اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میاں نوازشریف پر ’’اللہ کا کرم‘‘ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میاں نوازشریف کے سیاسی سفر کی شاہراہ پر 2017ء اور 2018ء میں ’’بوئی‘‘ گئی بارودی سرنگیں ’’بونے‘‘ والے ہی اب یہ سرنگیں ہٹوارے ہیں جب یہ سرنگیں ’’بوئی‘‘ جارہی تھی تو ایک طقبہ اسے قانون کی حاکمیت کے ساتھ کرپشن کے خلاف جہاد اکبر کا حصہ قرار دے رہا تھا۔ اب بارودی سرنگوں کی صفائی کے مرحلے میں وہ طبقہ جو کہہ رہا ہے اس پر بحث اٹھانے کی ضرورت نہیں۔

نوازشریف ایون فیلڈ فلیٹس والے کیس میں بری ہوئے ہیں اس کیس، سزا، جیل، علاج کے لئے لندن جانے، پروٹوکول کے ساتھ واپس آنے اور اب گزشتہ روز بری ہونے پر ان سطور میں کچھ بھی عرض نہیں کرنا چاہتا ماسوائے اس کے کہ اس کے کیس کے آغاز پر ہی عرض کیا تھا ایون فیلڈ کو حدیبیہ پیپر ملز والے معاملے سے الگ کرکے دکھانے اور کیس کرانے کے فوری جو بھی نتائج حاصل کرلئے جائیں آگے چل کر اپنے ہاتھوں سے ان نتائج کی تدفین کا ’’سامان‘‘ کرنا پڑے گا۔

مزید کچھ عرض کرنے کی بجائے یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ اس کیس کو پانامہ والے معاملہ میں سپریم کورٹ کی قائم کردہ جے آئی ٹی کی کارروائی اور سپریم کورٹ کی طرف سے نوازشریف کو نااہل قرار دیئے جانے کے بعد جب اپیل میں کی گئی تو بنچ کے ایک رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ (اب چیف جسٹس ہیں) نے حدیبیہ پیپر مل کیس کا حوالہ دیئے جانے پر فائل غصے سے پھینکتے ہوئے نیب کے وکیل کو خبردار کیا کہ ’’آئندہ اس کا ذکر بھی عدالت میں کیا تو توہین عدالت کی کارروائی ہوگی‘‘۔

ایک رائے یہ تھی کہ جج کا غصہ اپیل کا وقت گزرجانے کے بعد معاملہ عدالت میں لائے جانے پر تھا۔

سوال اٹھا کہ کیا اپنے دور اقتدار میں مسلم لیگ (ن) نیب کو اپیل کی اجازت دیتی ثانیاً یہ کہ کیا اسی عدالت نے اپیلوں کا وقت گزرجانے پر اپیل کا حق نہیں دیا۔

جو حق کسی پسندیدہ شخص کو دیا جاسکتا ہے وہ ریاست پاکستان کے ایک ادارے کو دینے میں کیا امر مانع ہے خصوصاً اس صورت میں جب اس معاملے میں اسحق ڈار کا دفعہ 164کا بیان بھی موجود ہو؟ ایک سے زائد باران سطور میں عرض کرچکا کہ حدیبیہ پیپر ملز والے کیس کی کڑیاں ایون فیلڈ سے ملتی ہیں باقی سب سفید جھوٹ ہے۔

بہرحال میاں نوازشریف ایون فیلڈ فلیٹس کیس سے بری ہوگئے۔ بارودی سرنگیں بوانے والے ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ بھل صفائی کرانے والوں کا ان دنوں طوطی بولتا ہے۔

میاں نوازشریف آہستہ آہستہ چوتھی بار وزیراعظم بننے کی منزل یا یوں کہہ لیجئے کہ ’’مقامِ مقصود‘‘ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

کہا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ سے ان کی نااہلی پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں ترمیم کی وجہ سے تاحیات سے پانچ سال تک محدود ہوگئی ہے اور یہ پانچ سال پورے ہوگئے ہیں۔

اللہ خیر کرے گا انہیں اقتدار سے نکلوانے میں جو پھرتیاں دیکھائی گئی تھیں ویسی پھرتیاں اب دیکھائی جارہی ہیں۔ ان کے محبین، خاندان اور کارکن اس وقت انصاف کے قتل عام کی دہائی دیتے پھرتے تھے اب انصاف کی جیت کہہ رہے ہیں۔

مجھے میاں نوازشریف کی یہ بات اچھی لگی انہوں نے کہا

’’میں نے معاملات اللہ پر چھوڑے تھے اسی (اللہ) نے سرخرو کردیا ہے‘‘۔

اس تجربے کے بعد میاں صاحب نے العزیزیہ ریفرنس کا معاملہ بھی اللہ پر چھوڑدیا ہے۔

میرا شرارتی ہمزاد فقیر راحموں پچھلے چند منٹوں سے جو کھسر پھسر کررہا ہے اسے لفظوں کی صورت پروکر ان سطور میں لکھنے سے معذرت خواہ ہوں۔

شوق شہادت کا سودا کبھی بھی سر میں نہیں سمایا کیونکہ اکثر شہدا کے خاندانوں پر جو بیتی گزری اور گزر رہی ہے وہ آنکھوں سے دیکھ لی ہے۔

معاف کیجئے فقیر راحموں کی کھسر پھر نے بات دوسری سمت موڑدی۔

سچ پوچھئے تو سابق قائد سول سپر میسی کامریڈ میاں محمد نوازشریف پر اللہ کے اس ’’فضل و کرم‘‘ پر خوشی ہوئی ہے ۔

میری نسل کے ذمین زادے ’’اللہ، آرمی اور امریکہ‘‘ کے فیصلوں سے اختلاف رائے کے اظہارمیں کبھی بہت جذباتی ہوا کرتے تھے پھر سرکاری بوچڑخانوں میں ہوئی خدمت، وقت و حالات چار اور راج کرتی اقربا پروری اور چند دیگر وجوہات کے ساتھ بوڑھاپا یہ سمجھاگیا کہ پاکستان ایسے ملک میں ’’اللہ آرمی اور امریکہ‘‘ ہی اہم و بالاتر ہیں۔

میرے ایک مرحوم دوست حکیم محمود خان ایڈووکیٹ کہا کرتے تھے ’’یار شاہ جی جب سے بیٹی کے باپ بنے ہو تب سے پرانے شاہ جی نہیں رہے‘‘۔

موضوع سے باردیگر بھٹکنے پر دلی معذرت، اصل میں میاں نوازشریف پر اللہ کے تازہ کرم سے اتنی خوشی ہورہی ہے کہ کیا بتائوں ۔

البتہ مجھے افسوس ہے کہ میاں صاحب نے جس معاملے کو اللہ کا کرم قرار دیا ہے ان کے برادر خورد شہباز شریف اس معاملے پر عدلیہ کا شکریہ ادا کررہے ہیں جس نے انصاف دیا۔ شکریہ کا مستحق کوئی ’’اور‘‘ ہے۔ پتہ نہیں دونوں بھائی اس کا نام لے کر شکریہ ادا کرنے سے شرما کیوں رہے ہیں

حالانکہ بچہ بچہ اور پتہ پتہ جانتا ہے کہ 2017ء میں کیا ہوا تھا کون کرارہا تھا اوراب کیا ہورہا ہے کون کرارہا ہے۔

2018ء کے انتخابات سے قبل حقیقی مالکان نے عمران خان کے لئے جو کچھ کیا تھا آج وہی سب کچھ میاں صاحب قبلہ کے لئے ہورہا ہے تب عمران خان والے انصاف کا جھنڈا اٹھائے ہوئے تھے اب انصاف کا جھنڈا لیگی "پیادوں” نے سنبھال رکھا ہے۔

میاں صاحب پر ابھی اللہ مزید فضل و کرم کرے گا۔ فضل و کرم کا عرصہ کتنا ہوگا اس بارے تحریر نویس کچھ کہنے سے قاصر ہے۔ اللہ کے نمائندوں اور میاں صاحب میں نبھتی کتنی دیر ہے یہ اصل سوال ہے۔

البتہ یہ لکھ کر رکھ لیجئے کہ میاں صاحب اگر چوتھی بار وزیراعظم بن گئے (بظاہر تو رکاوٹیں ہٹائی اور سرنگیں صاف کرائی جارہی ہیں) تو ایک جہاندیدہ مدبر و بزرگ وزیراعظم کی جگہ 1990ء کی دہائی میں پہلی بار وزیراعظم بننے کے بعد کا سا برتائو کھل کھلا کر کریں گے۔

جو دوست اور احباب ہماری اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے وہ میاں صاحب کے نفس ناطقہ سینیٹر عرفان صدیقی کی حالیہ چند تحریروں سے رجوع فرمائیں ان کے لئے وہ تحریریں حاذق ثابت ہوں گی۔

میاں صاحب اس بار کھلے اور چھپے دشمنوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے موڈ میں ہیں اس موڈ سازی میں کچھ حالات و واقعات کے ساتھ ہمارے دیرینہ محب مکرم اور قائد ملت اسلامیہ مولانا فضل الرحمن کا بھی عمل دخل ہے۔

خیر جو ہوگا دیکھا جائے گا فی الوقت تو یہ ہے کہ میاں صاحب پر اللہ نے ایون فیلڈ فلیٹس کیس والے معاملے میں کرم کردیا ہے۔مزید کرم ہوں گے اور امید ہے کہ میاں صاحب کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ ’’کرم مانگتا ہوں عطا مانگتا ہوں‘‘۔

سب کچھ ’’بن‘‘ مانگے ہی مل رہا ہو تو پھر مانگنا نہیں چاہیے۔ ہاں یہ سوال اہم ہے کہ کیا بارودی سرنگوں کی صفائی، بھل صفائی، اللہ کے کرم، اسٹیبلشمنٹ کے فضل اور دیگر معاملات یہ سب مل کر میاں صاحب کو دو تہائی اکثریت دلوانے میں کامیاب ہوجائیں گے؟

ہمارے فیصل آبادی معاف کیجئے گا لائلپوری دوست اپنے مخصوص انداز میں کہتے ہوتے ہیں

’’لگدا تے نئیں پر خورے‘‘

کوئی مانے نہ مانے حقیقت یہی ہے کہ اس وقت میاں صاحب اور مسلم لیگ (ن) ہی اس ’’حال‘‘ میں ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی ضرورتیں اور ڈھکی چھپی مرادیں پوری کرسکیں۔

پولنگ والے دن مرادیں کیسے پوری ہوں گی؟ کیا واقعتاً پولنگ ڈے سے قبل عمران خان کے حامی طبقات کا بڑا حصہ مایوس ہوکر گھر بیٹھنے پر آمادہ ہوجائے گا یہ بذات خود سوال ہے۔

مجھے نہیں لگتا کہ 2018ء کی سطح کے انتظامات ہوسکیں گے۔ اس کی بڑی وجہ اسٹیبلشمنٹ کے پالے پوسے گھڑے گئے سارے لشکر بمعہ ففتھ جنریشن وار رجمنٹ کے اس کے مخالف ہیں۔ مسلم لیگ (ن) یا نوازشریف کا اصل ووٹ بینک صوبہ پنجاب، اس میں بھی وسطی اور بالائی پنجاب خصوصاً جی ٹی روڈ سے ملحقہ شہر وغیرہ میں ہے۔

خود لاہور کی انتخابی سیاست (ن) لیگ کے ہاتھوں سے پھسل رہی ہے۔ اطلاع یہ ے کہ میاں صاحب لاہور کے علاوہ مری سے اور شہباز شریف لاہور کے علاوہ ایم کیو ایم کے تعاون سے کراچی سے قومی اسمبلی کے امیدوار ہوں گے۔

بہرحال جو اللہ کو منظور ہوا وہی ہوگا۔ ہم سے عاجز تو دعا ہی کرسکتے ہیں کہ میاں صاحب اور اللہ کے نمائندوں میں بنی نبھتی رہے باقی جو ہوگا دیکھا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: