اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پانی چوس کنواں۔۔۔||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مستنصر حسین تارڑ کا مشہور ناول بہائو ایک خاص حوالے سے لکھا گیا ۔ اس میںصحرائے چولستان کے کنارے واقع ایک صدیوں قدیم تہذیب کا نقشہ کھینچا گیا جسے پانی کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا۔ وہاں قریب دریا بہتا تھا مگر اس کا پانی کم ہو رہا تھا اور مختلف وجوہات کی بنا پر وہ سوکھ رہا تھا۔ مقامی آبادی کے ایک شخص کو اس کا اندازہ ہوگیا، اس نے باقی لوگوں کو خبردار کرنے اور کچھ کرگزرنے کے لئے بہت جدوجہد کی، بار بار ہر ایک کو بتایا، مگر جواب میں اس کا مذاق ہی اڑایا گیا۔ لوگ ٹھٹا اڑاتے اور کہتے ، دریا بھی کبھی سوکھا ہے، یہ تو صدیوں سے یہیں بہہ رہا ہے،ہمارے پرکھوں نے اسے دیکھا ہے، ہماری اگلی نسلیں بھی یہی دیکھیں گی…۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ پھر وہ تہذیب صفحہ ہستی ہی سے مٹ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس قدیم تہذیب کا ذکر ہندوئوں کے قدیم ویدوں میں بھی آیا ہے۔ تارڑ صاحب نے اپنے اس ناول کے لئے ایک خاص ڈکشن ایجاد کی، مقامی قدیم سرائیکی زبان کے الفاظ اس میں شامل کئے اور بڑی محنت سے وہ ناول لکھا۔ناول کو بڑی پزیرائی ملی اور قارئین کے ساتھ سینئر نقادوں نے بھی اسے سراہا۔ چند سال پہلے بھارت میں ایک سروے ہو اجس میں بہائو کو اردو کے دس بہترین ناولوں میںسرفہرست رکھا گیا۔ بہائو ناول میں بیان کی گئی تہذیب کی طرح ہمارے وطن پاکستان میںبھی عمومی طور پر پانی کا مسئلہ بڑھتاجارہا ہے۔ جتنا پانی فی کس چاہیے ، وہ تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ ہم بڑے ڈیم بنانے میں تساہل سے کام لیتے رہے، زیرزمین پانی کی سطح بھی بہتر نہیں رکھ پائے ، بڑے شہروں میں بہت سنگین مسائل پیدا ہونے جا رہے ہیں، دیہات میں بھی صورتحال قابل رشک نہیں ہے۔ انجینئر ظفر اقبال وٹو اپنے پروفیشن کے اعتبار سے آبپاشی کے انجینئر ہیں، انہیں ڈیم بنانے کا بھی خاصا تجربہ ہے اور وہ ان معاملات کو گہرائی سے سمجھتے ہیں۔ ہر درد ِدل رکھنے والے شخص کی طرح وہ ان چیزوں پر کڑھتے اور اس حوالے سے لکھتے رہتے ہیں۔ انجینئر ظفر اقبال وٹو نے اپنی ایک تحریر میں لاہور کے زیرزمین میٹھے پانی کے حوالے سے ایک بڑی الارمنگ تحریر لکھی۔ ویسے یہ صرف لاہور کا مسئلہ نہیں، ایسے کئی اور شہر بھی ہوں گے، ان کے لئے بھی کچھ کرنا چاہیے۔ ظفر اقبال وٹو لکھتے ہیں ـ :ـ ’’ لاہور کے زیر زمین پانی کی سطح ہر سال تقریباً ’’ایک میٹر ‘‘ کے حساب نیچے گرتی جارہی ہے۔ اتنی تیزی سے نیچے جانے والی میٹھے پانی کی سطح کی وجہ سے ایکوئفر میں پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لئے لاہور سے ملحقہ جنوبی علاقوں کا زیر زمین کھارا پانی ‘‘ایک میٹر فی کلومیٹر ‘‘ کے زاویے سے بڑی تیزی سے لاہور کے میٹھے پانی کی ایکوئفر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگر اس عمل کو روکنے کے لئے بروقت اقدامات نہ کئے گئے تو لاہور کے زیر زمین پانی کی مٹھاس ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خراب ہونے کا خطرہ ہے۔ ’’لاہور کی ایک کروڑ سے زیادہ آبادی کے لئے پینے کا پانی اور تمام صنعتوں کے استعمال میں آنے والا پانی سارے کا سارا زمین سے ہی کھینچا جاتا ہے جس کی مقدار نہ صرف کم کرنا ہوگی بلکہ بارش کے زائدپانی کو زیرزمین پانی تک رسائی کرانا ہوگی تاکہ ایکوافر میں پانی کی کمی نہ ہو۔ ’’ہمارے ہاں ایک’’ چھپڑ ‘‘سسٹم ہوا کرتا تھا جس نے صدیوں تک زیر زمین پانی کو میٹھا اور لیول کو برقرار رکھا۔اسی طرز پر لاہور شہر میں کثیر تعداد میں ڈونگی گروانڈ ز کا قیام عمل میں لایا جائے جن کے اطراف میں میں ریچارج کنویں بنے ہوں۔ سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں دفاتر فیکٹریوں الغرض تمام کھلی جگہوں پر ریچارج کنویں بنا کر ری سائیکل پانی سے زیر زمین پانی کو سارا سال ریچارج کیا جائے۔ لاہور کے جتنے بھی پارک ہیں چھوٹے یا بڑے، ان کی گہرائی دس سے پندرہ فٹ کر دی جائے اور بارش کے پانی کا بہاوْ ان کی طرف کر دیا جائے۔ تاکہ برسات میں وہ پانی کو زمین کے اندر واپس پہنچانے کا کام سرانجام دیں۔ ’’لاہور کی زمین پرکنکریٹ کی تعمیر کم کی جائے۔لان زیادہ سے زیادہ بنائے جائیں۔ گلیوں میں اسفالٹ کی بجائے سوراخ دار ٹائلیں لگائی جائیں۔اسی طرح فرش کو دھونے، گاڑی واش کرنے یا باتھ روم کے فلش کے لئے استعمال شدہ پانی کو دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔بوتل میں پینے کا صاف پانی بیچنے والی کمپنیوں کی بورنگ پر سخت پابندی لگائی جائے۔لاہور کے اطراف زرعی ٹیوب ویل کا نظام حکومتی اداروں کے تحت میں کیا جائے اور پمپنگ کے محدود اوقات مقرر کئے جائیں۔ ’’خوش آئند بات یہ ہے کہ واسا لاہور نے نئے ٹیوب ویلز کی تنصیب تقریباً روک دی ہے۔ٹیوب ویل کی پمپنگ کے اوقاتِ کار بھی محدود کر کے چوبیس کی بجائے اوسطاً دس گھنٹے کر دیے گئے ہیں اور صارفین کو پانی تین شفٹس میں فراہم کیا جا رہا ہے۔بارشی پانی کے تحفظ کیلئے واٹر ہارویسٹنگ کی تکنیک کے تحت واسا کے تحت زیرِ زمین واٹر ٹینکس کی تعمیر کی جا رہی ہے جن میں سے لارنس روڈ کا واٹر ٹینک گزشتہ برس ہی مکمل کر دیا گیا تھا اور یہ ایک انتہائی کامیاب تجربہ رہا ہے۔ اس طرز کے مزید واٹر ٹینکس کی تعمیر بھی تیزی سے جاری ہے۔ ’’وضو کے پانی کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانے کیلئے مساجد میں ری سائیکلنگ متعارف کروائی جا رہی ہے جس کا کامیاب آغاز کچھ ہی عرصہ قبل داتا دربار کے وضوخانے سے کیا گیا ہے۔کار واشنگ اینڈ سروس سٹیشنز پر ری سائیکلنگ پلانٹس کی تنصیب کو لازمی قرار دیا گیا ہے جس کیلئے اقدامات بھی ہوتے نظر آ رہے ہیں۔لیکن اس پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے کیونکہ یہ لوگ اب بھی دن رات پانی برباد کرتے نظر آتے ہیں۔ پانی چوس کنواں ’’لاہور میں لگے 1800 سو سے زیادہ ٹیوب ویل روزانہ زمین سے 400 کروڑ لٹر پانی لہوریوں کے پینے کے لئے کھینچ لیتے ہیں۔ صنعتی اور کاروباری مقاصد کے لئے کھینچا گیا 150 کروڑ لٹر پانی اس کے علاوہ ہے لیکن شہر اپنی دھرتی ماں کو اس کے بدلے میں کتنا صاف بارشی پانی واپس بھیجتا ہے؟ ’’لاہور میں تین مہینے مون سون کا موسم ہوتا ہے جس کے دوران بارش کا وافر پانی اگر پانی چوس کنویں کے ذریعے زمین کو واپس لوٹا دیں تو ہمارا پانی کا مسئلہ بہت حد تک کم ہو سکتا ہے بلکہ ختم ہو سکتا ہے، لیکن ہم بارش کا صاف ترین پانی گٹروں میں بہا دیتے ہیں اور پھر موٹر یں چلا چلا کر اوور ہیڈ ٹینکیاں بھر رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی اربن فلڈنگ کا رونا رو رہے ہوتے ہیں۔گلی محلے یا سوسائٹی کی سطح پر کسی گراونڈ یا پارک میں ایک اہم کام بارش کے پانی کو ‘‘پانی چوس ‘‘کنویں کے ذریعے زمینی پانی میں شامل کرنا بھی ہو سکتا ہے جس سے زیرزمین پانی کی سطح بھی بلند ہوگی اور بارش کا پانی بھی ضائع نہیں ہوگا۔ ’’پانی چوس کنواں یا ریچارج ویل ‘‘الٹے فلٹر ‘‘ کے اصول پر کام کرتے ہوئے بارش کے پانی کو چوس کر زیرزمین پانی سے ملا دیتا ہے اور وہ بھی اسٹوریج ٹینک سے انتہائی کم لاگت پر۔ اس سے نہ صرف زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو سکتی ہے بلکہ پانی کی کوالٹی بھی بہتر ہوتی ہے۔ سادہ ترین الفاظ میں ہم بارش کا پانی پہلے ایک کولیکشن ٹینک میں لاتے ہیں تاکہ اس کے اندر مٹی بیٹھ جائے اور پانی نتھر کر کنوئیں کے اوپر موجود دوسرے ٹینک میں آجاتا ہے جس کی تہہ میں فلٹر میٹیرئیل ڈالا گیا ہوتا ہے جس میں سب سے اوپر بڑے پتھر، پھر چھوٹے پتھر، پھر بجری اور ریت وغیرہ استعمال ہوتی ہے۔ فلٹر کے نیچے کچھ خاص تعداد میں اٹھارہ انچ یا چوبیس انچ کے پائپ ہوتے ہیں جو پانی کو زیرزمین پہنچاتے ہیں۔یہ سادہ ترین ڈیزائن ہے جس میں ضرورت کے حساب سے ترمیم واضافہ کیا جا سکتا ہے۔اس سلسلے میںواسا، ایل ڈی اے جیسے سرکاری ادارے پہلے ہی کچھ کام کررہے ہیں۔ ’’پانی چوس کنواں وہ کم سے کم کام ہے جو ہم بارش کے کورے پانی کو محفوظ کرنے کے لئے کر سکتے ہیں اور اسے زمیں میں واپس لوٹا کر اپنے آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ تو کر سکتے ہیں۔کیا ہم سب اپنی زندگی میں اپنے حصے کا پانی چوس کنواں نہیں بنا سکتے ؟‘‘

 

 

(روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز )

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: