اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کھٹا میٹھا سچ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

درست بات یہی ہے کہ ملک میں اس وقت یکطرفہ ٹریفک چلائی جارہی ہے۔ اسی طرح کی یکطرفہ ٹریفک دو ہزار اٹھارہ میں بھی چلائی گئی تھی لیکن دو ہزار اٹھارہ ہی کیوں دو ہزارہ تیرا میں بھی تو نئے محبوب کی بونگیوں کی وجہ سے پرانے ’’دلبر‘‘ کو پھر گود لینے کا فیصلہ ہوا تھا۔ یہاں یہی ہوتا ہے۔ خاک ڈالی جاتی ہے نتائج اور اسباق پر۔ حالیہ یکطرفہ ٹریفک میں سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کے لئے نئے ٹریفک قوانین گھڑے گئے ہیں۔

مثلاً ان نئے قوانین کا اطلاق پی ٹی آئی والوں کے پورچز پر بھی ہوتا ہے۔ ’’یعنی تم نے گاڑی سٹارٹ کرکے ریس زیادہ دی کلچ بریک سے پائوں اٹھ جاتا تو حادثہ لازم تھا‘‘۔

اب دو باتیں ہیں پہلی یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کی خاص نگرانی میں تیار ہوئی گالم گلوچ بریگیڈ کے ساتھ جو ہورہا اس پر مکمل خاموشی اختیار کرلی جائے۔ دوسری یہ کہ کم از کم یہ بات تو کہی جائے کہ حضور یہ بریگیڈ آپ نے تیار کی اس کے ذہن میں تُن تُن کے بھرا کہ سب چور ہیں۔ ایک اکیلا ایماندار، سمارٹ صادق و امین عمران خان ہے اور دوسری فوج ہے۔ فوج جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی محافظ ہے اور عمران خان تبدیلی کا دیوتا۔ دونوں کا دامن تھامے رہو گے تو پاکستان چاند قریب نہ پہنچا تو اس کی طرح ’’روشن روشن‘‘ ہوجائے گا۔

اب ہوا یا نہیں اس پر سر کھپانے کی ضرورت کیا ہے اور جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اپنی ہی ایک پرانی تحریر کے چند الفاظ باردیگر عرض کرتا ہوں ’’تخلیق خالق کے گریبان سے الجھنے لگی ہے‘‘۔

اچھا کیا عمران خان کی اوئے توئے اور اس کے محبین کی بدتمیزیوں کا غصہ اس طور نکالا جائے کہ جو ہورہاہے اس پر ’’دروٹ‘‘ لیا جائے؟ میرے خیال میں یہ درست نہیں ہوگا۔ ہم اس پر تو اختلاف کرسکتے ہیں کہ سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی میں بدلنا گالم گلوچ کی سطح سے نیچے نہ اترنا اور اپنے سواسب کو چور ڈاکو ملک دشمن قرار دینا غلط تھا۔

بعدازاں اس تلخ حقیقت کو نظرانداز کردینا بھی غلط تھا کہ یہ ملک قانون و دستور کی اعلیٰ حاکمیت کی مثالی مملکت نہیں بلکہ سکیورٹی اسٹیٹ ہے۔ سکیورٹی اسٹیٹ سے لڑنے کی بجائے لوگوں کی شعوری رہنمائی کی جاتی ہے۔ طبقاتی جمہوریت میں سے عوام کے حق حکمرانی کا راستہ نکالا جاتا ہے۔

بدقسمتی ہی ہے کہ تخلیق کردہ ہجوم نے زمینی حقائق کو نظرانداز کیا خالقین کے گریبانوں سے الجھا تو عتاب کا شکار ہوا ۔ ہوا کیا مسلسل ہورہا ہے۔ یہاں تک کہ غزہ پر اسرائیلی حملوں کے خلاف اس کے چھوٹے موٹے احتجاجی جلسوں اور مظاہروں پر بھی پرچے درج ہوتے ہیں۔

تمہید طویل ہوگئی مگر کیا کیجئے ہمارے آپ کے چار اور جو ہورہا ہے اس سے یکسر لاتعلقی بھی درست نہیں اور یہ بھی درست نہیں کہ تحریک انصاف کو سیاسی جماعت بننے کا موقع نہ دیا جائے۔

یہ کہنا کہ عمران خان کی عوامی حمایت نہیں سفید جھوٹ ہوگا۔ حمایت بہرطور موجود ہے اور رہے گی۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا صدر عارف علوی نے نگران وزیراعظم کو گزشتہ روز جو خط لکھا وہ غلط ہے یا درست؟

ہماری دانست میں خط ہے تو درست ہے لیکن صدر کو مودبانہ درخواست نما خط لکھنے کی بجائے حکم دینا چاہیے تھا۔

صدر نے اپنے خط میں جن معاملات کی نشاندہی کی ہے وہ سوفیصد درست نہ بھی ہوں تو اسی نوے فیصد درست ہیں۔ تحریک انصاف کے ساتھ ہر سطح پر امتیازی سلوک ہورہا ہے۔ امتیازی سلوک کے کھڈوں میں خود کو گرانے کے لئے تحریک انصاف نے بھی بڑی محنت کی لیکن ایک جیتے جاگتے سماج کے کروڑوں لوگوں کو اصلاحی کیمپوں میں رکھا جاسکتا ہے نہ ان کا سوشل بائیکاٹ ممکن ہے۔

’’اچھا کیا ریاست نے اس سے پہلے تیار کردہ اپنے بدزبان لشکروں کو محفوظ راستہ نہیں دیا؟‘‘

خیر چھوڑیئے ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ تلخ حقیقت یہی ہے کہ اس وقت کی نگران وفاقی اور پنجاب کی حکومت اپنی حدود سے تجاوز کی مرتکب ہورہی ہیں۔ پنجاب حکومت کی تو آئینی و قانونی حیثیت پر بڑے سوالات ہیں کچھ دنوں بعد ایسے ہی سوالات نگران وفاقی حکومت بارے بھی اٹھنے لگیں گے۔ ان میں اہم ترین سوالات نگران حکومتوں کے لئے مقررہ آئینی مدت کا ہوگا۔

ثانیاً ملک بھر میں تحریک انصاف کے پہلے دوسرے تیسرے درجہ کے رہنمائوں کارکنوں اور ہمدردوں کے ساتھ جملہ اداروں اور محکموں کا امتیازی سلوک ہے۔ اس امتیازی سلوک کے بیچوں بیچ چند افسوسناک واقعات بھی ہوئے انکے حوالے سے اگر انصافیوں کے دعوئوں اور زبان دانیوں کو نظرانداز بھی کردیا جائے تو بھی اس موقف کو رد کرنا بہت مشکل ہوگا کہ حکومتی محکمے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ نے ماضی میں بھی جو تجربات کئے تھے ان میں بدترین ناکامی ہی نہیں دیکھنا پڑی بلکہ وہ تجربات الٹا گلے پڑگئے تھے ۔ پھر نمٹنے کی کوششوں کے دوران غیرمتوازن فیصلوں اور اقدامات کی وجہ سے معاملات مزید بگڑے۔

بہتر تو یہ تھا کہ ماضی سے سبق سیکھ کر رہنمائی حاصل کی جاتی اور اس بار ماضی کو دہرانے سے گریز کیا جاتا۔ ایسا نہیں ہوا۔ وجہ اس کی یہی ہے کہ

’’ہم سب جانتے ہیں ہم ہی اچھے مستری، سائنسدان، دانشور، قانون ساز، وکیل، جج، انجینئر، سماج سدھار وغیرہ وغیرہ ہیں”

حالانکہ یہ ’’ہم‘‘ کچھ بھی نہیں ہیں ماسوائے خبط عظمت کے ناقابل علاج مرض کے مریضوں کے۔ بہرحال یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جو آپ نے بویا اس کی فصل تیار ہوئی۔ دال مسور کا بیج ڈال کر اگر دال ماش کی فصل اٹھانا چاہتے تھے تو یہ نرا گاودی پن ہی تھا۔

بار دیگر عرض کرتا ہوں اچھی یا بری بہرحال تحریک انصاف ایک حقیقت ہے۔ اسے توڑنے اور سیاسی عمل کے میدان سے باہر رکھنے کی کوششیں اسی طرح غلط ہوں گی جیسے اسے بنانے سنوارنے میں حدود پامال ہوئی تھیں۔ یہاں ماضی میں سو سوا افراد کے قاتلوں اور دہشت گردی کی بڑی وارداتوں میں براہ راست ملوث افراد کو اصلاح احوال کے لئے مواقع فراہم کئے گئے ایک سکہ بند دہشت گرد تنظیم کا سربراہ تو اب تبلیغی مصروفیات کے ساتھ قبضہ گروپ بھی چلارہا ہے پھر کیوں نہ تحریک انصاف کو بھی دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح مساوی مواقع دیئے جائیں۔

بزعم خود عقل مند مخلوق ذرا ناک کے نیچے بھی دیکھنے کا حوصلہ کرے۔

تحریک انصاف سے غلطیاں ہوئیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا اچھی بری سیاسی جماعتوں اور مروجہ سیاسی نظام کو گالیاں دینے والی مخلوق تیار کرنے والے ’’معصوم‘‘ ہیں۔

قصہ مختصر یہ ے کہ اب جبکہ ملک میں انتخابی گہماگہمی شروع ہونے والی ہے تحریک انصاف کو بھی بطور جماعت اس میں حصہ لینے کا پورا پورا موقع ملنا چاہیے۔ ایک مقدمے میں ضمانت دوسرے میں جیل کے دروازے پر گرفتاری کا ڈھکوسلہ پروگرام بند کرنے کی ضرورت ہے۔

سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ لاڈلہ گیری کے شوق سے نجات حاصل کی جائے۔ وفادریاں آج بدلوائی جارہی ہوں یا 2018ء میں یا پھر اس سے قبل بدلوائی گئیں یہ غلط تھا غلط ہے اور غلط ہی ہوگا۔

یہ تاثر دور ہونا چاہیے کہ کوئی کسی کا ’’بیج‘‘ ختم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ خود تحریک انصاف کو بھی مزاج ۔ سیاست اور کلام تینوں میں اعتدال لانا ہوگا اس کی لیڈر شپ اور کارکنان بھی دوسروں کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں تا کہ برداشت کئے جاسکیں۔

تالی ایک ہاتھ سے نہیں دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔ صرف تحریک انصاف نہیں سبھی کو سمجھنا ہوگا کہ نفرت اور عدم برداشت کی سیاست مستقل نہیں ہوتی ان سے وقتی فوائد ضرور اٹھائے جاسکتے ہیں لیکن فوائد کے مقابلہ میں نقصان زیادہ ہے۔

اصل میں یہ تاثر ختم ہونا ضروری ہے کہ اسٹیبلشمنٹ یا کوئی اور تحریک انصاف کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں۔

بات کڑوی ہے لیکن سچ یہی ہے کہ جو ہوا اس کی ذمہ دار تنہا تحریک انصاف بالکل بھی نہیں۔

حرف آخر یہ ہے کہ سیاسی عمل کے میدان میں مساوی طور پر سرگرمیوں کی اجازت بہت ضروری ہے بصورت دیگر انتخابی نتائج متنازعہ ہوں گے۔ ارباب اختیار کو صدر مملکت کے خط کے مندرجات پر ٹھنڈے دل سے غور کرکے اصلاح احوال کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: