نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلم لیگ (نون) کے دوستوں کو مبارک ہو۔ بالآخر ان کی جماعت کا سوشل میڈیا بھی گلی کے غنڈوں کی طرح شریف خاندان کی سیاست پر سنجیدہ اور دیانت دارانہ سوالات اٹھانے والوں کو دھمکانے ڈرانے کے قابل ہوگیا ہے۔ گزشتہ چار دنوں سے میں بدنصیب بھی ان کی زد میں ہوں۔حماقت مجھ سے یہ سرزد ہوگئی تھی کہ اپنے ٹی وی شو میں نہایت ڈھٹائی سے یہ دعویٰ کردیا کہ لاہور اب شریف خاندان کا گرویدہ نہیں رہا۔ حالات اتنے د±گرگوں ہوچکے ہیں کہ اگر شریف خاندان کا کوئی فرد یا ان کا نامزد کردہ کوئی شخص گوالمنڈی سے (جسے امرتسر سے قیام پاکستان کے بعد لاہور منتقل ہوئے کشمیریوں کا گڑھ مانا جاتا ہے)قومی یا صوبائی اسمبلیوں کی نشست کا امیدوار ہوا تو جیت نہیں پائے گا۔
اس پروگرام کے آن ایئر جانے کے چند ہی گھنٹوں بعد حسین نواز شریف کے ایک چہیتے وی لاگر نے اپنے وی لاگ پر ہوئے تجزیے کے ذریعے مجھے بے نقاب کردیا۔موصوف کا اصرار تھا کہ سورج ڈھلنے کے بعد میں اپنے ہوش وحواس پر قابو کے قابل نہیں رہتا۔ ”سیون اپ“ کو میری یاوہ گوئی کا سبب ٹھہراتے ہوئے انہوں نے مجھے شرعی گناہوں کا عادی مرتکب بھی ٹھہرادیا۔ اس کے علاوہ انکشاف یہ بھی فرمایا کہ میں گوالمنڈی کو جانتا ہی نہیں۔یہ ”اطلاع“ سن کر مجھے شدید حیرت ہوئی۔ ددھیال ننھیال کے بے تحاشہ گھریاد آگئے جو لاہور کے قدیمی محلوں کے علاوہ گوالمنڈی چوک،نسبت روڈ اور بیڈن روڈ میں آج بھی موجود ہیں۔
گوالمنڈی سے میری ”لاعلمی“ کے علاوہ مسلم لیگ (نون) کے سوشل میڈیا کا تیار کردہ غول اس امر پربھی بہت اصرار کررہا ہے کہ بڑھتی عمرنے مجھے ”تجزیے“ کے قابل نہیں چھوڑا۔مجھے جس انداز میں ”بابا“ پکاررہے ہیں وہ گالی کی مانند سنائی دیتا ہے۔ بڑی عمر کو طعنہ بنانے کا آغاز عمران خان کے متوالوں کی جانب سے ہوا تھا۔اب مسلم لیگ (نون) بھی ”بابوں“ کو فاترالعقل ٹھہراتے ہوئے قابل مذمت ٹھہرانا شروع ہوگئی ہے۔ ”بابوں“ سے نفرت والی پہلو پر غور کرتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ عمران خان یا نواز شریف حال ہی میں کسی کالج سے فارغ نہیں ہوئے۔ دونوں کی عمر 70سال سے تجاوز کرچکی ہے۔اللہ ان کی عمر دراز کرے۔ان کے حامیوں کی جانب سے تاہم مجھ جیسوں کی فہم وفراست پر محض اس بنیاد پر سوال اٹھانا عجب سنائی دیتا ہے کہ میں ان کے قائدین کی طرح ”جوان وتوانا“ نہیں ہوں۔
بڑھاپا ہماری تہذیب میں آپ کو احترام وتکریم کا حقدار بناتا رہا ہے۔ دورِ حاضر کے سوشل میڈیا نے اسے ”دیوانگی کا ”مترادف بنادیا ہے۔اس وقت سے یقینا ڈرنے کی ضرورت ہے جب سوشل میڈیا کے بھڑکائے لونڈے لپاڑے غول کی صورت گلیوں محلوں میں گھومتے بوڑھے افرادکے پیچھے چلتے ہوئے ان پر آوازیں کسیں گے۔ اس عمر کے افراد کو دھرتی پر بوجھ تصور کرتے ہوئے زہر کا ٹیکہ لگاکر ماردینے کا رواج بھی متعارف ہوسکتا ہے۔
بہرحال مسلم لیگ (نون) کا سوشل میڈیا بھی اب تحریک انصاف کے سوشل میڈیا جیسا دشنام طراز ہوگیا ہے۔اپنی عزت محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو سرجھکاکر تسلیم کرلیجئے کہ 21اکتوبر2023کے دن مسلم لیگ (نون) کے ”جواں سال قائد“ گلے میں مفلر لٹکائے لندن سے لاہور تشریف لائیں گے تو وہاں کے ایئرپورٹ پر لاکھوں افراد ان کے استقبال کو موجود ہوں گے۔ مجھے خبر نہیں کہ نواز شریف صاحب ایئرپورٹ سے پرانی روایات کے مطابق داتا دربار پر حاضری دینے کے بعد مینارِ پاکستان پر جمع ہوئے ہجوم سے خطاب کریں گے یا ایئرپورٹ سے گاڑیوں کی طویل قطار کے ہمراہ جاتی امراءجانے کو تر جیح دیں گے۔
قانون کی صحافیانہ شدھ بدھ کی بدولت یہ سوچنے کو مگر مجبور ہوں کہ مسلم لیگ (نون) کے جواں سال قائد جناب نواز شریف صاحب عدالت سے اجازت لے کر لندن گئے تھے۔ انہوں نے تحریری وعدہ کررکھا ہے کہ اپنا علاج کروانے کے بعد وہ وطن لوٹ کر اپنے خلاف سنائی سزا پوری کریں گے یا اسے ختم کرنے کی اپیل دائر کرنے کے بعد قید میں بیٹھے فیصلے کا انتظار کریں گے۔جو قانون میرے اور آپ جیسے عامیوں پر لاگو ہوتا ہے اس کے مطابق نواز شریف صاحب کو وطن لوٹنے سے قبل کسی نہ کسی نوعیت کی ”حفاظتی ضمانت“ کا بندوست کرنا ہوگا۔مطلوبہ ضمانت بآسانی مل سکتی ہے یا نہیں اس کی بابت کچھ طے کرنے سے قاصر ہوں کیونکہ عدالتوں کا مزاج ان دنوں ”شریف دوست“ نظر نہیں آرہا۔دو ہی دن قبل ریٹائر ہونے سے پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ”شارٹ اور سویٹ“ فیصلہ بھی سنادیا ہے۔اس نے نیب قوانین میں ہوئی تمام ترامیم کو غیر قانونی قرار دیا ہے جن کی بدولت احتساب کے شکنجے میں آئے سیاستدان کو کامل ذلت ورسوائی سے بچانے کی گنجائش نکل سکتی تھی۔ہماری ریاست کا طاقت ور ترین ادارہ نظر بظاہر مذکورہ فیصلے کی راہ میں دل وجان سے مزاحم نہیں ہوا۔عدلیہ کی آزادی کا بلکہ بھرم اس نے برقرار رکھا۔ بھرم برقرار رکھنے کافیصلہ اگرچہ پرویز الٰہی کا مددگار ثابت نہیں ہورہا۔ دیکھنا ہوگا کہ نواز شریف وطن لوٹنے کے بعد ”آزاد عدلیہ“ سے کس حد تک محفوظ رہیں گے۔فرض کیا اپنے حامیوں کی دعاﺅں کے طفیل وہ اس تناظر میں ویسے ہی ”چہیتے“ نظر آئے جیسے 1990ءمیں اپنی حکومت کی فراغت کے بعد نسیم حسن شاہ کے سپریم کورٹ کی وجہ سے نظر آئے تھے تو ہمارے عوام کی اکثریت یہ سوچنے میں حق بجانب نظر آئے گی کہ وہ جنہیں ”مقتدر قوتیں“ کہا جاتا ہے نواز شریف کو چوتھی بار وطن عزیز کا وزیر اعظم دیکھنا چاہ رہی ہیں۔”مقتدر قوتوں“ کے فیصلے کو بروئے کار لانے کے لئے عوام کو اب محض اگلے برس کے ابتدائی مہینوں میں کسی بھی وقت ہوئے انتخاب کے دوران پولنگ اسٹیشنوں پر جاکر مسلم لیگ (نون) کے انتخابی نشان-شیر- پر مہرلگانا ہے۔ جان کی امان پاتے ہوئے اصرار کروں گا کہ اگر عوام کو اس انداز میں انگریزی محاورے کے مطابق Granted For لیا جائے تو وہ طیش میں آجاتے ہیں۔ پولنگ بوتھ کی تنہائی میں بیلٹ پیپر پر مہر لگاتے ہوئے ”باغی“ہوجاتے ہیں۔ خدارا عوام کے دل پر خلوص عاجزی وانکساری سے جیتنے کی کوشش کریں۔ انہیں وہ بے آسرا ہجوم شمار نہ کریں جو اپنی مشکلات سے گھبراکر نواز شریف صا حب کی لندن سے واپسی کا بے تابی سے منتظر ہے۔بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر