نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح اٹھتے ہی یہ کالم لکھ کر جلد از جلد دفتر بھجوادینے کی عادت بسااوقات بے حد شرمندگی کا باعث ہوتی ہے۔جمعرات کی صبح ایسا ہی ہوا۔ بدھ کی رات پاکستان مسلم لیگ (ن) نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے امیدوار نامزد کردئے۔ نامزد ہوئے افراد سے کہیں زیادہ میں یہ پتا لگاتا رہا کہ نواز شریف کے کون سے وفادار کو قربانی کا بکرا بنانے کے بعد بھلادیا گیا ہے۔ وہ جان لیا تو توجہ ان حلقوں پر مبذول ہوئی جنھیں دیگر جماعتوں کو ساتھ لینے کی خواہش میں ’خالی‘ چھوڑ دیا گیا۔ اس حوالے سے پڑتال شروع کی تو ٹیکسلا کی بابت ہوئے فیصلے نے حیران کردیا۔
اس شہر میں قومی اسمبلی کی نشست پر نواز لیگ نے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔اسے غلام سرور خان کے حوالے کردیا گیا ہے۔یہ صاحب سیاسی جماعتوں سے وفانبھانے کے عادی نہیں۔ مقامی دھڑوں اور جوڑ توڑ کی بدولت اسمبلیوں اور بعدازاں وزارتوں میں پہنچ جاتے ہیں۔عمران حکومت کے دوران وزیر توانائی تھے تو گیس کے بحران کو کندھے اچکاکر نظرانداز کرتے رہے۔ گیزر ان کی نگاہ میں ’عیاشی‘ شمار ہوئے۔ گیس کا بحران ان کے قابو میں نہ آیا تو موصوف کو ہوا بازی کا محکمہ سونپ دیا گیا۔وفاقی وزیر ہوتے ہوئے غلام سرور خان نے ایک نہیں متعدد بار قومی اسمبلی اور سینٹ میں کھڑے ہوکر یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان کی مختلف ایئرلائنز کے جہاز اڑانے والے پائلٹوں کی ڈگریاں جعلی ہیں۔ان کی ’گواہی‘ پاکستان کی عالمی سطح پر بدنامی کا سبب ہوئی۔ ہوا بازی کے شعبے پر نگاہ رکھنے والے عالمی سطح پر معتبر گردانے جرائد نے سرور خان کے پاکستان کی پارلیمان میں ڈھٹائی سے دہرائے اعترافی بیانات کے مسلسل حوالے دیتے ہوئے ہماری ایئرلائنز کی ساکھ کو تباہ وبرباد کردیا۔
غلام سرور خان کا غیر ذمہ دارانہ چلن ضرورت سے زیادہ حساس افراد کے لیے ان کی رعونت کی وجہ سے مزید ناقابل برداشت ہوجاتا۔میں اس ضمن میں دل کی بھڑاس اس کالم کے ذریعے نکالتا رہا۔ نواز شریف کی جلاوطنی کے دوران وہ نہایت حقارت سے ان کے وطن لوٹنے کے امکانات بھی رد کرتے رہے ہیں اور اس ضمن میں سفاکی سے’تابوت‘ کے حوالے دیتے رہے۔میں بہت حیران ہوا کہ ایسے شخص کے لیے ٹیکسلا سے قومی اسمبلی کا حلقہ ’خالی‘ چھوڑ دیا گیا ہے۔ طیش کے عالم میں لیکن اس کالم میں ذکر کرتے ہوئے بنیادی چوک یہ ہوگئی کہ فرض کرلیا کہ مسلم لیگ (ن) نے انھیں نہیں بلکہ ان کے فرزند کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا ہے۔ حقیقت جبکہ یہ تھی کہ غلام سرور خان استحکام پاکستان پارٹی کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست جیتنے کی کوشش کریں گے۔ ان کے فرزند کو پنجاب اسمبلی بھیجنے کی کوشش ہوگی۔ وہ دونوں ’شاہین (عقاب)‘ کے نشان کے ساتھ میدان میں اترے ہیں۔ سرور خان اور ان کے فرزند نے حلقے میں جو پوسٹر لگائے ہیں ان میں باپ اور بیٹا نواز شریف ،شہباز شریف اور مریم نواز صاحبہ کی تصویروں تلے ’عقابی پرواز‘ کو مائل نظر آرہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے دیرینہ وفادار ’لوٹے‘ کی پذیرائی سے بہت تلملائے ہوئے ہیں۔ ’پیا‘ نے جسے چاہا وہ مگر سہاگن ہوچکا ہے۔مجھ سے البتہ ان کا ذکر کرتے ہوئے جو غلطی سرزد ہوئی اس کی وجہ سے دودِنوں تک شرمندہ رہا۔
توجہ ہٹانے کے لیے اگرچہ جمعہ اور ہفتے کے دن سپریم کورٹ کی کارروائی بہت کام آئی۔ ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد اور ’جمہوری‘نظام کا خواہ مخواہ کا خیر خواہ ہوتے ہوئے امید باندھے ہوئے تھا کہ بالآخر سپریم کورٹ تحریک انصاف کو ’بلے‘ کے نشان کے ساتھ انتخاب میں حصہ لینے کی سہولت فراہم کردے گی۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ کے عزت مآب ججوں نے براہ راست نشر ہوئی کارروائی کے دوران جو سوالات ا ٹھائے ان کے معقول جواب مگر تحریک انصاف کے وکلاء فراہم کرتے سنائی نہیں دیے۔ کئی بار یہ بھی محسوس ہوا کہ وکلاء کے ہتھے آئی عمران خان کی بنائی جماعت انگریزی محاورے کے بہت سارے خانساموں کی پکائی ہانڈی کی طرح اپنا کیس خراب کررہی ہے۔
اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے اذہان تحریک انصاف کو ’بلے‘ سے محروم کرنا ناانصافی شمار کریں گے۔ ان کا یہ دعویٰ بھی بہت معقول سنائی دے گا کہ ہمارے ہاں تقریباً ہر سیاسی جماعت اندرونی انتخابات کی عادی نہیں۔ اس کے قائدین اپنے چہیتوں میں پارٹی عہدے بانٹ دیتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو فقط تحریک انصاف کے اندرونی ا نتخاب ہی میں کیڑے کیوں نظر آئے۔ یہ سوال اٹھاتے ہوئے یہ حقیقت مگر فراموش کردی جائے گی کہ مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی جیسی جماعتوں میں اکبر ایس بابر جیسے ’بنیادی رکن‘ بھی موجود نہیںہیں جو اپنی ہی جماعت کے آئین کو بنیاد بناتے ہوئے گزشتہ کئی برسوں سے الیکشن کمیشن سے اپنی جماعت کی تنظیم اور اسے میسر چند وں وغیرہ پر سوالات اٹھارہے ہیں۔ پنجابی کا ایک محاورہ ہمیں سمجھاتا ہے کہ چوروہ کہلاتا ہے جو پکڑا جائے۔ تحریک انصاف بلے سے محروم ہوئی تو اس کا تمام تر کریڈٹ یا دوش اکبر ایس بابر کے سرجاتا ہے جو کئی برسوں سے اپنی جماعت کے اعمال کی بابت ’فائول فائول‘ کی دہائی مچارہے ہیں۔نہایت عاجزی سے یہ لکھنے کو بھی مجبور ہوں کہ تحریک انصاف کے وکلاء نے اکبر ایس بابر کے کیس کو توانا تر بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ عدالت کو سمجھا نہیں پائے کہ الیکشن کمیشن کے حکم پر ہوئے اس جماعت کے اندرونی انتخاب فلاں فلاں بنیادوں پر کاملاً صاف وشفاف تھے۔ ایک بار پھر وہ قانونی دلائل پر انحصار کے بجائے بنیادی طورپر سیاسی کیس بناتے رہے جو تحریک انصاف کے دیرینہ حامیوں کو حکومتی تعصب اور ریاستی ناانصافیوں کے خلاف دہائی مچانے میں تو مدد دے گا مگر عملی اعتبار سے کسی کام نہیں ا ٓئے گا۔ تحریک انصاف کا ہر امیدوار اب ’آزاد‘ حیثیت میں انتخاب لڑے گا۔ وہ جداگانہ انتخابی نشانوں کے ساتھ انتخابی مہم چلائیں گے۔اہم ترین نقصان تحریک انصاف کو یہ بھی ہوا ہے کہ وہ خواتین اور اقلیتوں کے لیے مختص نشستیں بطور سیاسی جماعت اپنی شناخت کھودینے کی وجہ سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں حاصل نہیں کرپائے گی۔
انتخابی مہم سے عمران خان کی جیل میں ہونے کی وجہ سے دوری پنجاب اور خیبرپختونخوا کے کئی حلقوں میں ایک سے زائد امیداروں کو تحریک انصاف کا ’اصل‘ امیدوار ثابت کرنے کو بھی اکسائے گی۔ اس کے علاوہ بلے کے انتخابی نشان سے محرومی عاشقان عمران خان کو ووٹ ڈالنے کے دن مایوسی سے گھروں میں بیٹھے رہنے کو مائل کرسکتی ہے۔ یوں نسبتاً کم ٹرن آئوٹ کی وجہ سے تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں کو تقریباً واک اوور مل جائے گا۔بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر