نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام سات بجے سے رات کے بارہ بجے تک ہماری ٹی وی سکرینوں پر بے شمار ٹاک شوز ہوتے ہیں۔ میری دانست میں ان کی وساطت سے عقل ودانش کے ”موتی“ بکھیرے نہیں جاسکتے۔اپنی سرشت میں یہ ”وقت گزاری“ پروگرام ہیں۔میں خود بھی ان دنوں طویل وقفے کے بعد ایک ٹاک شو کی میزبانی کررہا ہوں۔اس کے ذریعے مگرمہمانوں کی ”فراست“ کے بجائے اپنے ساتھی میزبان کے ساتھ مل کر ”اپنی مدد آپ“ کے اصولوں کے مطابق ”عقل فروشی“ کا دھندا چلاتا ہوں۔
گزشتہ کئی دنوں سے اپنے ذہن میں صحافی کی جبلت کی بدولت جمع ہوئے مشاہدات کی بنیاد پر اس کالم اور اپنے ٹی وی شو میں تواتر سے یہ بیان کرنے کی کوشش کررہا ہوں کہ مسلم لیگ (نون) عوام کی اکثریت کو ناراض کرچکی ہے۔فوری وجہ اس کی اپریل 2022میں عمران حکومت کی فراغت کے بعد قائم ہوئی شہباز حکومت کے وہ فیصلے ہیں جنہوں نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے نام پر لاکھوں غریب اور متوسط گھرانوں کا دیوالیہ نکال دیا ہے۔
ہمارے ہاں گھروں یا دفتروں میں کام کرنے والے باورچی اور ڈرائیور اوسطاََ 30سے 35ہزار ماہوار تنخواہ کماتے رہے ہیں۔ان کی بیشتر تعداد ”سرونٹ کوارٹروں“ میں رہنے کے بجائے مضافات میں آباد ہوئی ”کچی بستیوں“ میں کرائے کے مکانوں میں رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔اس کی وجہ سے انہیں ”خودمختاری“ کا احساس ہوتا ہے اور ”24گھنٹے“ غلاموں کی طرح ملازمت کے تصور سے بھی نجات مل جاتی ہے۔ملک بھر میں پھیلے ایسے ملازمین یکسوہوکر شہباز حکومت کو بددعائیں دے رہے ہیں۔ان کے مکانوں کا کرایہ اوسطاََ دس سے بارہ ہزار روپے کے درمیان ہے۔گزشتہ تین مہینوں سے بجلی کے بل نو سے دس ہزارروپے کی حد میں داخل ہوچکے ہیں۔فرض کیا ایک ملازم 35ہزار روپے ماہوار تنخواہ پاتا ہے تو کرایہ اور بجلی ادا کرنے کے بعد اس کی جیب میں فقط 15ہزار روپے بچیں گے۔ان پیسوں سے وہ بیوی اور اوسطاََ دو بچوں کےساتھ زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جس گھر میں وہ کام کرتا ہے وہ اس ملازم کی مشکلات کا ازخود احساس کرتے ہوئے اسے اضافی راشن یا رقم دینے کو تیار نہ ہوں تو وہ چوری چکاری کو مجبور رہے گا جس کے نتیجے میں ہمیں ایسی کئی کہانیاں سننے کو ملیں گی جہاں مالکان اپنے ملازمین پر ”بے رحمانہ تشدد“ کے ذمہ دار ٹھہرائے جائیں گے۔
کہانی فقط گھریلو ملازمین تک ہی محدود رہتی تو اسے نظرانداز کیا جاسکتا تھا۔گریڈ 16تک کے سرکاری ملازموں کی زندگی بھی اجیرن ہوچکی ہے۔ان میں سے اکثر اپنے دفتر میں آٹھ گھنٹے گزارنے کے بعد کرائے پر لی گاڑیاں یا موٹرسائیکلیں کم ازکم 6سے 8گھنٹے تک چلاتے ہوئے اضافی رقم کمانے کو مجبور ہیں۔
نچلے درجے کے سرکاری یا نجی شعبے میں ملازمین کے علاوہ ہمارے متوسط طبقے کی بے پناہ تعداد بھی اب اپنی سفید پوشی برقرار رکھنے کی فکر میں مبتلا ہوئی دہائی مچارہی ہے۔ انتہائی دیانت داری سے میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ عوام کی بے پناہ اکثریت کو ان دنوں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے شہبازحکومت کی قیادت میں قائم ہوئی16مہینوں کی حکومت اس کی واحد ذمہ دار نہیں تھی۔ماضی کی تمام حکومتوں نے بلااستثنائ ہماری مصیبتوں میں اضافہ ہی کیا ہے۔مسلم لیگ (نون) کی گزشتہ حکومتوں کے بارے میں البتہ یہ تاثر موجود رہا ہے کہ کاروباری خاندان سے تعلق رکھنے والے شریف برادران بازار میں رونق اور لوگوں میں امید جگانے کےلئے کوئی نہ کوئی ”جگاڑ“ ڈھونڈلیتے ہیں۔اس تاثر کی بدولت ہی ان کے خلاف پھیلائی بدعنوانی کی کہانی کو ان کے حامیوں نے کبھی وقعت نہیں دی۔ ایک زمانے میں تو شریف برادران کے حامی ا±کتا کر یہ بھی کہہ دیتے تھے کہ وہ ”اگر کھاتے ہیں تو عوام کو (پیلی ٹیکسیوں وغیرہ کے ذریعے)کھلاتے بھی ہیں“۔ اس کے علاوہ مشہور یہ بھی تھا کہ اسحاق ڈار جب بھی وزارت خزانہ کے مدارالمہام ہوتے ہیں تو امریکی ڈالر پاکستانی روپے کے مقابلے میں ”اپنی اوقات“ میں رہتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (نون) کے سرکردہ رہ نما یہ دریافت کرنے میں قطعاََ ناکام ہورہے ہیں کہ شہباز حکومت کے 16مہینوں کے دوران شریف برادران نے ان سے وابستہ ”جگاڑ“ والی شہرت کو جھوٹا ثابت کردیا ہے۔اس کے علاوہ اسحاق ڈار کی ”ڈالر شکن“ والی پہچان بھی غارت ہوچکی ہے۔ایسے حالات میں نواز شریف 21اکتوبر کے دن وطن لوٹ کر عوام سے اگر مسلم لیگ (نون) کو اقتدار میں لانے کے لئے ووٹ مانگیں گے تو ان کی بات کوئی نہیں سنے گا۔
اپنے مشاہدات کی بنیاد پر جو خیالات میں نے اخذ کئے تھے انہیں اس کالم میں تواتر سے بیان کرتا رہا۔بعدازاں ان کا اظہار اپنے ٹی وی شو میں بھی شروع کردیا۔ بات چل نکلی تو گزشتہ ہفتے منیب فاروق کے سماءٹی وی والے شو میں چلا گیا اور فرطِ جذبات سے مغلوب ہوکر ہاتھ باندھتے ہوئے نواز شریف سے فریاد کردی کہ وہ موجودہ حالات میں پاکستان لوٹنے سے گریز کریں۔ میں نے جن جذبات کا نہایت دیانتداری سے برجستہ مگر جذباتی انداز میں اظہار کیا تھا وہ نواز شریف کے تحریک انصا ف میں شامل دشمنوں کوبہت بھائے ہیں۔سوشل میڈیا پر حاوی ہونے کی وجہ سے انہوں نے میری اس کلپ کو ”وائرل“ کردیا۔ جب سے وہ کلپ سوشل میڈیا پر رش لینا شروع ہوئی ہے مجھے مسلم لیگ (نون) کی سپاہ ٹرول سے ویسی ہی گالیاں سننے کو مل رہی ہیں جو کبھی تحریک انصاف کی سیاست کے بارے میں اپنے تحفظات کا برجستہ اظہار کرنے کی وجہ سے ملاکرتی تھیں۔
غالب کے رقیب کی طرح مجھے گالیاں کھاکے بدمزہ ہونے کی عادت نہیں۔رپورٹر کو اپنے مشاہدات قارئین اور سامعین کے روبرومن وعن رکھ دینا ہوتا ہے۔میری جانب سے یہ مشاہدات ہرگز سیاسی رہ نماﺅں کی ”مشاورت“ کے لئے تحریر میں لائے نہیں جاتے۔نوازشریف صاحب ہمارے ملک کے سب سے زیا دہ تجربہ کار سیاستدان ہیں۔1980کی دہائی سے اقتدار کے کھیل میں ا±ترے تھے۔انہوں نے اپنے عروج وزوال کے بے پناہ مراحل دیکھے ہیں اور زوال سے بچ نکلنے کے اعتبار سے وہ ہمیشہ قسمت کے دھنی بھی ثابت ہوئے ہیں۔اب کی بار تاہم انہیں اپنی قسمت کو مزید آزمانے سے گریز کرنا ہوگا۔ وہ مگر بضد ہیں تو میں ”اگے تیرے بھاگ لچھیے“کے سوا کچھ نہیں کہوں گا۔بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر