مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

موت کا رقص۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سادہ لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عالمی بوچڑ خانے کے سربراہ امریکی صدر جوبائیڈن کے دورہ اسرائیل سے قبل اسرائیل نے غزہ کے ہسپتال پر بمباری کرکے 500 فلسطینیوں کے لہو کی جوبائیڈن کو ’’سلامی‘‘ پیش کی ہے۔ ہسپتال پر بمباری سے قبل اسرائیل نے غزہ میں قائم 21 چھوٹے بڑے ہسپتالوں کو خالی کرنے کا کہا تھا لیکن اس سے قبل امریکی صدر یہ کہہ چکے تھے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع میں ہر قدم اٹھانے کا حق ہے۔

’’حق‘‘ کی امریکی تشریح ہسپتال پر حملے اور 500 افراد کے جاں بحق ہونے سے مستند ہوگئی۔ اب لاکھ کہتے پھریں کہ اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہوا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا غزہ میں جنگ بندی کے لئے سلامتی کونسل میں روسی قرارداد کو ویٹو کرنے والے امریکہ برطانیہ اور فرانس ان جنگی جرائم میں حصہ دار نہیں؟

اصولی طور پر پچھتر برسوں سے جاری فلسطینیوں کی نسل کشی کی ذمہ داری صرف اسرائیلی ریاست پر عائد نہیں ہوتی اس کی ذمہ دار وہ تمام فریق ہیں جن کی زبانوں پر دو ریاستی فارمولے کی باتیں ہوتی ہیں اور دل و عمل دونوں اسرائیل کے ساتھ۔

ہسپتال پر حملے میں 500 فلسطینی ماردینے کے بعد اسرائیل نے امریکہ سے 10 ارب ڈالر کی فوری امداد دینے کو کہا ہے۔ کیا اپنے دورہ اسرائیل کے دوران اس معاملے میں جوبائیڈن کچھ کہیں گے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ وہ معاملہ کانگریس میں لے جانے کا وعدہ کریں گے۔

10 ارب ڈالر نہ سہی چند ارب ڈالر اسرائیل کو امریکہ سے ضرور مل جائیں گے۔ ملنے بھی چاہئیں حق خدمت ہے کوئی احسان ہرگز نہیں۔

یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے۔ ” میں یہ وضاحت ضروری سمجھمتا ہوں کہ اسرائیل فلسطین تنازع کفرواسلام کا تنازع نہیں سمجھتا میری دانست میں یہ بنوائی گئی ایک ریاست کا مقامی طور پر قبضہ گیری اور نسل کشی کے پروگرام ہیں۔ قبضہ گیری اور نسل کسشی سے فلسطینی متاثر ہوئے اور ہورہے ہیں”

اب بھی اسرائیل نے جنوبی غزہ خالی کرنے کا جو الٹی میٹم دیا ہے اس سے ابتدائی طور پر 10 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ زمینی حملہ ہوا تو مزید 3 لاکھ افراد متاثر ہوں گے۔ کیا جنوب کے 13 لاکھ باشندے شمالی غزہ میں سماسکیں گے؟

سما تو جائیں گے لیکن بجلی، پانی، خوراک اور ادویات کی بندش (اس بندش کی دو وجوہات ہیں اولاً اسرائیل کی جانب سے ترسیل کی پابندی ثانیاً غزہ کا محاصرہ) کی وجہ سے پیدا شدہ حالات میں 13 لاکھ باشندوں کا بوجھ کون اٹھائے گا۔

مشرق وسطیٰ میں امریکی بوچڑ خانے کے فرنچائزی اسرائیل نے مصر کو حکم جاری کیا کہ وہ غزہ سے انخلا کرنے والے فلسطینیوں کےلئے اپنی سرحد کھول دے۔ مصر اس سے انکاری ہے۔ اس انکار میں کچھ تو ماضی کے ماہ و سال کے چند واقعات کا تعلق ہے اور کچھ مصر کی ابتر معاشی صورتحال کا۔ ہر دو وجوہات فلسطینی مہاجرین کا بوجھ اٹھانے کے مانع ہیں۔

غزہ میں بجلی ، پانی، گیس سوفیصد اسرائیل سے فراہم ہوتے ہیں خوراک کا 80 فیصد بذریعہ اسرائیل اور ادویات بھی۔ جب یہ سطور لکھ رہا ہوں جنگ شروع ہوئے 12 واں دن ہے۔ غزہ کا محاصرہ جنگ کے پہلے دن سے ہی شروع ہوگیا تھا اور اسرائیل نے بجلی، پانی، گیس کے ساتھ دیگر چیزوں کی فراہمی بند کردی تھی۔

اس وقت غزہ میں مجموعی طور پر (ایک رپورٹ کے مطابق) 7 ہزار سے زیادہ زخمی ہیں ان میں سے 5 سو زخمیوں کی حالت نازک ہے۔ گزشتہ روز ہسپتال پر حملے سے ہونے والی تباہی کے بعد محصورین یہ توقع کررہے ہیں کہ اسرائیل اپنے اعلان کے مطابق مزید ہسپتالوں کو نشانہ بنائے گا۔

غزہ کے ہسپتالوں کو نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے؟

اس سوال کا جواب چند برس قبل کی اس حماس اسرائیل جنگ میں موجود ہیں جس میں متحدہ عرب امارات کی میڈیکل ٹیم پر یہ الزام لگا تھاکہ غزہ میں کام کرنے والی یو اے ای کی اس میڈیکل ٹیم کے ارکان نے غزہ کے ہسپتالوں کے اندرونی نقشوں اور دیگر معلومات کی اسرائیل کو فراہمی میں کردار ادا کیا۔

تب اسرائیل نے الزام لگایا تھاکہ غزہ میں ہسپتالوں اور سکولوں کے بیس منٹوں (تہہ خانوں) میں حماس کے مختلف شعبوں کے اہم دفاتر اور جاسوسی کا نظام قائم ہے۔

تین دن قبل جب اسرائیل نے غزہ کے 21 ہسپتال خالی کرنے کا حکم دیا تو اس پر صحافیوں نے تل ابیب میں وزیر دفاع سے پوچھا ’’ہسپتال خالی نہ کرنے کی صورت میں حملے کی دھمکی کیوں یہ تو جنیوا کنونشن کے خلاف ورزی ہے؟”

اسرائیلی وزیر دفاع نے دھاڑتے ہوئے جواب دیا، "وہ ہسپتال نہیں بلکہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ حماس کے ایسے تمام محفوظ ٹھکانے تباہ کردیئے جائیں” ۔

اسی لئے اب غزہ میں یہ خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اسرائیل مزید ہسپتالوں کو نشانہ بناسکتا ہے۔ ’’الجزیرہ‘‘ کے مطابق گزشتہ روز جس ہسپتال کو نشانہ بنایا گیا اس میں ہزاروں افراد پناہ لئے ہوئے تھے۔ غزہ میں محکمہ صحت کے حکام خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ اموات بڑھ سکتی ہیں۔

عرب دنیا کے اہل دانش غزہ میں ہسپتال پر حملے کو ماضی میں فلسطینی مہاجرین کے کیمپوں، صابرہ اور شتیلا پر ہونے والے حملوں جیسا قرار دے رہے ہیں۔ صابرہ اور شتیلا نامی مہاجر کیمپوں پر اسرائیلی حملوں میں ہزاروں فلسطینی جاں بحق اور زخمی ہوئے تھے۔

غزہ میں پچھلے بارہ دن (یہ سطور لکھے جانے تک) سے جاری بمباری سے اب تک 3700 فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ مرنے والوں میں 980 بچے اور 12سو خواتین بھی شامل ہیں۔ عرب میڈیا کے مطابق جنوبی غزہ سے شمالی غزہ جانے والے عمومی راستوں کے علاوہ دیگر راستوں پر بھی ہر طرف لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ یہ اموات نقل مکانی کرنے والوں پر اسرائیلی بمباری سے ہوئیں۔

امن بلاشبہ غزہ کی ضرورت ہے لیکن فی الوقت امن سے زیادہ پینے کے صاف پانی، خوراک اور ادویات کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ بجلی کی اس لئے کہ اس کے بغیر ہسپتالوں میں طبی سرگرمیوں کوجاری رکھنا ممکن ہی نہیں۔

امریکی وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ مشرق وسطیٰ ناکام رہا تھا کیونکہ سعودی عرب اور مصر نے امریکی مطالبہ ماننے سے انکار کردیا تھا۔ اب جوبائیڈن (امریکی صدر) اسرائیل کے ساتھ غالاً اردن، مصر اور سعودی عرب جانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔

کیا عرب دنیا کے تین اہم ملک سعودی عرب، مصر اور اردن عالمی بوچڑ خانے امریکہ کے سربراہ کے سامنے فلسطینی عوام کے حق اور امن کے لئے ڈٹ جائیں گے یا سپر ڈال دیں گے؟

اس وقت یہ سوال عرب میڈیا کے ساتھ ذرائع ابلاغ کے بعض مغربی اداروں میں بھی زیربحث ہے۔ ایران نے جنگی جرائم کے بند نہ ہونے پر ردعمل کی دھمکی دی ہے۔ قبل ازیں یہ اطلاع تھی کہ ایران نے چین اور روس سے کہا ہے کہ امریکہ پر دبائو ڈالیں کہ وہ اسرائیل کو جنگی سازوسامان نہ دے۔

بعدازاں عالمی ذرائع ابلاغ نے اس خبر کی تصدیق کی کہ ایرانی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کے نمائندے برائے مشرق وسطیٰ سے بیروت میں ہونے والی ملاقات میں کہا ہے کہ اسرائیلی جارحیت جاری رہنے اور لبنان و شام پر مزید اسرائیلی حملوں کے جواب میں حماس اسرائیل جنگ میں براہ راست شرکت ناگزیر ہوگی۔ غزہ میں ہرنیا لمحہ نئی قیامت کے ساتھ آتا ہے۔ 25 لاکھ کی آبادی محصور ہے اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔

جنگ بلاشبہ حماس نے شروع کی، نتائج یقیناً حماس کی قیادت کے پیش نظر رہے ہوں گے مگر جس طرح ابتدائی تین دنوں میں خوراک، ادویات اور پٹرول وغیرہ کا بحران پیدا ہوا اس سے یہی لگتاہے کہ نتائج کا تجزیہ نہیں کیا گیا۔ یہ درست ہے کہ یہ اپنی ہی زمین سے قبضہ ختم کرانے کی کوششوں کا حصہ ہے مگر یہ چھاپہ مار کارروائیوں سے زیادہ باقاعدہ جنگ ہے اسے شروع کرنے والوں کی ذمہ داری تھی کہ ممکنہ نتائج اور ہلاکت خیزیوں کو مدنظر رکھتے۔

باردیگر عرض ہے سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے لئے روسی قرارداد کو ویٹو کرکے امریکہ، برطانیہ اور فرانس جنگی جرائم میں ساجھے داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ گزشتہ روز اردن میں مشتعل ہجوم نے اسرائیلی سفارتخانے کو آگ لگادی۔ غزہ میں ہسپتال پر حملے میں 500افراد جاں بحق اور 800 کے قریب زخمی ہوئے۔ جنگ بندی کے ساتھ محاصرہ کا خاتمہ ازحد ضروری ہے لیکن ان دونوں کاموں پر اسرائیل کو رضامند کون کرے گا؟

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: