نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تہران یونیورسٹی سنٹرل لائبریری ، فیڈل کاسترو اور کُوفی عنان(23)||نذیر لغاری

نذیر لغاری سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نامور صحافی اور ادیب ہیں اور مختلف قومی اخبارات ، رسائل ،جرائد اور اشاعتی اداروں میں مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں ، ان کی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر
نذیر لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس لائبریری میں دس لاکھ اور ایک روایت کے مطابق اس سے کہیں زیادہ کتب، دستاویزات، اسناد، البم اور ان گنت یادیں رکھی ہوں گی، وہاں پر ایک ہی دن کے مختصر سے حصے میں آپ کیا کیا دیکھ سکیں گے؟ اچھا،،، یہاں یادیں بھی رکھی ہیں۔ ویسے تو یہاں کتابوں سمیت ہر چیز ایک یاد ہی تو ہے۔ سند، دستاویز، تصویرحتیٰ کہ ریک، الماری، میز، کرسی ایک یاد ہی تو ہے مگر جب ہم لائبریری کے آڈیٹوریم میں پہنچے تو یہاں اسٹیج، روسٹرم، دروازوں، نشستوں سے انگنت یادیں آ آ کر ہمیں ملنے لگیں۔ ویسے اس یونیورسٹی میں یا اس لائبریری میں کوئی ایک آڈیٹوریم نہیں۔ یہاں تو لگتا ہے کہ ہر فیکلٹی کا اپنا اپنا الگ آدیٹوریم ہے۔ سنٹرل لائبریری کا ایک آڈیٹوریم ایک ایسی شخصیت کے نام پر ہے جس نے ملتان میں زندگی کے پانچ یادگار سال گزارے جو ٹھیک ایک ہزار پچاس سال قبل ستمبر 973ء میں ازبکستان میں پیدا ہوئے اور 13 دسمبر 1048ء میں غزنی افغانستان میں فوت ہوئے اور وہیں دفن ہوئے مگر اپنی دانش، فکر، علم اور دانائی کا اظہار فارسی میں کیا۔ اس لئے وہ فارسی اور ایران کا فکری اثاثہ قرار پائے۔ انہوں نے ہمارے پوٹھوہار کے ایک گاؤں میں بیٹھ کر اس کرۂ ارض کی پیمائش کی اور جو نتیجہ نکالا، اُس کا آج کی امریکی ادارے ناسا کی پیمائش سے صرف 63 کلومیٹر کا فرق ہے۔ جی ہاں اس آدیٹوریم کا نام ابوریحان محمد ابن احمد البیرونی کے نام پر رکھا گیا۔ یہاں پر ایک اور آدیٹوریم علامہ امینی کے نام پر ہے۔ علامہ امینی ایران کے ایک جید عالم، فقیہہ، ماہر قانون اور دانشور تھے۔ اُن کا پورا نام شیخ عبدالحسین امینی تھا۔ وہ 1902ء میں تبریز میں پیدا اور 1970ء میں تہران میں اُن کا انتقال ہوا۔
ہم آدیٹوریم میں داخل ہوئے۔ یہاں شیر گرج رہا ہے۔ مجھے گئے دنوں کے جھروکوں سے اس آڈیٹوریم کے روسٹرم سے فیڈل کاسترو کی آواز آ رہی ہے۔ وہ مئی 2001ء میں جب ایران کے دورے پر آئے تھے تو وہ یونیورسٹی آف تہران کے اسی آڈیٹوریم میں بھی آئے تھے جو علامہ امینی کے نام سےموسوم ہے۔ جب کاسترو ایران پہنچے تھے تو میڈیا نے لکھا تھا کہ کیوبا کا انقلابی مشرقِ وسطیٰ کے دل میں پہنچ گیا۔کاسترو کریبین سمندر کے چند ہزار مربع میٹر کے ایک چھوٹے سے جزیرے کیوبا میں انقلاب لائے مگر وہ دنیا کے کروڑوں انسانوں کے دلوں میں دھڑکتے تھے اور آج بھی اُن کا نام مایوسی سے دم توڑتے دلوں میں زندگی کی حرارت بھر دیتا ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں ظلم ہوگا، جہاں بھی نوآبادیاتی نظام کا جبر ہوگا، جہاں بھی بے مائیگی کے عالم میں تبدیلی کی تڑپ ہوگی، جہاں بے شعور ہجوم نہیں بلکہ باشعور سیاسی تربیت یافتہ افراد کی کھیپ ہوگی وہاں کاسترو کی بے مثال انقلابی دانش اور لازوال بہادری کی یادیں ہوں گی۔
میں آڈیٹوریم کے اسٹیج کو دیکھتا ہوں، درودیوارپر نظر ڈالتا ہوں، سامنے نشستوں پر ایک نگاہ ڈالتا ہوں، مجھے ایک اور مہمان شخصیت کا ہیولا نظر آتا ہے۔ یہ کوفی عنان ہیں۔ یہ اقوام متحدہ کے ساتویں سیکریٹری جنرل ہیں۔ جس سال 2001ء میں فیڈل کاسترو اس آدیٹوریم میں آئے تھے، اسی سال کا نوبل امن انعام کوفی عنان کو ملا تھا۔کوفی عنان افریقی ملک گھانا میں 8 اپریل 1938ء میں پیدا ہوئے۔ 1997ء سے 2006ء تک 9 سال اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل رہنے والے کوفی عنان نے عالمی ادارے میں اپنا منصب سنبھالنے کے فوراً بعد دسمبر 1997ء میں مشرق وسطیٰ کے ممالک ایران اور کویت کا دورہ کیا تھا۔ کوفی عنان اگرچہ اس آڈیٹوریم میں فیڈل کاسترو سے چار سال پہلے آئے تھے مگریہاں پر دونوں عالمی رہنماؤں کی یادیں مہک رہی تھیں۔
ڈاکٹر شہیدی ہمیں آڈیٹوریم کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہیں اور ساتھ ہی اس آڈیٹوریم کے اسٹیج اور روسٹرم پر آکر یہاں سے سامعین کو مخاطب کرنے والی شخصیات کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ ڈاکٹرفاطمہ ثقفی یہاں پر فیڈل کاسترو اور کوفی عنان کی آمد کا احوال بتاتی ہیں۔ بعدازاں ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے 2016ء میں اپنے دورۂ کیوبا کے دوران کیوبا کے صدر راؤل کاسترو کے علاوہ انقلابِ کیوبا کے رہبر فیڈل کاسترو سے بھی ملے تھے۔ ہم نے آڈیٹوریم کے دروازے کی طرف دیکھا تو ہمیں کپڑے کے ایک تھیلے میں کتابوں کا تحفہ لئے ایک خاتون ایڈیٹوریم میں داخل ہوتے نظر آئیں ۔ ہمیں معلو ہوا کہ یہ کتابیں ہمارے لئے ہیں۔ ہمارے پیارے دوست سعید خاور اپنے اسکالر احباب سے ملتے یا الوداع ہوتے یہ ضرور کہتے ہیں کہ دعاؤں اور کتابوں میں یاد رکھنا۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے کتابوں کی خیرات میں ہمیں یاد رکھا ہم اُن کے احسان مند ہیں۔ ڈاکٹر فاطمہ ثقفی نے ہم تمام مہمانوں کو یکے بعد دیگرے اس لائبریری کے بارے میں لکھی گئی کتاب “باغ دانش دی۔ اور اس موقع کو یادگار بنانے کیلئے تصاویر بھی بنائی گئیں۔
ڈاکٹر فاطمہ ثقفی ہمیں بتاتی ہیں کہ اس یونیورسٹی کے 52 شعبے ہیں جو سب کے سب فعال ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تہران کے علاوہ شیراز، اہواز اور اصفہان کی بڑی یونیورسٹیوں میں ایسی ہی لائبریریاں موجود ہیں۔ تہران شہر میں ایسی بیس یونیورسٹیاں جو عالمی رینکنگ میں شامل ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہماری اس سنٹرل لائبریری میں کتابوں کی تعداد کے بارے میں مختلف اندازے لگائے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں پر کتابوں، دستاویزات، اسناد، نقشہ جات اور مقالات کی تعداد 15لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ یہاں پر پاکستان کے بارے میں کتابوں کی تعداد سات سو تک پہنچ چکی ہے۔ یہاں پر قدیم قرآنی قلمی نسخے چھٹی اور ساتویں صدی کے دور کے ہیں۔

Advertisement

ڈاکٹر علی شہیدی نے بتایا کہ یہاں پر ایک پاکستانی اسکالرعارف نوشاد نے فقہ کے معاملے پر اپنا پی ایچ ڈی کالکھا جس کا عنوان،” جعفری اور شافعی مسلک کا تقابلی جائزہ” ہے۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ تہران یونیورسٹی میں پاکستان کے بارے میں ڈاکٹریٹ کے 81 مقالے لکھے گئےہیں ۔ ڈاکٹر فاطمہ ثقفی بتاتی ہیں کہ ایران میں جو بھی کتاب چھپتی ہے، وہ اس یونیورسٹی کی سنٹرل لائبریری کیلئے ضرور بھیجی جاتی ہے۔
سنٹرل لائبریری کے احاطے سے باہر آنے کو دل نہیں کرتا۔ یہاں کے آڈیٹوریم کا ہم اپنے ملک کے ماضی بڑے بڑے سینماؤں سے کرتے ہیں مگر ہمیں اس پائے کا کوئی سینما بھی یاد نہیں آتا ۔ البتہ ہمارے بول چینل کا اڈیٹوریم ایسا ہے جسے ہم اس کے ہم پلہ کہہ سکتے ہیں۔ ہم علامہ امینی آڈیٹوریم کی پچھلی نشستوں کی طرف چلے جاتے ہیں اور یوں جب ہم عقبی دروازے کے پاس پہنچتے ہیں تو ہم کئی منزلیں اُوپر آچکے ہیں۔ ہم آدیٹوریم سے باہر آنے سے پہلے آڈیٹوریم کی چھت پر نظر ڈالتے ہیں تو تعمیر کا بے پناہ حسن نظر آتا ہے۔ چھت پر جو میناکاری اور کاشی کا کام کیا گیا ہے وہ مبہوت کر دینے والا ہے۔ چھت کے عین وسط میں نیلے رنگ کا ایک خوبصورت فریم بنا کر اس کے اندر “تہران دانشگاہ” لکھا گیا ہے۔ ہم آڈیٹوریم کے دروازے سے باہر آجاتے ہیں۔ اب تک ہم نے لائبریری دیکھی اور اب ہم یونیورسٹی دیکھیں گے۔ یوں لگتا ہے کہ ڈاکٹر فاطمہ ثقفی نے اب ہماری باگ ڈور ڈاکٹر علی شہیدی کے ہاتھ میں دے دی ہے۔(جاری ہے)

یہ بھی پڑھیے:

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری

نذیر لغاری سئیں دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

About The Author