاڑیاں منگوائی تھیں اور شریف خاندان استعمال کرتا رہا‘ ان میں سے چھ گاڑیاں اب کابینہ کے ارکان استعمال کر رہے ہیں اور وزیراعظم نے خصوصی طور پر رولز ریلیکس کیے کیونکہ وزیر لگژری گاڑیاں استعمال نہیں کرسکتے تھے۔

خان صاحب نے ذاتی دوست زلفی بخاری کو خصوصی رعایت دی جو وہی کروڑوں کی گاڑی استعمال کررہے ہیں۔ علی زیدی کہاں پیچھے رہتے‘ انہیں بھی وہی گاڑی رولز ریلیکس کرکے دی گئی۔

قابل وزرا اور عالی شان لیڈرشپ کا پھر انہوں نے کبھی بھول کر بھی ذکر نہیں کیا۔ حکومت کے شروع کے دنوں میں بیرون ملک پاکستانیوں سے جب اپیل کرنے کا وقت تھا‘ تب یاد نہ رہا‘ اب انہیں سات فیصد سود پر ڈالرز اکاؤنٹ کھولنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ مطلب آپ امریکہ میں بینک سے ایک فیصد پر قرضہ لیں اور پاکستان میں اس قرضے کی رقم سے اکاؤنٹ کھلوا دیں توآپ کو اس ڈیپازٹ پر سات فیصد سود ملے گا‘ یوں گھر بیٹھے چھ فیصد کمائیں۔ اس سے بڑا بزنس بیرون ملک پاکستانی اور کیا کرسکتے تھے؟

بجائے اس کے کہ ہم بیرون ملک پاکستانیوں سے کچھ لیتے‘ الٹا ہم انہیں مہنگے سود پر بزنس دے رہے ہیں اور ہم قرضے مانگ کروہ سود ادا کریں گے۔ یہ تھے ہمارے بیرون ملک پاکستانی جنہوں نے عمران خان صاحب پر ڈالروں کی بارش کردینی تھی‘ اب وہی ہمیں سات فیصد سود پر ڈالرز دے رہے ہیں اور یہ مہنگا ترین قرضہ تصور کیا جاتا ہے۔

اب یہ گلہ ملاحظہ فرمائیں کہ قوم ٹیکس نہیں دیتی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 400 ارب روپے کا جی آئی ڈی سی ٹیکس‘ جو عوام سے اکٹھی کی ہوئی رقم تھی‘ کا پچاس فیصد معاف کرنے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ فیصلہ کیا گیا کہ عوام سے اکٹھے کئے گئے 400 سو ارب روپے میں سے 200 ارب روپے حکومت کو دے دیں اور باقی 200 ارب بڑے بڑے کاروباری لوگ خود رکھ لیں۔ میڈیا نے رولا ڈالا اور بات عدلیہ تک پہنچی تو فیصلہ حکومت کے حق میں آیا۔

خان صاحب نے پھر ارشد شریف کو انٹرویو میں کہا: بہتر تھا ہم یہ مقدمہ ہار جاتے۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ پورے 400 ارب روپے وصول کریں اورحکومت کا فیصلہ مسترد کردیا‘ جس نے عوام سے اکٹھا کیا گیا 200 ارب روپے ٹیکس معاف کر دیا تھا۔

جس ملک کا وزیراعظم سپریم کورٹ سے عوام کے ٹیکسوں کا 400 ارب روپے کا مقدمہ جیتنے کے بعد بھی کہتا ہو کہ بہتر تھا ہم ہار جاتے‘ اس کو شکوہ کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے؟ اب تو وزیراعظم بھی ایماندار ہے‘ پھر بھی عوام ٹیکس نہیں دے رہے؟ کمال ہے!

خان صاحب کے اس شکوے اور اپنے ڈونرز‘ دوستوں‘ وزیروں کے بجلی گھروں اور کاروباریوں کو انہی عوام سے اکٹھے کئے گئے 200 ارب روپے ٹیکس کی معافی پر ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک گھر میں بندر اور گھوڑا رہتے تھے۔

رات کو بندر کچن جا کر آٹا کھا جاتا اور واپسی پر کچھ آٹا لا کر گھوڑے کے منہ پر مل دیتا۔ صبح مالک گھوڑے کے منہ پر آٹا دیکھ کر گھوڑے کی پٹائی کرتا جبکہ بندر دور بیٹھا دانتوں میں خلال کررہا ہوتا۔ عوام کا حال اسی گھوڑے کا سا ہو چکا ہے جس کے منہ پر آٹا مل کر روز پٹائی ہوتی ہے۔

%d bloggers like this: