نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاسی امور پر انگریزی اخبارات کے لئے عمر بھر رپورٹنگ کے بعد اردو کالم نگاری میں گھس آئے مجھ جیسے بے ہنر جن استادوں کے لکھے سے اپنی زبان درست رکھنے کی کوشش کرتے ہیں عرفان صدیقی ان میں سرفہرست ہیں۔کالم نگاری سے اب وہ عملی سیاست کی جانب بھی راغب ہوچکے ہیں۔نواز شریف کی اکثر تقاریر کا متن تیار کرتے ہیں۔گزشتہ تین برس سے سینٹ کے رکن بھی ہیں اور اپنے پیش کردہ ا±س قانون کے مسودے کو تلاش کررہے ہیں جو ان کی جانب سے برطانوی دور کے متعارف کردہ مجسٹریٹی نظام کی بدولت گرفتار شدگان کی داد رسی کیلئے تیار ہوا تھا۔ مذکورہ بل قانون سازی کے متعدد مراحل سے گزرنے کے باوجود کہیں ”گم“ ہوگیا اور ابھی تک صدیقی صاحب کی گرفت میں نہیں آیا ہے۔ اپنے ہی تیار کردہ قانون کو ”گم“ کردینے کے باوجود صدیقی صاحب تواتر سے انصاف فراہم کرنے والوں سے اپنے کالموں کے ذریعے ”عناد“ سے نجات حاصل کرنے کی فریاد کئے چلے جارہے ہیں۔
بدھ کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھتے ہوئے صدیقی صاحب کا حوالہ مگر ایک اور تناظر میں بیان کرنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔چند ہفتے قبل مسلم لیگ (نون) کے صدر شہباز شریف نے لندن میں اپنے بڑے بھائی کی موجودگی میں اعلان کیا کہ بالآخر لندن میں تقریباََ چار برس کی جلاوطنی گزارنے کے بعد نواز شریف صاحب رواں مہینے کی 21تاریخ کو لاہور لوٹنے کا ارادہ باندھ چکے ہیں۔یہ اعلان ہوا تو خلقت معصوم نے جبلی طورپر طے کرلیا کہ شہباز شریف کی ہونہار سفارت کاری یا ہماری ریاست کے دائمی اداروں سے چھپ چھپاکر ہوئے مذاکرات کی بدولت وطن عزیز کے تین بار وزیر اعظم رہے نواز شریف کی مشکلات آسان ہوگئی ہیں۔ 21 اکتوبر 2023ءکے دن مسلم لیگ (نون) کے تاحیات قائد جہاز میں بیٹھ کر لاہور روانہ ہوجائیں گے۔لاہور کے ایئرپورٹ پر ان کا فقید المثال استقبال ہوگا اور وہاں سے ایک ”تاریخ ساز“ قافلے کے ساتھ وہ مینارِ پاکستان پہنچ کر عوام کے دلوں کو گرمانے والا خطاب فرمائیں گے۔
نواز شریف صاحب کی بلاکسی روک ٹوک آمد کی جوخوش کن داستانیں سنائی جارہی تھیں انہوں نے دودھ کے جلے مجھ بدنصیب کو مجبور کیا کہ عاشقان نواز شریف کو یاد دلاﺅں کہ ثاقب نثار کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں کسی بھی انتخابی عہدے کے لئے تاحیات نااہل قراردیئے سابق وزیر اعظم کو احتساب کے نام پر بنائے چند مقدمات کی بدولت ہائی کورٹ ”بھگوڑا“ بھی ٹھہراچکی ہے۔ذاتی طورپر میں ان کی نااہلی اور کرپشن کے الزامات کے تحت مقدمات کی ”سازشی“ بنیادوں سے بخوبی آگاہ ہوں۔ زورزبردستی سے سنائے فیصلے مگر اس حقیقت کو نہیں جھٹلاتے کہ نواز شریف کے لئے لاہور ایئرپورٹ اترکر قافلے کی صورت مینارِ پاکستان کی جانب رواں ہونا قانونی اعتبار سے ممکن نہیں۔
نواز شریف کی ”ڈھول ڈھمکے“ کے ساتھ وطن واپسی یقینی بنانے کے لئے لازمی ہے کہ ان کے وکلا نواز شریف کو قانون کے روبرو ”سرنڈر“ کروانے کے بعد ان کی ”حفاظتی ضمانت“کا بندوبست کریں۔ سابق وزیر اعظم کے لئے خود پر جائز وناجائز بنیادوں پر مسلط ہوئے ”قانونی تقاضوں“ کا احترام اپنی سیاسی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے بھی لازمی تھا۔ عدالت سے ”بھگوڑا“ ٹھہرائے نواز شریف اگر لاہور ایئرپورٹ اترکر طویل قافلے کےساتھ خراماں خراماں مینارِ پاکستان کو روانہ ہوجاتے تو خلقت معصوم کو فقط ایک ہی پیغام جاتا اور وہ یہ کہ بالآخر نواز شریف کا نام نہاد مقتدر قوتوں سے ”مک مکا“ ہوگیا ہے او رآئندہ انتخاب کے لئے انہیں 2018ءوالے انتخاب کے عمران خان کی طرح ”سہاگن“ چن لیا گیا ہے۔
ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد اور ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے نواز شریف صاحب کی متوقع آ مد کے بارے میں جو واجب سوالات میں نے اٹھائے تھے انہوں نے عاشقان نواز شریف کو چراغ پا بنادیا۔ ان میں سے چند اب تحریک انصاف کی نقالی میں سوشل میڈیا کو اس کوے کی طرح استعمال کرنا بھی شروع ہوگئے ہیں جو ہنس کی چال چلتے ہوئے اپنی چال بھی بھول گیا تھا۔سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کی ”ذہن سازی“ کے گماں میں مبتلا مسلم لیگ (نون) کے چند ”خیر خواہ“ اس جہاز میں نشست حاصل کرنے کوبھی بے قرار ہیں جو ”خصوصی پرواز“کی صورت نواز شریف کو لاہور لائے گا۔ ایسے خیرخواہوں نے اپنی اہمیت ثابت کرنے کے لئے مجھے خبطی بڈھا پکارنا شروع کردیا جو شا م ڈھلنے کے بعد ویسے بھی ہوش وحواس کھوبیٹھتا ہے۔ دشنام طرازی کی صلاحیت سے محروم عاشقان نواز شریف کو البتہ اچانک یہ بھی یاد آگیا کہ میں ”جیالا“ ہوں اور شاید آصف علی زرداری کی ستائش کی چاہ میں ”شیر کی آ مد“ والے رنگ میں بھنگ ڈال رہا ہوں۔
تحریک انصاف کی سپاہ ٹرول نے لیکن 2011ءسے میری ہڈی کو ڈھیٹ بنادیا ہے۔ عمران حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی میرے اوپر جو چار سالہ بے روزگاری اور گمنامی مسلط کی تھی اس نے بھی خودکش بے ساختہ پن کی چاہ بڑھادی ہے۔اپنے کہے پر لہٰذا ڈٹا رہا۔بالآخر یہ بات اب طے ہوئی نظر آرہی ہے کہ دوبئی سے براہ راست لاہور روانہ ہونے کے بجائے نواز شریف صاحب 21اکتوبر کے دن چند گھنٹوں کے لئے اسلا م آباد ایئرپورٹ اتر کر وہاں رکنا چاہیں گے۔ ان کی اسلام آباد آمد کا حوالہ دیتے ہوئے وکلاءکے لئے عدالت کو یہ بتانا آسان ہوجائے گا کہ مسلم لیگ (نون) کے قائد نے خود کو قانون کے ر وبرو ”سرنڈر“ کردیا ہے اور عدالتی رحم وکرم کے روبرو سپراندازہونے کے بعد وہ اب ”حفاظتی ضمانت“ کے مستحق ہیں۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر نواز شریف کی آمد اور قیام اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر عدالت ”حفاظتی ضمانت“ دینے کے لئے ”ملزم“ کی ”ذاتی حاضری“ پر اصرا ر کرے تو سابق وزیر اعظم وی آئی پی لاﺅنج سے سرعت کے ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ سکتے ہیں۔
یہاں تک کالم پڑھ لینے کے بعد آپ کے ذہن میں یقینا یہ سوال اٹھے گا کہ اب تک میں نے جو ”طوطامینا“ کی کہانی لکھی ہے اس کا عرفان صدیقی صاحب سے کیا تعلق۔ اس کے جواب میں عرض گزارنا چاہتا ہوں کہ 21اکتوبر کے دن نواز شریف صاحب کی لاہور آمد سے قبل اسلام آباد ایئرپورٹ پرلینڈنگ کا خیال مجھے عرفان صاحب کے اس کالم کو پڑھ کر ہوا تھا جو انہوں نے حال ہی میں لندن میں نواز شریف سے ہوئی کئی ملاقاتوں کے بعد لکھا تھا۔ اس کالم کے ذریعے انہوں نے بنیادی طورپر ان افواہوں کی سختی سے تردید کی جو نواز شریف کے وطن لوٹنے کے امکانات کو جھٹلارہی تھیں۔ان کی وطن واپسی کو یقینی بتاتے ہوئے عرفان صاحب نے تفصیل سے یہ ذکر بھی کردیا کہ لندن سے روانگی کے بعد سابق وزیر اعظم کون کون سے شہر سے ہوتے ہوئے بالآخر دوبئی پہنچیں گے اور وہاں سے وطن واپسی کے لئے ”خصوصی“ بنائے جہا ز میں سوار ہوجائیں گے۔اس جہاز سے لاہور کی جانب پرواز کے حوالے سے انہوں نے ایک اور پرواز کے ”پیوند“ کا ذکر بھی کیا۔لفظ ”پیوند“ کے استادانہ استعمال نے میرے لئے یہ فرض کرنا ممکن بنایا کہ نواز شریف صاحب براہ راست لاہور پرواز کرنے کے بجائے پہلے اسلام آباد ایئرپورٹ اتر کر وہاں چند گھنٹے قیام کو ترجیح دیں گے او راب یہ ہوتا نظر بھی آرہا ہے۔بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر