اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملتان یونین آف جرنلسٹس کے انتخابات۔۔۔طارق اسماعیل

طارق اسماعیل سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والےصحافی ، استاد اور قلمکار ہیں، وہ روزنامہ خبریں اور روہی ٹی وی سمیت متعدد اخبارات ریڈیو اور ٹی وی چینلز کے لئے صحافتی خدمات انجام دیتے رہے ہیں، ڈیلی سویل کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں،

طارق اسماعیل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انتخابات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ اس سے ترقی کاعمل مسلسل رواں رہتاہے۔یہی وہ عمل ہے جس سے اقوام عالم اپنی غلطیوں کو باربار دہرانے کی بجائے ان کی اصلاح کرتے ہیں۔ہمیں اپنے رویئے درست کرنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں الیکشن ہر گھر ،ہر برادری سمیت ہر جگہ ہونے چاہیں۔لیکن بدقستی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں۔انتخابات کا تسلسل ہمیںرویوں کی آلودگی صاف کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سات سال بعد ملتان یونین آف جرنلسٹس کے انتخابات ہوئے جس میں دو پینل مدمقابل تھے۔ اس سال بھی رات میں بیٹھ کر عہدوں کو بانٹ کر فہرست مرکز کو بھجوائی جاچکی تھی جس پرکچھ ساتھیوں نے احتجاج کیا اور اسی الیکشن کمیٹی نے الیکشن کا انعقاد کرایا جس نے نامزدگیوں کی فہرست اسلام آباد بھجوائی تھی ۔5مارچ کو ملتان میں ایم یوجے کے انتخابات کیا تھے صحافیوں کا ایک اجتماع تھاحالانہ یہ سالانہ اجتماع ہوناچاہیئے۔ پریس کلب کے ہال میں ہونےوالی پولنگ میں صحافیوں نے بھرپور شرکت کی اور ایک جوش وجذبہ رہا۔ایک پینل نے رؤف مان کی صدارت میں مختلف عہدوں کے لئے انتخابات میں حصہ لیا ۔ملتان یونیٹی گروپ(ایم یوجی)کے نام سے بننے والے پینل میں شاہد رانا صدارتی امیدوار تھے اور سعید مکول جنرل سیکریٹری کے امیدوار بنے۔شاہد رانا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ڈنمارک سے جرنلزم کا ڈپلومہ کرنے کے سبعد ملتان اور اسلام آباد کے مختلف اداروں میں کام کرچکے ہیں۔ صحافیوں کے حقوق کی تواناآواز سمجھے جاتے ہیں۔ ایک پینل چونکہ طویل عرصے سے مختلف عہدوں پر رہا اور دوسرے پینل میں اکثریت نئے چہروں کی تھی۔ایم یو جی پینل میں مکرم خان،پرویز ملک ،ناصر ظہیروسیم خان،عمران علی خان،حمیرہ شفیق،ضیا خان،شیخ نعیم،نیا زگل،مرز ااحمد علی،اور زینب گردیزی شامل ہیں۔شاہد رانا کے پینل میںشزمل زینب گردیزی ہمارے پی ٹی سی ایل والے دوست عمران گردیزی کی صاحبزادی ہیں۔الیکشن میں سینئر جونیئر صحافیوں نے جوش وخروش سے حصہ لیا۔ہمارے لئے رؤف مان پینل دوسرا پینل تھا لیکن ہم ان کامخالف پینل تھے۔وہ ہمارے اپنے تھے لیکن ہم ان کےلئے مخالف تھے۔ خیر انتخابات ایک خوبصورت مرحلہ تھا جو انتہائی خوش اسلوبی سے مکمل ہوا۔میں اپنے پینل کے لئے انتخابی مہم کے علاوہ پولنگ ڈے پر بھی ساتھ ساتھ رہا۔ میں نےسینئرصحافی اور اپنے تائید کنندہ نثار اعوان سے ووٹ مانگا تو انہوں نے کہاکہ میں اپنا ووٹ توآپ سمیت پینل کے بیشتر امیدواروں کو دے رہاہوں لیکن آپ کے کچھ امیدوار کنفیوز ہیں،ان پرتوجہ دیں۔ملتان کی صحافت کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والےمنفرد اسلوب کے کالم نگار رضی الدین رضی جو کہ دوسرے پینل سے الیکشن کا حصہ بھی تھے میں ان کے آنے پر اپنا پینل ان کو دیا تو اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئےانہوںنےکہا کہ آپ کو بھی مجھ سے ووٹ مانگنے کی ضرورت ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ مجھے پتا ہے ، میں نہ بھی مانگوں آپ مجھے ہی ووٹ دیں گے۔لیکن میں تو ان سے بھی ووٹ مانگ رہاہوں جو مجھے کبھی ووٹ نہیں دیں گے۔لیکن جو مجھ سے محبت کرتے ہیں ،ان سے ووٹ مانگنادراصل میرا اظہار محبت ہے۔کئی سال پہلے ایم یو جے کے انتخابات میں رضی الدین رضی صدارت کے امیدوارتھے اور میں ان کےپینل میں شامل تھا۔جس پینل سے رضی صاحب الیکشن میںامیدوار تھے انہی لوگوں نے ملکراس وقت رضی الدین رضی سمیت اس پینل کے کئی امیدواروں کو شکست دینے کےلئے بہت زور لگایا تھا اور آج رضی صاحب انہی کے پینل کےمضبوط امیدوار تھے۔یہ انتخابات کا حسن نہیں اور کیاہے۔صحافت سے ایک روحانی سلسلہ کی طرف منتقل ہونے والے احمد رضا بزدار کوآتے دیکھ کر میں نے آگے بڑھااوران کے گھٹنے چھوتے ہوئے ووٹ کی درخواست کی تو احمد بزدار نےووٹ دیمے سے انکار کیا۔میرا ووٹ اپکے پینل میں کسی بھی میدوار کو نہیں ملے۔میں نے اپنے بارے استفسار کیاتو احمد بزدار کی ناں ہی نکلی۔مجھےووٹ نہ ملنے کا ملال نہیں تھا لیکن خوشی اس بات کی تھی کہ بزدار نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جواب دیا۔بزدار واقعی ایسے ہوتے ہیں۔سترہ سال پہلے ملتان پریس کلب کے انتخابات میں احمد بزدار پہلی بار دوستوں کے منع کرنے کے باوجود الیکشن میں کودا ،تو راؤاسد،سمیر اجمل اور یوسف عابد کے ساتھ رات دن ایک کرکے اس کی انتخابی مہم چلائی۔ووٹ کے لیئے منتیں بھی کیں اور منتیں بھی مانیں۔پورے گروپ میں سےصرف احمد بزدار ہی اکیلاکامیاب ہوسکا تھااور اس انتخابات میںمجھے پینل کا اکیلا ووٹ ہی دینے سے انکار کردیا۔لیکن اس کے باوجود بہترین تعلقات ہیںاور سچی محبت قائم ہے۔ کیا یہ جمہورکی آواز نہیں۔یہی تو جمہوریت ہے۔استاد صحافت اور خبر کے جادوگر سمجھے جانے والے میاںغفاراور شوکت اشفاق ووٹ کاسٹ کرنے آئے تو دونوں پینل میں شامل امیدواروں سمیت صحافیوں نے ان کابھر پور طریقے سے استقبال کیا۔ صحافت میں جناب شوکت اشفاق میرے پہلے استاد ہیں اور روزنامہ پاکستان ملتان بیورو سے میں نے آغاز کیا تو ان سے بہت کچھ سیکھا۔استاد صحافت میاں غفار نے مجھے خبریں اسلام آباد میں کام کرنے کا موقع دیا اور ان سے جارحانہ انداز میں رپورٹنگ کا اسلوب سیکھنے کو ملا۔ایک بار ملتان ٹی ہاؤس میں میاں غفارصاحب نے کہاتھاکہ روزنامہ جنگ لاہور میں شوکت اشفاق میرے استاد رہے ہیں۔ میرے لیئے یہ کیا کم فخر کی بات ہے میں ان ہستیوں کا شاگرد ہوں۔ دونوں نے ووٹ کے ساتھ دعائیں بھی دیں۔ آفتاب کے چیف ایڈیٹر اسد ممتاز نے بھی کمال محبت کی۔خواتین کے حقوق کے لئےتواناآوازاور سینئر صحافی انیلہ اشرف ووٹ دینے آئیں تو انہوں نے بھی پینل کے ساتھ دینے کی یقین دہانی کرائی۔ انیلہ اشرف کا شمار ملتان کے ان صحافیوں میں ہوتا ہے کہ جن کی خبر آپ بغیر پڑھے نیوز روم بھیج سکتے ہیں یا چھاپ سکتے ہیں۔ نوائے وقت کے چیف رپورٹر عارف کالروایم یوجے کا حصہ تو نہیںتھے لیکن انہوں نے بھرپور انتخابی مہم چلائی۔ الیکشن کے روز ہماری بھتیجی اور ایگزیکٹوکونسل کی امیدوار زینب گردیزی نے باوقار طریقے سے انتخابی مہم چلائی اورہمارے پینل سے کامیاب ٹھہریں۔حمیرہ شفیق نے بھی بہت محنت کی۔ ملتان کی صحافت کا خوبصورت چہرہ مکرم خان خانزادہ شاہد رانا پینل سے فنانس سیکریٹری فنانس بنے۔مندوب کے ساتھ خاکسار (طارق اسماعیل)کے ساتھ ارشد ملک،جہانگیر ترین ،اسلم جاوید نے کامیابی حاصل کی۔ہمارے چار امیدوار پولنگ سے ایک رات پہلے ہی دوسرے پینل کو پیارے ہوگئے۔یہی تو انتخابات ہیں اگر وہ ایسا نہ کرتے تو کیسے پتا چلتا کہون کیاہے۔ایک ساتھی نے آکر بتایا کہ ان کے آفس میںایک شخص تمام ورکرزپر دباؤڈال رہاہے کہ اس پینل کو بالعموم اور طارق اسماعیل کو بالخصوص ووٹ نہ دیئے جائیں لیکن اس دفتر کے بیشتر دوست ووٹ کی تصاویر بھی دکھاتے گئے۔،یہ کیا کم محبت ہے۔ اور یہ محبت بھی اس الیکشن کی مرہون منت ہے۔ الیکشن میں ملتان پریس کلب میں جو رونق رہی وہ ایک طویل عرصے کے بعد دیکھنے کو ملی۔ ایک صحتمند سرگرمی ہوئی۔ رؤف مان پینل اکثریت کے ساتھ نمایاں رہا۔ہمارے صدارتی امیدوار شاہد رانانے اپنے مدمقابل رؤف مان کو مبارکباد اور ان کی جیت کے جشن میں حصہ لیا۔ صحافیوں کے حقوق کے لئے ہمیشہ ساتھ دینے کا اعادہ کیا۔ووٹرزنے مبارکباد دیتے ہوئے کہاکہ کوئی جیت کر ہارا اور کوئی ہار کر بھی جیت گئےہیں۔ الیکشن کیوں کر اور کیسے انعقاد پذیر ہوئے۔ ہمیں تمام دوستوں نے ووٹ کیا ور سپورٹ دی ان کا تہہ دل سے شکرگزار۔دوست سوچیں ،ہمارےطریقہ اور رویئے پر اعتراض ہوسکتاہے ،لیکن مؤقف درست اور مضبوط تھا۔ایم یوجے کے سات سال بعد الیکشن کرانے کی تحریک کے پہلے درویش اور فقیر کو بھی دعاؤںمیں یادرکھیں۔اللہ ہم سب کے حامی و ناصر ہوں۔

%d bloggers like this: