اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رفعت عباس کا نیا سرائیکی ناول||سعید اختر

سعیداختر سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے استاد اور دانشور ہیں ، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

سعید اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رفعت عباس معروف سرائیکی شاعر اور سرائیکی ناول نگار ہیں۔ رفعت عباس کا پہلا سرائیکی ناول لون دا جیون گھر ، جس کا اردو ترجمہ نمک کے جیون گھر کے نام سے ہوا کو کافی پذیرائی ملی جو بلاشبہ برصغیر میں لکھے گئے چند عمدہ ناول میں سے ایک قابل ستائش ناول ہے۔ لون دا جیون گھر تہذیبی بیانیے کی کشمکش کی کہانی ہے اور اگر اسے کسی ناول کے دسیتاب بیانیے سے پرکھنا چاھیں تو لون دا جیون گھر کو مابعد کالونیل ازم کے بیانیے کے طور پر بھی پرکھا جاسکتا ہے۔ اپنے پہلے ناول میں رفعت عباس نے ناول نگاری کے رائج اصناف میں فینٹسی کو اپنے اسلوب میں برتا اورمیں نے اس ناول کو حوزے لوئی بورخییس کی ناول نگاری کی تکنیک پہ پرکھنے کی کوشش کی تھی۔ بلاشبہ حوزے لوئی بورخیس نے ایک اور عمدہ کہانی کار گبرائل گارشیا مارکیز کو بھی متاثر کیا تھا۔ یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ لون دا جیون گھر کو “جادوئی حقیقت پسندی” کے پیرائے میں ڈھالنے کی کوشش میں ناول کا صیحیح تجزیہ نہ کیا جا سکا تھا۔ لون دا جیون گھر میں کرداروں کی بنت ایسی ہے کہ وہ اپنے پیشے سے اپنے گرد و نواع کو معنی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس بات کی اگر اس وقت آپ وضحات چاھیں تو میں بھی شاید آئیں بائیں شائیں کرنے لگوں۔
رفعت عباس کے پہلے ناول اور حال ہی میں چھپے نیلیاں سلہاں پچھوں میں موضوع مشترک ہے جسے آپ تہذیبی کشکمش کا نام دے سکتے ہو اور اس موضوع کو میرے خیال میں مابعد کالونیل ازم کی ناول نگاری کی صنف کے پیرائے میں پرکھا جاسکتا ہے۔ آپ اختلاف کر سکتے ہیں۔
نیلیاں سلہاں پچھوں پہ بات کرنے سے پہلے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ رفعت عباس کے مکالمے مقامی آدمی کا موقف پہ اگر مختصر بات کر لی جائے تو ہرج نہ ہوگا۔ رفعت عباس سے اس مکالمے میں سوال کیا جاتا ہے کہ ، “ آپ کی کافیوں میں رب کا ایک مہربان تصور اُبھرتا ہے ، آپ کی کافی میں اسے مقامی خوشبو کہا گیا ہے؟” رفعت عباس جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں، “ جی بالکل ، رب اپنی مقامیت میں ہی آفاقی ہے، رب العالمین ہے، اس کا ہر جگہ موجود ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ وہ مقامیت میں اظہار کرتا ہے۔ رب مقامی خوشبو کل جہانیں رہندی” ایک اور سوال میں رفعت عباس کو یاد دلایا جاتا ہے کہ، “ آپ کی ایک کافی ہے جس میں میں عشق کو عورت کا جہان قرار دیا گیا ہے یاد ہے آپ کو ؟ رفعت عباس وہ کافی سناتے ہیں ، “ عشق تریمت دا ترکہ وہ گالھ ایہا مذکور/ عشق تریمت دا بھوئیں بھانڈا کوٹھا آنگن تنور “ اس مکالمے کا بنیادی موقف تہذیبی کشمکش ہے یعنی نظریات کی یلغار نے کیسے مقامی آدمی سے اس کی شناخت چھینی اور اس کی profiling کی۔ یہی مابعد کالونیل ازم کا موقف ہے۔ نظریات کی یلغار کے حوالے سے یہاں ایک اور مکالمے کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ جس میں رفعت عباس صوفی کے بارے کہتے ہیں “ مخادیم اور سجادہ نشین مرکز یا راجدھانی سے جڑے ادارے ہیں جبکہ صوفی راجدھانی یا مرکز سے باہر خلق خدا کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔” قصہ مختصر صوفی مقامی بندہ ہوتا ہے، اگر میں اس بات کو صیحح سمجھا ہوں۔ نیلیاں سلہاں یا ceramics سے مقامی بندہ جو ناول کا متکلم ہے اگر کبھراتا ہے تو اس کی گھبراہٹ نظریات کی یلغار سے ہے اس تہذیبی کشمکش سے ہے کہ جہاں مقامی بندہ اپنی شناخت کھو بیٹھا ، آئیں اس کو ناول نیلیاں سلہاں پچھوں کے دو کرداروں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میاں کیسر گرو خواجہ سرا ہے ۔ میاں کیسر کہتا ہے، “ ہم نیلی اونچی عمارتوں سے ڈرتے ہیں اور کبھی بھی ان کے قریب سے نہیں گزرتے” بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میاں کیسر کہتا ہے “ ایسی جگہ ہمارے لئے پریشانی کی جگہ ہے ، ہمیں یہاں موت کی جھلک نظر آتی ہے جبکہ ہم تو پیدا ہی زندگی کی “ودھائی” کیلئے ہوتے ہیں”
دوسرا کردار ملوہیا حسین کا ہے۔ ناول کا متکلم اسے یوں ہمیں متعارف کراتا ہے کہ جو پرہلاد بھگت کے مندر کی نرتکی پدما وتی دے ناچ کو پرکھ رہی تھی۔
ہیر کے قتل کی ایف آئی آر کٹوانے کی کوشش ناول میں Feminism کے تاثر کو اجاگر کرتی ہے ۔ ہیر کے قصے میں Male dominant حکایت کو ناول مسترد کرتا ہے دراصل قصے میں ہیر کے قتل کا موجب بھی قصے کا مردانہ بیانیہ ہے۔
اگر آپ ناول کو ناول نگاری کے مروجہ اصولوں پہ پرکھنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو مایوسی ہوگی۔ ناول کا پلاٹ اتالیو کالونیو کے ناول Invisible Cities سے مماثلت رکھتا ہے۔ مگر اس ناول کو ڈرامے کی صنف یا مکالمے کی صنف میں بہتر انداز میں سمجھا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: