اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نظریاتی ملمع کاری!۔۔۔||رسول بخش رئیس

رسول بخش رئیس سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے رہنے والے ہیں وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ملکی ،علاقائی اور عالمی معاملات پر مختلف اخباروں ،رسائل و جرائد میں لکھ بھی رہے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیکھنے میں تو کئی سیاسی جماعتیں انتخابی میدان میں اتریں اور بلند بانگ دعوے کیے کہ وہ نظریاتی ہیں‘ کسی مخصوص نظریے کے ساتھ اُن کی وابستگی ہے‘ اور وہ اس کے مطابق اقتدار میں آکر پاکستان کو ازسر نو تعمیر کریں گی۔ کسی پارٹی کا منشور پڑھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کا سیاسی فلسفہ کیا ہے۔ انتخابات کے میدان میں جانے سے پہلے ہی تمام سیاسی جماعتوں کی اپنی اپنی شناخت ایک عرصہ سے قائم ہے۔ پہلے ہم علاقائی جماعتوں کا ذکر کرتے ہیں‘ جو مختلف صوبوں میں لسانیت کی بنیاد پر سیاست کرتی چلی آئی ہیں۔ ان میں بلوچ‘ سندھی‘ مہاجر‘ سرائیکی اور پشتون سیاسی گروہ شامل ہیں جو وفاق اور پنجاب کو اپنی پسماندگی‘ عدم مساوات‘ محدود صوبائی اختیارات اور بے شمار جائز اور من گھڑت محرومیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ہمارے ملک کے سماجی اور تاریخی پس منظر میں زبان اور علاقائی شناخت لسانی جماعتوں کی سیاست کا استعارہ رہے ہیں۔ انتخابی سیاست کے کئی عشروں کے نتائج سامنے رکھیں تو لسانی گروہوں کی ان کے علاقوں کے عوام کی نظروں میں اہمیت کم ہوئی ہے‘ لیکن یہ کہنا کہ لسانی نظریہ اور اس کی سیاست دم توڑ چکے‘ درست نہ ہو گا‘ خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے قبائلی علاقوں میں۔ اس خطے کی تاریخ گواہ ہے کہ جب قومی سیاسی جماعتیں اپنا اثر و رسوخ مختلف صوبوں میں بڑھانے میں کامیاب ہوتی ہیں تو لسانیت کی سیاست کمزور پڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ 2018 ء کے انتخابات میں خیبر پختونخوا اور کراچی میں دو طاقتور لسانی جماعتوں کی جگہ ایک قومی پارٹی نے لے لی۔ اس کے برعکس جب قومی سیاسی جماعتیں کمزور ہوئیں یا کر دی گئیں تو ان کی جگہ لسانی دھڑے ابھرنے لگے۔ سندھ کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک بڑی قومی جماعت کو شہری علاقوں سے نکالنے کے لیے مہاجر قومیت کا نظریہ تراشا گیا‘ اور پھر جن بوتل سے باہر آیا تو سندھ میں جو خون خرابہ ہوا‘ اس کی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ اب بھی علاقائی جماعتیں اپنی شناخت اور چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں پارلیمان کے اندر اور اس کے باہر موجود ہیں۔ قوم اور ریاست سازی ایک ارتقائی عمل ہے اور قومی شناخت اور یک جہتی کیلئے ضروری ہے کہ علاقائی اور لسانی انفرادیت کو بزورِ طاقت نہیں‘ مفادات کے اشتراک اور نمائندگی کے اصولوں سے قومی دھارے میں لایا جائے۔دوسرا بڑا سیاسی دھڑا مذہبی جماعتوں کا ہے‘ جو مذہب کے نام پر سیاست کرتی ہیں۔ جماعت اسلامی ان میں سب سے نمایاں‘ منظم اور نظریاتی افکار کے لحاظ سے معتبر اور دنیائے اسلام میں ہم خیال اسلامی جماعتوں میں ایک رہنما کی حیثیت رکھتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اوصاف اور تسلیم شدہ خدوخال کے مطابق سیاسی پارٹی کے معیار پر صرف یہی جماعت پورا اترتی ہے۔ تربیت یافتہ‘ مخلص اور نظریاتی کارکنوں کی تعداد میں کوئی دوسری پارٹی جماعت اسلامی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک وہ مقام نہیں بنا سکی جو مذہبی جماعتوں نے مصر‘ تیونس اور الجیریا کے عوام میں بنایا ہے۔ دیگر مذہبی جماعتوں کا رنگ اور نقشہ فرقہ واریت پر قائم ہے۔ انکے رہنمائوں کے مخصوص لباس اور زبان و کلام ہی سے کسی فرقے سے تعلق کا اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں؛ اگرچہ یہ سب اسلامی ریاست اور اسلامی نظام کے نظریے کا پرچار کرتی ہیں۔
1970ء کے انتخابات کے بعد 2002ء کے انتخابات ایسے تھے جب متحدہ مجلس عمل کے پرچم تلے مذہبی جماعتوں کی کارکردگی لسانی گروہوں کی نسبت کہیں بہتر رہی۔ علاقائی جماعتوں کی طرح مذہبی جماعتیں بھی اس وقت زور پکڑتی ہیں جب قومی جماعتوں کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے۔ قومی سیاسی جماعتیں‘ جو بھی ان کا نظریہ ہو‘ انتخابی سیاست میں وسیع تر اتحاد کو اقتدار میں آنے کیلئے ناگزیر خیال کرتی ہیں۔ تیسری قوت کے ابھرنے سے پہلے تقریباً دو جماعتی نظام کی طرف پیش رفت ہو چکی تھی۔ اب بھی محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے معروضی حالات میں دو واضح دھڑے حکومت اور حزبِ اختلاف کی صورت میں سامنے آئیں گے۔ یہ ہمارے انتخابی نظام کا جبر ہے کہ چھوٹی جماعتوں کا کردار آہستہ آہستہ ختم ہوتا جاتا ہے۔ وہ اپنی سیاسی ضرورتوں کے نتیجے میں کسی ایک اتحاد کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ہماری قومی سیاسی جماعتیں اب وہی دو رہ گئیں جو دو دہائیوں تک ایک دوسرے کے مدمقابل رہی ہیں۔ علاقائی جماعتیں ہوں یا ان کا مذہبی رنگ ہو‘ نظریاتی نعروں کے برعکس اپنے مفادات کی سیاست کرتی ہیں۔ ہر دور میں ان سب کا رخ اُس جماعت کی طرف رہا ہے جو حکومت بنانے کیلئے مطلوبہ تعداد کے قریب ہو۔ حکومتیں بنانے‘ گرانے اور سیاسی تنائو کے ماحول میں جہاں آزاد امیدوار فیض یاب ہوتے ہیں‘ وہاں علاقائی اور کچھ مذہبی جماعتوں نے بھی اپنے نظریاتی منشوروں کو ریشمی رومالوں میں لپیٹ کر اقتدار میں حصہ دار بننے کا سودا کرنے میں کبھی تامل نہیں کیا۔ ماضی کی بات ہو رہی ہے‘ آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ نظریات اب پرانے زمانوں کی باتیں‘ آج سکہ رائج الوقت کچھ اور ہے۔
قومی جماعتوں کی پہچان ان کی ملک کے ہر صوبے میں کچھ نمائندگی ہے۔ سیاسی ٹوٹ پھوٹ کے عمل میں وہ جماعتیں بھی‘ جو تمام صوبوں میں عوامی سطح پر خاطر خواہ اثرو رسوخ رکھتی تھیں‘ سکڑ کر صرف ایک صوبے تک محدود ہو گئیں۔ یہ سطور انتخابات کے نتائج آنے سے پہلے لکھ رہا ہوں مگر خدشہ ہے کہ قومی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرنے والی جماعتیں صوبائی بن کر نہ رہ جائیں گی۔ ایسی صورتِ حال بھی سیاسی عمل کا حصہ ہے کہ حکومت سازی میں سیاسی اتحاد اشرافیہ کے درمیان گہرے رشتے بناتے ہیں جو آگے چل کر ایک الگ جماعت میں ڈھل جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
آج کے دور میں نظریات کی باتیں صرف پرانی طرز کے دانشوروں کی محدود محفلوں میں سنائی دیتی ہیں جو جلد ہی شکایات‘ بے بسی اور نامساعد حالات کے سیلاب میں بہہ کر روایتی سیاست کے ملبے پر ڈھیر ہو جاتی ہیں۔ دنیا میں اب نظریات صرف مغرب کی طرف سے آتے ہیں اور غالب نظریہ تو گزشتہ کئی صدیوں سے قائم ہو چکا ہے: سرمایہ دارانہ نظام‘ ریاستوں کا محدود دائرۂ کار‘ نجکاری‘ عالم گیر رسائی اور کچھ شرائط کے ساتھ آزاد تجارت۔ ہم جیسے ملک اس نظریے کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں‘ کوئی اور نظریاتی راستہ اختیار کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس نظریے پر عملداری کئی ذرائع سے قائم کی جاتی ہے جس میں عالمی بینک‘ عالمی تجارتی تنظیم‘ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور باہمی تجارتی معاہدے شامل ہیں۔ اشتراکیت کے دم توڑنے کے بعد ہی تو مغرب نے نعرہ لگایا تھا کہ اب نظریات ختم ہو چکے‘ یعنی صرف ایک ہی سیاسی حقیقت ہے جو دنیا کے تمام ممالک کو تسلیم کرنا پڑے گی۔ چین‘ روس‘ ویتنام اوردیگر کئی ممالک جو سرد جنگ میں نظریاتی طور پر مغرب کے خلاف تھے‘ اب سرمایہ دارانہ نظام میں شرفِ قبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں بھی اس لیے کوئی نظریاتی تنوع نظر نہیں آتا کہ ان کے لیے چند لکیریں ڈال دی گئی ہیں جن پر چلے بغیر نہ سیاسی استحکام ممکن ہے اور نہ کرسی ٔاقتدار تک رسائی۔ سب کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی طرف سے طے شدہ اصلاحات پر عمل کرنا ہو گا‘ سلامتی‘ خارجہ امور میں بھی کچھ ایسے حساس پہلوئوں کی نشاندہی کر دی جاتی ہے جن کی خلاف ورزی کے نتائج ناخوشگوار ہو سکتے ہیں۔ سیاسی نظریات سکڑ کر چند پُرکشش نعروں‘ اعلانات اور ناقابلِ عمل منصوبوں تک رہ گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاست مفادات اور طاقت کی فوقیت سے ترتیب پاتی ہے‘ نظریاتی ملمع کاری کا مقصد اپنی شناخت قائم کرنا اور عوام کی توجہ حاصل کرنے سے زیادہ کچھ نہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: