نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی سے گھبرائے اور پریشان ہوئے افراد کو وقتی خوشی اور دل لگی کے لئے انٹرنیٹ پر میسر ہے ’’ٹک ٹاک‘‘۔ یہ ایپ اسے استعمال کر نے والوں کو عملی زندگی کی پیچیدگیاں بھلانے میں بہت مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ مجھے شبہ ہے کہ ہمارے چند معزز اراکین سینٹ بھی مذکورہ ایپ کے علت کی حد تک عادی ہوچکے ہیں۔غالباََ اسی وجہ سے گزرے جمعہ کے دن انہوں نے یکسو ہوکر ’’وفاق کی علامت‘‘ تصور ہوتے ایوان میں ٹک ٹاک وڈیوز جیسا ایک تماشہ لگایا جسے تمام نیوز چینلوں نے نہایت سنجیدگی سے لیا۔ معمول کی نشریات چھوڑ کر اس ’’قرارداد‘‘ پر نہایت فکر مندی سے تبصرہ آرائی شروع ہوگئی جو فقط 12اراکین نے اس وقت ’’متفقہ‘‘ طورپر منظور کی جب ایوان میں صرف 14افراد موجود تھے۔جو ’’قرارداد‘‘ منظور ہوئی اس کاتقاضہ تھا کہ سردی کی شدت اور دہشت گردی کی بڑھتی وارداتوں کو نگاہ میں رکھتے ہوئے 8فروری 2024ء کے دن کے لئے طے ہوئے وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات مؤخر کردئے جائیں۔
مذکورہ قرارداد پیش کرنے والے صاحب کا اسم گرامی ہے دلاور خان۔ تعلق موصوف کا مردان سے ہے۔’’کامیاب کاروباری‘‘ کی شہرت کے حامل ہیں۔ یہ شناخت انہیں پنجاب کے ’’کاروباری حضرات‘‘ کی بنائی مسلم لیگ (نون) کے قریب لائی۔ وہ اس کی مدد سے 2018ء میں سینٹ کے رکن منتخب ہوگئے۔ یاد رہے کہ اس برس سینٹ کی خالی نشستوں کو پر کرنے کے لئے جو ا نتخاب ہوا تھا اس میں مسلم لیگ (نون) کو بطور سیاسی جماعت حصہ لینے کی اجازت نصیب نہیں ہوئی تھی۔ ان دنوں کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے سپریم کورٹ کی جانب سے ’’صادق اور امین‘‘ کے معیار پر پورا نہ اترنے کے سبب عمر بھر کے لئے نااہل ہوئے نواز شریف کے دستخطوں سے جاری مسلم لیگ نون کے امیدواورں کی ٹکٹوں کو ’’باطل‘‘ قرار دیا تھا۔ تکینکی اعتبار سے لہٰذا انہیں ’’آزاد‘‘ حیثیت میں منتخب ہوناپڑا۔ اگست 2018ء میں عمران حکومت قائم ہوئی تو ایف بی آر کے ٹیکس وصول کرنے والے افسروں کے رحم وکرم کے محتاج دلاور خان کو اپنی ’’آزاد‘‘ حیثیت شدت سے یاد آنا شروع ہوگئی۔ وہ حکومتی بنچوں پر بیٹھے بغیر ہی حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اپنے کاروبار کا تحفظ یقینی بناتے رہے۔
دریں اثناء مارچ 2021ء آگیا۔ قومی اسمبلی نے اس مہینے اسلام آباد سے سینٹ کی خالی ہوئی ایک سیٹ پر یوسف رضا گیلانی کو منتخب کرتے ہوئے دنیا کو حیران کردیا۔ پیغام یہ گیا کہ عمران خان اور ’’وہ‘‘ اب ’’سیم پیج‘‘ پر نہیں رہے۔ تحریک انصاف کی صفوں میں بغاوت پھوٹ پڑی ہے اور عمران حکومت کے ساتھ صبح گیا یا شام گیا والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ حکومت بلوچستان بھی ایسی ہی کیفیت میں مبتلا دکھائی دی۔مرکز اور صوبوں میں پھیلی افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دلاور خان نے سینٹ میں سے پانچ دیگر اراکین بھی تلاش کرلئے۔ باہم مل کر وہ ’’آزاد‘‘ گروپ ہوگئے۔ اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ یوسف رضا گیلانی کی حمایت کا اعلان کردیا۔ ان کی حمایت نے رضا ربانی اور شیری رحمن جیسے اصول پسند سینیٹروں کو شرمندہ کیا تو ان چھ ا فراد نے ’’آزاد‘‘ بیٹھتے ہوئے بھی تواتر سے عمران حکومت کی جانب سے پیش ہوئے قوانین کی تابڑ توڑ حمایت شروع کردی۔ اپریل 2022ء میں حکومت بدلی تو جی حضوری کا رخ شہبازشریف کی قیادت میں قائم ہوئی حکومت کی جانب موڑ دیا۔
سدابہار موقعہ شناسوں پر مشتمل اس گروپ کے قائد دلاور خان اور دیگر اراکین مارچ 2024ء میں سینٹ کی رکنیت سے محروم ہوجائیں گے۔ایوان میں واپس لوٹنے کی تمنا نے انہیں یقینا اپنے ’’وجود کا احساس‘‘ دلانے کو مجبور کرنا شروع کردیا ہوگا۔اسی باعث جمعہ کے دن انہوں نے ’’قرارداد‘‘ والی ’’شرلی‘‘چھوڑی۔ پارلیمانی کارروائی کا 1985ء سے مستقل رپورٹر ہونے کی وجہ سے لیکن میں دلاور خان اور ان کے بنائے گروپ کو جمعہ کے دن چھوڑی ’’شرلی‘‘ کا ذمہ دار نہیں ٹھہرائوں گا۔ سینٹ کے چیئرمین -صادق سنجرانی-نے بھی قوم کو اس دن کئی گھنٹوں تک وسوسوں میں مبتلا رکھنے والی ’’شرلی‘‘ چھوڑنے کی شرارت میں بھرپور بلکہ میری دانست میں ’’قائدانہ‘‘ کردار ادا کیا ہے۔
پارلیمانی رپورٹروں کی اکثریت بخوبی جانتی ہے کہ جمعہ کے روز سینٹ کے اجلاس مختصر ترین ہوا کرتے ہیں۔ڈیڑھ سے دو گھنٹے کی کارروائی کے بعد اجلاس آئندہ ہفتے کے لئے جمعہ کی نماز کے قریب مؤخر کردیا جاتا ہے۔اجلاس مؤخر ہوجائے تو ارا کین کی کافی تعداد جمعہ کی نماز پارلیمان کی عمارت میں موجود مسجد میں ادا کرنے کے بعد چیئرمین سنجرانی کے کمرے میں آجاتی ہے۔ دوپہر کا کھانا وہ اکثر وہیں کھانے کے بعد اپنے ’’علاقوں‘‘ کو روانہ ہوجاتے ہیں۔گزشتہ جمعہ اس لئے بھی ’’غیر معمولی‘‘ نظر آرہا ہے کہ اس روز سینٹ کے اجلاس کو نماز جمعہ کے بعدبھی جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ واحد مقصد اس کا یہی تھا کہ وہ ’’قرارداد ‘‘پیش کرنے کا ’’دائو‘‘ لگاکر قوم کو پریشان کردیا جائے۔
جس قرارداد کا ذکر ہے وہ اس روز کے ایجنڈے میں یقینا شامل تھی۔ اسے زیر بحث لانے کیلئے مگر سینٹ چیئرمین اسے ’’ترجیحی بنیادیں‘‘ فراہم کرنے کا اختیار استعمال کرنے کو مجبور تھے۔موصوف نے وہ حق فیاضی سے استعمال کیا اور قرارداد آناََفاناََ منظور ہوگئی۔ قرارداد منظور ہوگئی تو نیوز چینلوں میں تھرتھلی مچ گئی۔ بینڈباجہ بارات کے ساتھ’’بریکنگ نیوز‘‘ آئی۔ جس کے بعد اس چینل سے وابستہ ’’سینئر تجزیہ کار‘‘ منظور ہوئی قرارداد کے ’’ممکنہ اثرات‘‘ کو سنجیدگی سے زیر بحث لاتے رہے۔ بدقسمتی سے محض اپنی عمر کی وجہ سے میرا شمار بھی اب ’’سینئر تجزیہ کاروں‘‘ کی جنس میں ہوتا ہے۔ میں قیلولہ کی تیاری میں تھا تو جس ٹی وی سے ان دنوں وابستہ ہوں وہاں سے ٹیلی فون آیا اور اینکروں کے سوالات کے روبرو پیش کردیا گیا۔
یہ حقیقت سمجھانے میں مجھے ہی نہیں دیگر کئی چینلوں سے وابستہ کئی ’’سینئر تجزیہ کاروں‘‘ کو بہت وقت صرف کرنا پڑاکہ سینٹ سے منظور ہوئی ’’قرارداد‘‘ اپنے تئیں کسی وقعت کی حامل نہیں ہوتی۔ جمعہ کے روز منظور ہوئی قرارداد اس لئے بھی غور کے قابل نہیں کہ اسے فقط 14اراکین کی موجودگی میں بارہ سینیٹروں کی حمایت میسر رہی۔ ہمارا ’’سینئر‘‘ہونا مگر حقیقت سمجھانے کے کام نہیں آرہا تھا۔ بحیثیت قوم ہم ذہنی طورپر خود کو طاقت ور اداروں کی من چاہی خواہشوں کے مقابلے میں قطعاََ بے بس ولاچا ر محسوس کرتے ہیں۔ آئین ہمارا ’’تحریری‘‘ ہونے کے باوجود اکثر عملی اعتبار سے نافذ نہیں ہوپاتا۔طاقت ور حلقوں کے رچائے تماشوں کے دہائیوں سے غلام ہوئے اذہان مصر رہے کہ دلاور خان اینڈ کمپنی کو ’’مقتدر‘‘ کہلاتے حلقوں سے مذکورہ قرارداد پیش کرنے کا حکم صادر کیا ہوگا۔ موصوف اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے فوری تعمیل ہوگئی۔ ذہنی طورپر لہٰذا اب ہمیں انتخاب کے مؤخر ہونے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ قرارداد کی ’’سنجیدگی‘‘ پر توجہ دینے والے ایک لمحے کو بھی دلاور خان اور موصوف کے ساتھیوں کی’’اصل اوقات‘‘ جاننے کو آمادہ نہیں ہوئے۔بالآخر الیکشن کمیشن کی جانب سے واضح الفاظ میں اعلان کردیا گیا کو جمعہ کے روز سینٹ سے منظور ہوئی قرارداد 8فروری 2024ء کا انتخاب مؤخر نہیں کرپائے گی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ان کے چند معزز ساتھی پہلے ہی سے اس تاریخ کو پتھر پر لکھی تحریر پکارے جارہے ہیں۔
طاقت ور حلقوں کی سازشوں کے 1950ء سے عادی ہوئے بے بس ولاچار عوام یہ سمجھنے کو آمادہ ہی نہیں ہورہے کہ اگر 8فروری2024ء کے روز انتخاب نہ ہوئے تو امریکہ اور اس کے اتحادی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کے ذریعے ہمیں سری لنکا میںچند ماہ پہلے آئے دیوالیہ کے سپرد کرنے کے بعد پاکستان کو برمایا شمالی کوریا کی طرح عالمی تنہائی کی جانب دھکیلنا شروع ہوجائیں گے۔ اقتصادی اعتبار سے نازل ہوئی عالمی تنہائی کسی ملک کے رہائشیوں کے لئے کیا عذاب لاتی ہے اس کا اندازہ لگانا ہو تو چند روز اپنے ہمسایے میں واقع افغانستان میں گزاریں۔خدا کے لئے اس ملک پر رحم کیجئے۔ دنیا کے روبرو پاکستان کو مسخروں کا ملک ثابت نہ کریں۔ دلاور خان جیسے کرداروں کو ٹک ٹاک کی وڈیوز کی طرح تصور کرتے ہوئے دل کو خوش رکھیں۔بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر