اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی وسیب اور سنگت کا دلبر ارشاد امین ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کاغذ قلم سامنے رکھے کافی دیر سے لکھنے کا ارادہ باندھتا ہوں لیکن جو لکھنا ہے اسے شروع کہاں سے کروں۔ اس پہلی ملاقات سے جو عزیز جاں عزیز نیازی ایڈووکیٹ مرحوم کے چیمبر میں ہوئی تھی۔ لالہ عمر علی خان بلوچ کے سرائیکی ادب کے دفتر میں ہوئی ملاقات سے یا پھر سال 1985ء کے اس دن سے جب صفدر بلوچ نے لاہور میں مجھ پردیسی کے لئے اپنی لگی بندھی ملازمت یہ کہتے ہوئے چھوڑی ’’شاہ میں استعفیٰ دے چکا تھا لیکن نیازی (احمد نواز نیازی) کا اصرار تھا کہ پہلے متبادل ایڈیٹر کا بندوبست کرو پھر جانا شکر ہے تم آگئے یہ دفتر و کرسی اور ملازمت تیرے ہوئے مجھے اجازت‘‘۔

اسی گفتگو کے دوران ارشاد امین ہفت روزہ ” کہکشاں ” کے دفتر میں داخل ہوا اور صفدر بلوچ نے کہا یار ارشاد ’’میں نیازیاں کو ایڈیٹر ڈے ڈتے آ آپاں ہنڑ جُلوں ‘‘۔ نوکری تاں مل گئی شاہ کوں پر اے راہسی کتھاں’ ارشاد امین نے پوچھا۔ بھا لاوس جتھ وی راہوے اندے پیو دے چاچے دا پتر داتا گنج بخش راہندے لاہور اوندے کول ویسی پیا۔ صفدر بلوچ نے جواب دیا۔

تب میں نے بے ساختہ کہا، او سرائیکی وسیب اے عالم چنیاں دی جوڑی (ارشاد امین اور صفدر بلوچ کو طویل القامت ہونے کی وجہ سے ہم کچھ دوست سرائیکیوں کے عالم چنائوں کی جوڑی کہا کرتے تھے) اجنڑ نوکری ملی اے روٹی ٹکڑ تے راہنڑ دا بندوبست کرو۔ اچھا اچھا شاہ تھی گیا ٹکر تے راہنڑ دا بندوبست ارشاد امین بولا۔ یوں پہلی تنخواہ ملنے تک روٹی ٹکر چائے سگریٹ ان دونوں کے ذمے ہوئے۔

میں نے بھی ان کے ساتھ لاء کالج کے ہوسٹل میں لالہ ولی محمد انجم کے کمرے میں ڈیرے ڈال دیئے جو عموماً سرائیکی مسافروں سے بھرا رہتا تھا۔

ارشاد امین سے پہلی ملاقات عزیز نیازی ایڈووکیٹ کے ضلع کچہری ملتان والے چیمبر میں ہوئی یادداشت ساتھ دے رہی ہے اس موقع پر مرحوم ارشاد تونسوی بھی موجود تھے اور سید حسن رضا بخاری المعروف رضو شاہ بھی۔

پھر چند برسوں بعد سرائیکی ادب کے دفتر میں اس سے ملاقات ہوئی۔ کچھ اختلافات کے بعد عمر علی خان بلوچ اور ارشاد امین میں تازہ تازہ صلح ہوئی تھی۔

اس کے چند برس بعد اپریل 1985ء میں ہم لاہور میں اس وقت اکٹھے ہوئے جب میں تلاش روزگار کے لئے لاہور پہنچا تھا۔ پچھلے 39 سالوں سے ہم نہ ٹوٹنے والے اس تعلق میں بندھے ہوئے تھے جس کا دامن چھڑاکر ارشاد امین آج 6 نومبر 2023ء کی سپہر فیصل ٹائون کے قبرستان میں منوں مٹی کی چادر اوڑھ کر سوگیا۔ کیسا بے مروت آدمی تھا اجل کو گلے لگایا اور ر خصت ہوگیا۔

ارے یاد آیا ملتان کی دو ملاقاتوں کے درمیانی برسوں میں ایک ملاقات مرحوم سئیں غلام یٰسین فخری کی قیام گاہ واقع ڈرگ کالونی کراچی میں بھی ہوئی تھی۔ فخری صاحب میزبان تھے ارشاد امین ، نذیر لغاری اور میں مہمان۔

دنیائے سرائے سے پڑائو اٹھاتے وقت ارشاد امین کی عمر یہی کوئی 63 یا 64 برس رہی ہوگی۔ پیر فرید خواجہ غلام فریدؒ کا چاچڑاں شریف اس کی جنم بھومی تھی۔ اڑھائی تین ماہ قبل اس نے فیس بک پر اپنے اکائونٹ پر لکھا ’’میں یکم ستمبر سے چاچڑاں شریف منتقل ہورہا ہوں وہاں ایک ’’کمیون‘‘ بنانے کا ارادہ ہے لائبریری بھی وہیں شفٹ کروں گا۔

رزق کی ہجرت اوڑھے سفر حیات طے کرتے لوگوں کی گہری پھانس یہی ہوتی ہے کسی طرح جنم بھومی کو واپس چلا جائے۔ 31 اکتوبر کی سپہر اس کا فون آیا کہہ رہا تھا، شاہ میں تیڈی امڑی سینڑ کے شہر ملتان جارہا ہوں اب وہیں رہوں گا ایک لمبا عرصہ۔

خیر ہو میں نے پوچھا۔ کہنے لگا خیر ہے شاہ پی ٹی وی ملتان سنٹر سے سرائیکی پروگرام شروع کروں گا اس کے لئے معاملات طے پاگئے ہیں۔ اب تم ملتان آیا کرو تو ملاقات ضرور ہو۔ پھر خود ہی کہنے لگا، یار شاہ لگتا ہے کہ زندگی کے آخری سانسوں کے دن اچھے گزریں گے۔

اس کے لہجے میں موجود حسرت کلیجہ چیرتی ہے۔ اس حسرت کو سمجھنے کے لئے اپنا سفر اپنی صلیب اٹھاکر خود طے کرنا لازم ہے۔

ارشاد نے ایک طویل عرصہ سے سعودی عرب میں بسر کیا اس کے والدین اور بھائیوں نے بھی ارض حجاز میں زندگی کی تلاش میں بڑی محنت مشقت کی اور خود اس نے بھی۔

سرائیکی قومی شناخت اور سرائیکی ادب کا عاشق صادق تھا جو نہ رہا۔

ماہنامہ ’’سرائیکی ادب‘‘ ملتان ایک معاہدے کے تحت اس نے لالہ عمر علی خان بلوچ سے حاصل کیا بدقسمتی سے معاہدہ توڑ نہ چڑھ پایا دوستی میں بھی دراڑ آئی پھر اس نے ’’نواں سرائیکی ادب‘‘ کے نام سے جریدہ نکالا۔ دوستوں کی متعدد کچہریاں ہوئیں اس نے سنگت کی حجت مان لی۔ ’’نواں سرائیکی ادب‘‘ کی اشاعت معطل کردی گئی۔

’’سنگت پبلی کیشنز‘‘ کے نام سے ادارہ بنایا دو تین کتابیں شائع ہوئیں ان میں سئیں اسماعیل احمدانی کا سرائیکی ناول ’’چھولیاں‘‘ بھی شامل ہے۔

1989ء میں اس نے لاہور سے سیاسی جریدہ ہفت روزہ ’’طلوع‘‘ نکالا۔ ’’طلوع‘‘ کے پہلے ہی شمارے نے ملک بھر میں دھوم مچادی۔ اس پہلے پرچے میں علامہ سید عارف حسین الحسینی شہید کے قتل کی سٹوری شائع ہوئی تھی۔

غالباً اس پرچے کے باقاعدہ 9 شمارے اولین اشاعت کے عرصہ میں ہی شائع ہوسکے۔ شاندار اور منفرد سیاسی جریدہ اشتہاری کمپنیوں اور نظریہ پاکستان کے حسد کا شکار ہوا۔

ارشاد امین نے سرائیکی روزنامہ ’’سجاک‘‘ بھی نکالا تھا پہلی بار یہ روزنامہ ملتان سے شائع ہونا شروع ہوا۔ اشاعت معطل ہونے کے چند برس بعد دوبارہ لاہور سے اشاعت شروع ہوئی۔ طلوع اور سجاک کے ادارتی عملے میں ہم بھی شامل تھے۔

’’سجاک‘‘ کی اشاعت لاہور سے شرع ہوئی تو اس کے ایڈیٹر مرحوم صابر چشتی تھے۔ ملتان سے اس کی اولین اشاعت میں نذر بلوچ، رئوف کلاسرا اور دیگر نوجوان ادارتی عملے میں شامل تھے۔

ارشاد نے ’’پین‘‘ کے نام سے ایک نیوز ایجنسی بھی بنائی تھی۔ یہ منصوبہ بھی ادھورا رہ گیا۔ اس کے بنائے سارے پراجیکٹ وقت سے پہلے بند ہوئے ایک وجہ اشتہاری کمپنیوں کا عدم تعاون اور دوسری وجہ خود اس کا شاہ خرچ ہونا تھا۔ ایک سال کا بجٹ اگر تین ماہ میں ختم ہوجائے تو منصوبے آگے کیسے بڑھیں ۔

روزنامہ شہاب اور روزنامہ ” ایوان صداقت ” لاہور میں چیف نیوز ایڈیٹر کے طور پر بھی محنت مشقت کی۔ روزنامہ مشرق پشاور اور روزنامہ میدان پشاور سے بطور کالم نگار بھی منسلک رہا۔

وہ اپنی ذات میں پورا دبستان تھا۔ 1986ء میں ہم کچھ دوستوں نے مل کر سرائیکی نیشنل پارٹی بنائی تھی۔ راشد حیدر سیال اس کا چیئرمین، میں سیکرٹری جنرل اور ارشاد امین چیف آرگنائزر و منشور کمیٹی کا سربراہ بنے۔ ملتان میں بننے والے اولین سرائیکی اتحاد، سرائیکی قومی رابطہ کمیٹی میں چیف آرگنائزر صوفی تاج محمد گوپانگ ایڈووکیٹ تھے۔ ارشاد امین رابطہ سیکرٹری اور میں جنرل سیکرٹری تھا۔ عہدیداروں کے انتخاب کے بعد کچھ دوست ارشاد سے شدید ناراض ہوئے کہ اس نے ہمیں ان پر ترجیح دی۔

سرائیکی قومی شناخت، علم و ادب کی ترویج اور تاریخی صداقتیں سامنے لانے کے لئے ارشاد امین نے سرائیکی سنگت لاہور کے پلیٹ فارم سے متعدد سیمینار و کانفرنسیں بھی کروائیں۔ رحیم یار خان میں پتن مینارہ کانفرنس میں اس کےساتھ سیدی خلیل بخاری حسن معاویہ ایڈووکیٹ اور مظہر سعید گوپانگ سرگرم عمل رہے۔

چھ دہائیوں سے تین چار برس اوپر کے سفر حیات میں سرائیکی وسیب کی قومی شناخت علم و ادب کی ترویج دوست نوازی ہی اس کا سب سے بڑا تعارف رہا۔

وہ نئے جذبے اور والہانہ پن سے ملتان گیا تھا پر امید تھا کہ زندگی کے آخری ماہ و سال (جتنے بھی ہوئے) اب اچھے گزریں گے۔ ہائے اجل کے کاش اسے ہی اجل آن دبوچتی اور ارشاد امین ہمارے درمیان موجود ہوتا۔

وہ سرائیکی وسیب اور سنگت کا دلبر تھا۔ اس کا سانحہ ارتحال یقیناً اس اہلیہ محترمہ اور صاحبزادی کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سرائیکی وسیب اور سنگت کا بھی بے پناہ بڑا نقصان ہوا۔ ارشاد امین رخصت ہوا، آج وہ کل ہم قبر میں اتارے جائیں گے اجل کو کون ٹال سکتا ہے۔ ہر ذی نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔

پسِ نوشت / ارشاد احمد امین سے جڑی یادوں پہ لکھی یہ تحریر نامکمل ہے اگلی نشست میں مزید یادیں پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کرتا ہوں .

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: