نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سے ہوش سنبھالا ہے پاکستان کے حالات نے دل ودماغ کو اکثرپریشان ہی رکھا۔ اس کے باوجود صحافت شروع کرنے کے پہلے دن سے ہمیشہ اس امید کے ساتھ مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا کہ اچھے دن یقینا آئیں گے۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ کم از کم رواں صدی کے آغاز تک ہماری حکومتوں اور افسر شاہی کے چند افراد میری دی خبروں کے بارے میں فکر مند ہوکر جس مسئلے کا ذکر ہوا، اس کے حل کیلئے مشورے طلب کرلیا کرتے۔ بتدریج مگر ایوان ہائے اقتدار میں بیٹھے افراد بے حس ہونا شروع ہوگئے۔ اب ہر کالم لکھتے ہوئے پورے اعتماد سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ اسے فقط میرے قا ری ہی پڑیں گے۔ حکمران اشرافیہ تک اس کالم میں لکھی بات نہیں پہنچے گی۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ میری لکھی کسی بات کو سیاق وسباق سے جدا کرکے حکمرانوں کے کان میں یہ ’’خبر‘‘ ڈالی جائے کہ میں نے فلاں فقرے کے ذریعے لوگوں کو تخریب پر اْکسانے کی کوشش کی ہے۔ حکمرانوں کی بے حسی سے بددل ہوکر کئی برس پہلے لکھنے سے جان چھڑالینی چاہیے تھی۔ چھٹتی نہیں ہے لیکن یہ (علت) لگی ہوئی۔
گزشتہ دو دِنوں سے اب حکمرانوں سے یہ فریاد کرنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ خدارا سوشل میڈیا کے ٹویٹر، جسے اب ایکس کہا جاتا ہے، والے پلیٹ فارم تک رسائی میں طویل وقفے نہ آنے دئے جائیں۔ اپنی فریاد دہرانے سے قبل نہایت دیانت داری سے یہ اعتراف کرتا ہوں کہ مذکورہ پلیٹ فارم نے اندھی عقیدت ونفرت میں منقسم ہوئے معاشروں میں انتشار بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے باوجود اس پلیٹ فارم کے ذریعے آپ کو پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے اخبارات اور میڈیا ہائوسز میں شائع یا نشر ہوئے مضامین اور خبروں سے بھی آگاہی میسر ہوجاتی ہے۔میں جو کالم لکھتا ہوں جب ٹویٹر پر پوسٹ ہوجائے تو ہزاروں کی تعداد میں قاری نہ صرف اسے پڑھتے ہیں بلکہ کالم چھپتے ہی اس میں لکھی رائے پر تبصرہ آرائی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ بارہا اس پلیٹ فارم کی بدولت مجھے اپنے کالم میں لکھے تاریخی واقعات کی تصیح نصیب ہوئی۔ اکثر یہ بھی یاد دلایا جاتا کہ جس واقع کا ذکر کیا ہے وہ درحقیقت فلاں برس کے فلاں مہینے میں نہیں بلکہ فلاں برس کے فلاں مہینے میں ہوا تھا۔
گزشتہ دو دِنوں سے لیکن مجھے اسلام آباد بیٹھے یہ سہولت اکثرمیسر نہیں ہوئی۔ حکومت کے کسی ذمہ دار وزیر یا افسر نے یہ سمجھانے کا تردد ہی نہیں کیا کہ مذکورہ پلیٹ فارم کو کن وجوہات کی بنیاد پر اگر مستقل طورپر بند نہیں تو معطل کیوں کردیا گیا ہے اور تعطل کے یہ وقفے کتنے روز تک جاری رہیں گے۔ سرکاری وضاحتوں کے بغیر دورِ حاضر کے ایک اہم ترین ذریعہ ابلاغ سے یکسر محروم ہوجانا کئی حوالوں سے بہت تکلیف دہ ہے۔اس سے بھی زیادہ اہم مگر یہ حقیقت ہے کہ حکمران ہمیں اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ جو فیصلے لیتے ہیں ان کا جواز فراہم کرنے کی کوشش کریں۔ٹھوس حالات سے قطعی لاعلم ہوتے ہوئے فقط تکے لگاتے ہوئے میں یہ فرض ہی کرسکتا ہوں کہ گزشتہ چند دنوں سے تحریک انصاف کے حامی اور خاص طورپر بیرون ملک مقیم ’’دلاور‘‘ اپنے ٹویٹر کے ذریعے ایسی داستانیں پھیلارہے ہوں گے جو وطن عزیز میں خلفشار بھڑکانے کا سبب ہوسکتی ہیں۔ ریاست وحکومت پاکستان کو مگر یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایسے اکائونٹس اور افراد کی نشاندہی کے بعد ان کے اکائونٹس معطل کرواسکتی ہے۔
یاد رہے کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ پہلے ٹویٹر اور اب ایکس کہلاتے پلیٹ فارم پر واہی تباہی پھیلانے کا عادی تھا۔ بارہا متنبہ کرنے کے باوجود باز نہیں آیا تو اسے بین کردیا گیا۔ طیش میں آکر اب اس نے اپنے دوستوں کی سرمایہ کاری سے ٹویٹر سے ملتا جلتا پلیٹ فارم بنالیا ہے۔ ٹرمپ مسلسل صدر بائیڈن کو 2020ء کا امریکی صدارتی انتخاب ’’چرانے‘‘ کا مرتکب ٹھہراتا ہے۔ مذکورہ الزام مگر امریکہ کے مستند چینل اپنی سکرینوں پر نشر ہونے نہیں دیتے۔ چند ماہ قبل ٹرمپ کے انتہا پسند حامی نیٹ ورک -فوکس- کے خلاف غلط معلومات پھیلانے کا مقدمہ ہوا اور اسے بھاری بھر کم جرمانہ ادا کرنے کے بعد اپنی جند چھڑانا پڑی۔ اسی نیٹ ورک کا ایک مشہور ومقبول ترین اینکر بھی نوکری سے نکالنا پڑا۔ وہ اب وی -لاگ وغیرہ سے روزی کمارہا ہے۔ ٹرمپ کا حوالہ میں نے اس لئے دیا ہے کہ اگر اس سطح کا لیڈر ’’فساد پھیلانے‘‘ کے ا لزام میں ٹویٹر پر بین ہوسکتا ہے تو ہماری ریاست کی نظر میں ’’مفسد‘‘ تصور ہوتے ا فراد بھی اس پلیٹ فارم سے محروم کروائے جاسکتے ہیں۔ہمارے ہمسائے میں بھارت کی مودی سرکار نے بھی ٹویٹر انتظامیہ سے مذاکرات کے ذریعے اس کی دانست میں ’’فساد‘‘ پھیلاتے بے تحاشہ افراد کو اس کے استعمال سے محروم کروایا ہے۔
سوال اٹھتا ہے کہ اگر ہماری حکومت چند افراد کی جانب سے پہلے ٹویٹر اور اب ایکس کہلاتے پلیٹ فارم کی بدولت پھیلائے پیغامات سے پریشان ہے تو ٹھوس شواہد اور واجب دلائل کے ساتھ ٹویٹر انتظامیہ سے رجوع کیوں نہیں کیا جارہا۔ ہم جیسے ہزاروں افراد کو ان کی مبینہ فتنہ انگیزی کی سزا کیوں دی جارہی ہے۔ ڈس انفارمیشن کے ذریعے فساد سوشل میڈیا کے ذریعے یقینا پھیلایا جاسکتا ہے۔ ڈس انفارمیشن مگر ٹویٹر کے ذریعے ہی پھیلائی نہیں جاتی۔ آج سے کئی سوبرس قبل جب ٹیلی فون بھی ا یجاد نہیں ہوا تھا تو انگریز کے قبضے میں آئے برصغیر میں ’’روٹیاں‘‘ شہر شہر گھومنا شروع ہوگئیں۔ نظر بظاہر ایک شہرسے دوسرے شہر ان روٹیوں کو بھیجنے کا مقصد کوئی جان ہی نہ پایا۔1857ء کے غدریا جنگ آزادی کے بعد دریافت ہواکہ ان کے ذریعے لوگوں کو بغاوت کے لئے تیار کی جارہا تھا۔ 1857ء میں بغاوت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انگریز کے تنخواہ دار سپاہیوں کو ایسی گولیاں استعمال کرنے کا حکم ہواجنہیں چلانے سے قبل منہ سے کاٹنا پڑتا تھا اور افواہ یہ تھی کہ جو حصہ کاٹنا ضروری ہے وہ مسلمانوں اور ہندوئوں کیلئے ’’حرام‘‘ تصور ہوتے جانوروں کی کھال سے بنایا گیا ہے۔
1857ء کا ذکر کرنے کو یہ سمجھانے کیلئے مجبور ہوا ہوں کہ معاشروں میں بغاوتوں کو اْکساتی افواہوں کو ٹویٹر جیسے پلیٹ فارموں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تاریخ کے کسی مرحلے پر کوئی معاشرے ٹھوس وجوہات کی بنا پر مضطرب ہوتو وہ افواہوں پر اعتبار کرنے کو ہر دم آمادہ ہوتا ہے۔سرگوشیوں پر پابندی لگانا قطعاََ ناممکن ہے۔ بنیادی ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹھنڈے دل سے یہ سوچا جائے کہ خلق خدا کن ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر مضطرب محسوس کررہی ہے۔ان وجوہات کا دیانتداری سے جائزہ لینے کے بعد ان کے تدارک کی ضرورت ہے۔8فروری کے دن ہمارے ہاتھوں میں موجود موبائل فون قطعاََ ناکارہ تھے۔ اس کے باوجود اس روز تحریک انصاف کے ممکنہ ووٹر حیران کن تعداد میں اپنے گھروں سے نکلے اور اپنی ترجیح کے حامیوں کو ووٹ دے کر ’’فرض ادا کردیا‘‘والی تسکین پائی۔ ٹویٹر کی بندش یا تعطلی بھی وہ مقاصد حاصل نہیں کر پائے گی جو ہمیں بتائے ہی نہیں گئے ہیں۔بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر