نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حکمرانوں سے کشادہ دلی کی توقع؟ ۔۔۔ || نصرت جاوید

نصرت جاوید پاکستان کے مایہ ناز سینئر صحافی ہیں، ، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے روزنامہ ایکسپریس، نوائے وقت اور دی نیشن سمیت دیگر قومی اخبارات میں کالم ،مضامین اور پارلیمنٹ ڈائری لکھتے چلے آرہے ہیں،انکی تحریریں خاص طور پر ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریک انصاف کے مخالفین کو یہ حقیقت کھلے دل سے تسلیم کر لینا چاہیے کہ اس جماعت کے حامیوں نے پراپیگنڈا کے محاذ پر متاثر کن اجارہ قائم کر لیا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر نہایت مہارت سے وہ کوئی ایسا نکتہ اٹھاتے ہیں جسے میڈیا کے لئے نظرانداز کرنا ممکن ہی نہیں۔ پیشہ ورانہ یا ”دیگر“ وجوہات کی بنیاد پر پاکستان کا روایتی میڈیا اگر اس نکتے کو نظرانداز کردے تب بھی عالمی میڈیا اس کے ذکر کو مجبور ہوجاتا ہے۔ اس حکمت عملی کی بدولت امریکہ اور یورپ کے ممالک میں یہ تصور مضبوط سے مضبوط تر ہو رہا ہے کہ عمران حکومت کو پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کے بعد ہمارے ہاں جو حکمرانی بندوبست قائم ہوا ہے وہ اپنی سرشت میں ”فسطائی“ ہے۔ یہ عمران خان کے حامیوں کو سانس لینے کی مہلت بھی نہیں دے رہا۔ ان میں سے ”ہزاروں“ بے بنیاد الزامات کے تحت جیلوں میں پھینک دیے گئے ہیں۔ ”انصاف کی امید“ سے محروم ہوئے ان کے ”سینکڑوں“ ساتھی گرفتاریوں سے بچنے کے لئے روپوش بھی ہیں۔ ان کی روپوشی مگر ان کے خاندان والوں کو چین سے زندہ رہنے نہیں دے رہی۔

بات آگے بڑھانے سے قبل کھلے دل سے اعتراف کرنا لازمی تصور کرتا ہوں کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد ہماری سرکار کا رویہ تحریک انصاف کے ساتھ انتہائی سخت گیر ہو چکا ہے۔ مذکورہ رویے کو جائز ٹھہرانے کی مجھ میں جرات ہی نہیں۔ ساری عمر یہ سوچتے ہوئے گزار دی ہے کہ حکمرانوں کو اپنا دل کشادہ رکھنا چاہیے۔ کوئی سیاسی کارکن انتہائی ڈھٹائی سے قانون کی خلاف ورزی پر بضد نہ ہو تو اسے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع فراہم کر دینا چاہیے۔ درگزر کا ماحول برقرار رکھتے ہوئے حکومتیں عوام سے مشتعل ہو کر سڑکوں پر نکل آنے کا جواز چھین لیتی ہیں اور یوں اپنے اقتدار کی طوالت یقینی بنا سکتی ہیں۔

ذاتی سوچ کے دیانتدارانہ اظہار کے بعد ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے یہ لکھنے کو بھی مجبور محسوس کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں شاذہی ایسی حکومت دیکھنے کو ملی جس نے میری خواہش کے مطابق کشادہ دلی والا رویہ اختیار کیا ہو۔ 1988 کے بعد وفاق میں آئی پیپلز پا رٹی نے اگرچہ دیگر جماعتوں کے مقابلے میں اپنے مخالفین اور ناقدین کے ساتھ قابل ستائش برداشت والا رویہ اختیار کیے رکھا۔ نواز شریف کی تیسری حکومت بھی اس ضمن میں اپنی پہلی دو حکومتوں کے مقابلے میں بڑے دل کی حامل رہی۔ تحریک انصاف کے دیرینہ اور ثابت قدم حامی ان دنوں یقیناً کڑے وقت سے گزر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ مگر جو سلوک ہو رہا ہے بدقسمتی سے ہماری تاریخ کے تناظر میں انہونا نہیں۔ 1950 کی دہائی سے وطن عزیز میں حکمرانوں کو للکارنے والے ہمیشہ ریاستی جبر کا نشانہ بنے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے ثابت قدم حامیوں کے ساتھ ان دنوں جو ہو رہا ہے اسے ”جائز“ ٹھہرائے بغیر بھی پاکستان کے مخصوص سیاسی تناظر ہی میں دیکھنا پڑتا ہے۔

بات لمبی ہو جائے گی۔ فی الوقت مجھے اصرار کرنا ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں تحریک انصاف اپنے حامیوں کے ساتھ ہوئے ”سلوک“ کو نہایت مہارت کے ساتھ ایک منظم بیانیے کی صورت عالمی دنیا کے سامنے رکھ رہی ہے۔ اس کا اثر ہمارے روایتی میڈیا میں فی الحال نظر نہیں آ رہا۔ طویل المدت تناظر میں لیکن تحریک انصاف کی اختیار کردہ حکمت عملی پاکستان کو نام نہاد عالمی برا دری کے روبرو شہری حقوق سے قطعاً محروم ہوا ملک دکھانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔

امریکی وزارت خارجہ مثال کے طور پر روزانہ واشنگٹن میں تعینات امریکی اور غیر ملکی صحافیوں کے سامنے اپنے ترجمان کو مختلف سوالات کا جواب دینے کے لئے پیش کرتی ہے۔ اس حوالے سے جو بریفنگ ہوتی ہے اسے براہِ راست دکھانے کی سہولت بھی میسر ہے۔ 1986 سے امریکہ کا پیشہ ورانہ وجوہات کی بنا پر سفر کرتے ہوئے میں کئی بار وزارت خارجہ کی بریفنگ میں شریک ہوا ہوں۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی کو سمجھنے کے لئے ان دنوں بھی اکثر اسلام آباد میں اپنے گھر بیٹھے ہوئے میں اس بریفنگ کو انٹرنیٹ کی بدولت براہِ راست دیکھتا ہوں۔

پاکستان گزشتہ کئی ماہ قبل تک شاذہی اس بریفنگ میں زیر بحث آیا۔ عمران حکومت کے خاتمے کے بعد مگر بتدریج تقریباً ہر بریفنگ کے دوران ”سائفر“ کہانی کے بارے میں سوالات اٹھنا شروع ہو گئے۔ امریکی وزارت خارجہ کو بارہا مجبور کیا گیا کہ وہ اصرار کرے کہ واشنگٹن نے عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کا منصوبہ نہیں بنایا تھا۔ وزارت خارجہ کے انڈر سیکرٹری ڈونلڈ لو کے ذریعے عمران حکومت کو دھمکی آمیز پیغامات بھی نہیں بھجوائے گئے تھے۔

”سائفر“ کے بعد اب تحریک انصاف کے خلاف حکومتی ”کریک ڈاؤن“ کا ذکر بھی شروع ہو گیا ہے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے وزارت خارجہ کے ترجمان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ امریکہ کی ”انسانی حقوق“ کے ساتھ ”محبت“ کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں ”اظہار رائے کی آزادی“ یقینی بنانے کے لئے آواز بلند کرے۔ حال ہی میں ایک اور نکتہ بھی اجاگر ہونا شروع ہو گیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کو ایک پاکستانی صحافی نے ”اطلاع“ دی کہ ”لندن میں مقیم“ ایک یوٹیوبر نے دعویٰ کیا ہے کہ تحریک انصاف کے پاکستانی نژاد امریکی شہری اگر اپنے وطن جانا چاہیں تو انہیں ویزا دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کا ترجمان اس الزام کے بارے میں بے خبر تھا۔ اس کے باوجود یہ حقیقت بیان کرنے کو مجبور ہوا کہ امریکہ پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے سفارتخانے کو مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ امریکہ کے کسی شہری کو اپنے ہاں آنے کا ویزا ہر صورت فراہم کرے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہ کہتے ہوئے اپنی جان تو چھڑا لی۔ اس کے روبرو ”لندن سے آئی“ اطلاع کی بنیاد پر لیکن جو سوال اٹھایا گیا اس نے میڈیا کی توجہ اچک لی۔ انور اقبال ”ڈان“ اخبار کے واشنگٹن میں کئی برسوں سے مقیم مستقل نمائندے ہیں۔ میرے دیرینہ دوست ہیں اور میری ہی طرح پرانی وضع کے صحافی بھی۔ انہوں نے بھی اس موضوع پر امریکی وزارت خارجہ کی بریفنگ کے دوران ہوئی گفتگو کو اپنے اخبار کے لئے لکھی خبر کا موضوع بنایا۔

وہ خبر چھپ گئی تو امریکہ میں مقیم میرے چند ذاتی دوستوں نے جو تحریک انصاف کے حامی ہیں نہایت فکرمندی سے مجھے فون کیے۔ ان میں سے کچھ دوستوں نے خاندانی تقاریب کے حوالے سے اگلے دو ماہ کے دوران پاکستان آنا ہے۔ گھبرائے دل کے ساتھ مجھ سے پوچھتے رہے کہ ”ان دنوں“ ان کا پاکستان آنا مناسب ہے یا نہیں۔ جن دوستوں سے گفتگو ہوئی انہیں پاکستان آنے کے لئے ویزے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے مگر ”لوگوں سے سنا“ تھا کہ جن پاکستانیوں کو ویزا درکار ہوتا ہے ان کا تعلق اگر تحریک انصاف سے ثابت ہو جائے تو ہمارا سفارتخانہ انہیں ویزا دینے سے انکار کر دیتا ہے۔ ان کے پاس اگرچہ ان افراد کے نام اور ٹیلی فون نمبر موجود نہیں تھے جن کے ساتھ رابطے کے بعد میں مبینہ ”خبر“ کی تصدیق کر سکتا۔ یہ بات مگر چل نکلی ہے کہ تحریک انصاف کے پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کو ”پاکستان کا ویزا دینے سے انکار ہو رہا ہے۔“

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author