مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہم سب حیراں سرِ بازار|| راناابرارخالد

رانا ابرار سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے سینئیر صحافی ہیں ، وہ گزشتہ کئی برس سے وفاقی دارالحکومت اسلام آبادمیں مقیم ہیں اور مختلف اشاعتی اداروں سے وابستہ رہے ہیں، اکانومی کی بیٹ کور کرتے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رانا ابرار خالد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریاستِ مدینہ کی اٹھتے بیٹھتے مثال دینے والا وزیراعظم دیگر ممالک کے سربراہان سے ملنے والے سرکاری تحائف سرِبازار فروخت کرتے رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے، پھر بھی وہ مرید سے ترقی پاکر مرشد بن جاتا ہے! اکبر ایس بابر، ڈاکٹر شیریں مزاری، ڈاکٹر عارف علوی، شاہ محمود قریشی، اسد عمر، علی محمد خان، حفیظ اللہ نیازی، سیف اللہ نیازی، عون عباس بپی، شبلی فراز جیسے پرانے کارکن ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں جب سال پہلے پاکستان پیپلز پارٹی سے آنے والے بیرسٹر گوہر جان پی ٹی آئی کے چیئرمین بن جاتے ہیں! پاکستان کے ورلڈ کلاس جیورسٹ اور غیر متنازعہ جسٹس (ر) جسٹس تصدق حسین جیلانی دیکھتے رہ گئے جبکہ باپ والے انوارالحق کاکڑ وزارتِ عظمیٰ کے نگران ٹھہرتے ہیں۔ برطانیہ سے اچانک شفایاب ہوکے لوٹنے والے نواز شریف کہتے ہیں کہ وہ ترقی کا سلسلہ دوبارہ وہیں سے جوڑیں گے جہاں پہ 2017 میں ان کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں معزولی کی وجہ سے منقطع ہوا تھا، یعنی نواز شریف کے بقول نہ تو شاہد خاقان عباسی اور نہ ہی بے چارے شہباز شریف نون لیگ کے وزیراعظم تھے۔ گزشتہ دور میں اپنے لیے انصاف کی جنگ لڑنے والے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کہتے ہیں اگر آپ کو کسی وجہ سے 8 فروری 2024 کے عام انتخابات کے انعقاد پر شکوک و شبہات ہیں تو یہ بات صرف بیوی سے کہہ سکتے ہیں مگر ٹی وی پہ نہیں کہہ سکتے، چاہے آئین پاکستان آزادی اظہار کو کتنا ہی تحفظ کیوں نہ دیتا ہو!

 

نجانے کیوں یہ سب لوگ حارث خلیق کے نیامت اللہ سعید بنگش لگتے ہیں، چوڑا سینہ، طویل قامت، دراز بازو جبکہ ان کے اختیار کی رائفل سے نکلنے والی گولی کے سارے شکار پھٹی ہوئی زرد ساڑھی والی نحیف بوڑھی بنگالن کی مانند۔ جو گولی لگنے پر ایک کربناک چیخ تک نہ نکال سکے۔ کیونکہ امیرِ شہر کی طرف سے کسی کمزور، نحیف کو چیخنے کی اجازت ہی نہیں، زبانوں پہ پہرے لگ چکے ہیں اور دماغوں پر تالے۔ نہیں نہیں، یہ سارے بوڑھی بنگالن نہیں بلکہ یہ تو سلامت ماشکی ہیں جس کا ڈھائی مرلے کا گھر، بستر، صندوق سب کچھ جل رہا ہے اور چنگڑوں، کنجروں کے چھوکرے اس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، جو اس کی مشک کی کمائی ہتھیانا چاہتے ہیں! ہاں یہ سب سلامت ماشکی ہیں جو ہر محرم میں سوچتے ہیں اگر وہ ہوتے تو آلِ نبی کے لئے مشکیں بھر بھر کے لاتے۔ تاہم بذاتِ خود سید ریاض موچھ والا کے نوحے بنے ہوئے ہیں۔ دراصل یہ لوگ دو ہزار مفتیوں کے جھانسے میں آئے ہوئے ہیں، جبھی تو آج کے حسین کو باغی سمجھتے ہیں مگر دل ہی دل میں عہد کرتے ہیں کہ وہ ہوتے تو امام حسین کے لئے یزیدی فوجوں کے آگے ڈھال بن جاتے۔

انہیں معلوم ہی نہیں کہ دمشق کے تخت پہ یزید بن معاویہ کے ساتھ سلطنت روما کا ایک نمائندہ بیٹھا تھا، درحقیقت زبان یزید کی تھی اور حکم روم والے کا چلتا تھا۔ حالانکہ وہ عوام کے سامنے چیخ چیخ کر کہتا رہا، کاغذ لہراتا رہا کہ میرے مقابلے میں نو ستارے نہیں بلکہ سفید ہاتھی ہے، سفید ہاتھی مجھے مارنا چاہتا ہے، مجھے دنیا کے لئے مثال بنانا چاہتا ہے، کیونکہ میں نے سفید ہاتھی کا ورلڈ آرڈر نہ ماننے کی گستاخی کی ہے، میں نے یہ گستاخی آپ کے سنہرے مستقبل اور زندگیوں کے تحفظ کے لئے کی۔ مگر سب نے مفتیوں کا فتویٰ مان کر حسین کو باغی اور کانے دجال کو امیرالمومنین سمجھ لیا۔ یوں گیارہ سال کی کال رات کو مقدر بنالیا۔ ہاں، وہی گیارہ سالہ کال رات۔ جس کے بارے میں شاعر کہتا ہے۔

 

کہاں سے یک دم
بھرے پُرے، تند، پرشور بادلوں نے
اٹھایا طوفان
گرج چمک نے جو تیرگی میں شگاف ڈالا
تو رات بپھری
اور اپنی طاقت کا جال پھینکا
ستارے ایک ایک کر کے
گُل ہو رہے تھے سارے

تو چاند سہما ہوا کن اکھیوں سے دیکھتا تھا
ہزارہا سال سے یہی رات
سارے طوفان سنبھال لیتی ہے
اس فضا میں تھمی ہوئی ہے
جہانِ موجود کی تہہ میں جمی ہوئی ہے

پچھلی صدی کا لیڈر واشگاف الفاظ میں کہتا رہا کہ ’نفرت کی بنیاد پر بننے والا ملک اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک نفرت زندہ رہے گی‘ ، شاید اسی لیے ہم نے نفرت کو پال پوس کے زندہ رکھا ہوا، گیارہ سالہ کال رات کے بعد بھی نفرت کو روز دودھ پلاتے گھی والی روٹی کھلاتے ہیں، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ایک درویش کہہ گیا تھا کہ جیسے ہی نفرت کی آگ ٹھنڈی ہوگی تو یہ ملک ٹکڑوں میں تقسیم ہونے لگے گا۔ لہذا ہم ماضی سے کافی کچھ سیکھ چکے ہیں، 1971 میں ملک کے دو ٹکڑے ہونے کے بعد مزید کوئی رسک نہیں لینا چاہتے۔ لہٰذا بلاناغہ نفرت کی آبیاری کرتے ہیں۔ ہم نے نفرت کی کئی فیکٹریاں لگائی ہیں، کہیں زبان، نسل، علاقہ، فرقہ کے نام پر تو کہیں بنامِ مذہب۔ بھلا ہو سلامت ماشکیوں کا جو نفرت کی آگ کا ایندھن بنتے ہیں اور ملک قائم رہتا ہے۔ صرف رات ہی کیوں، ہم نے تو اپنی صبحوں کو بھی قربان کر دیا، جبھی تو محسن نقوی کو کہنا پڑا تھا۔

محسن یونہی بدنام ہوا شام کا ملبوس
حالانکہ لہو رنگ تھا دامانِ سحر بھی

ہم داتا، بری، غازی، نورانی نور، جھولے لال قلندر سے ڈرتے ہیں اور ہتھیارے غزنی، ڈاکو غوری اور جارح ابنِ قاسم کو ہیرو مانتے ہیں۔ اپنے سندھو کی ثقافت کو مٹاتے اور صحرائے عرب کے کلچر کو متبرک جانتے ہیں، دوسروں کے بچوں کو جہاد فی سبیل اللہ کا سبق پڑھاتے اور اپنی ناجائز سیاست کی بلی چڑھاتے ہیں جبکہ اپنے بچوں کو مغربی کلچر کے سائے میں پروان چڑھاتے ہیں۔ پھر بھی ہمارا شاعر کہتا ہے۔

اساں ایں ریاست اندر رہ سگدے ہیں رفعت
جے ایہ بیڑی، پِپل، پانڑی، دول نہ ساڈا کھسے

 

(شاعر رفعت عباس کہتے ہیں کہ ”ہمارا اس ریاست کے ساتھ گزارا ہو سکتا ہے، اگر یہ ہماری کشتی، پیپل، پانی، ڈھول نہ چھینے“ ، یعنی ہماری تاریخی اساس، مقامی ثقافت اور ہمارے وسائل نہ چھینے )

مگر کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ یہ ریاست مقامی آدمی (نیٹو) کی اس عاجزانہ پیشکش پر بھی کان نہیں دھرتی، اس کا جواب حارث خلیق اپنے انداز میں دیتے ہیں۔

اس نے کبھی سنا نہیں میں نے کبھی کہا نہیں
وہ لفظ جو ادا ہوا عہدِ وفا کے بیچ

 

عہدِ وفا سے یاد آیا کہ اِک عہد اس خطے کے لوگوں سے 23، 24 مارچ 1940 کو بھی کیا گیا تھا، جب لاہور کے منٹو پارک میں ایک لاکھ لوگوں کے سامنے ایک قرارداد پر سب نے ایک عہد کیا تھا کہ ہم ایسی ریاست چاہتے ہیں جس میں تمام طبقوں، قومیتوں اور مذاہب کے لوگوں کے حقوق کو تحفظ حاصل ہو گا۔ مگر اُس عہد کا کیا ہوا؟

یعنی کہ جب پاکستان وجود میں آیا تو اچانک قراردادِ مقاصد کہاں سے آن ٹپکی، کیا سلیکٹڈ لوگوں کی منظور کردہ کوئی قرارداد براہ راست عوام سے کیے گئے عہد نامے کا متبادل بن سکتی ہے؟ کیا عوام سے کیا گیا عہد نامہ ردی کی ٹوکری میں پھینکا جاسکتا ہے؟

تاریخ میں اور کہیں ایسا ہوا ہو یا نہیں، لیکن ہم نے کر کے دکھایا کہ ایک لاکھ عوام کی منظور کردہ قرارداد کی کوئی وقعت نہیں، اسے یک جنبش قلم کالعدم قرار دے کر چند سلیکٹڈ لوگوں کے خیالات اکثریت پہ مسلط کر دیے گئے اور ہم انتہائی ”کامیابی“ سے ملک کو چلا رہے ہیں۔ جبھی تو ہمارا شاعر کہتا ہے

 

ہمارے دلوں میں ہے جنبش
ستاروں کی موہوم سی سرسراہٹ
مگر راستہ
روح کی دُھند میں گم ہوا
روح کی دُھند کو چھانٹنے
روشنی ہم نے سینچی نہیں
سخت عجلت میں باہر سے
جو بھی اجالے لیے مستعار
ان سے سب بال و پر جل گئے

اب غموں سے ہمارے
یہ گزرے زمانے کی موجیں ابھرتی ہیں
فکرو خیال و تمنا کی جھیلوں کو بھرتی ہیں
فکر و خیال و تمنا کی جھیلوں کے ان ساحلوں پر
ہم اڑنے سے قاصر
ہیں چلنے سے معذور
بیٹھے ہوئے ہیں

یہاں باغِ ہستی کے سب پھول
بالکل سفید اور ٹھنڈے ہیں
ان پر جمی برف سے گفتگو کا نہیں کوئی امکاں
فضا لاتعلق، زمیں سرد و ویراں

%d bloggers like this: