نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد کے ’’باخبر حلقے‘‘ ان دنوں سرگوشیوں میں عمران خان کیلئے ویسی ہی ’’جاں بخشی‘‘ کے بعد ’’جلاوطنی‘‘ کا امکان سنجیدگی سے زیر بحث لارہے ہیں جو جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد نوازشریف کو میسر ہوئی تھی۔ ’’سزا یافتہ مجرم‘‘ ہونے کے باوجود نواز شریف عمران خان کے دور اقتدار میں بھی نظر بظاہر وفاقی کابینہ کی منظوری سے علاج کے بہانے لندن بھیج دئیے گئے تھے۔ یہ جلاوطنی اگرچہ میری دانست میں ’’سیم پیج‘‘ کی بدولت ہوئی تھی۔ عمران خان اگر بیرون ملک بھیجے گئے تو اس ’’بندوبست‘‘کی وجہ سے جائیں گے جو نواز شریف کی پہلی جلاوطنی کو ممکن بنانے کا سبب ہوا تھا۔
1990ء کی دہائی میں ضرورت سے زیادہ متحرک رپورٹر ہونے کی وجہ سے میں اس بندوبست کی وجوہات سے بخوبی آگاہ ہوں۔ کہانی کا آغاز 4جولائی 1999ء میں ہوا تھا جب نواز شریف بطور وزیر اعظم پاکستان امریکی صدر کلنٹن سے کارگل میں جنگ بندی کی درخواست کرنے کو مجبور ہوئے۔امریکہ کی یوم آزادی کے دن سعودی عرب کی کاوشوں کی بدولت نواز -کلنٹن ملاقات کا بندوبست ہوا۔اس کے دوران جنگ بندی یقینی بنانے کے لئے بھارت نے جو شرائط پیش کیں وہ ہمارے لئے نہایت شرمندگی کا باعث ہوسکتی تھیں۔ کلنٹن نے انہیں نرم کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔اپنے تئیں ایک ’’باعزت‘‘ دِکھتا معاہدہ طے کرنے کے باوجود نوازشریف اس خدشے کے اظہار سے باز نہ آئے کہ پاکستان کی عسکری قیادت مذکورہ معاہدے کو ان کے خلاف عوامی جذبات بھڑکانے کو استعمال کرسکتی ہے جس کے نتیجے میں ان کی حکومت کا تختہ بھی الٹا جاسکتا ہے۔حکومت کے خلاف عسکری بغاوت کے امکان کی بات چلی تو اس خطرے کا اظہار ہوا کہ اگر ممکنہ ’’بغاوت‘‘ کامیاب ہوگئی تو نواز شریف کو ’’غدار‘‘ ٹھہراکر پھانسی بھی لگایا جاسکتا ہے۔امریکی صدر نے مذکورہ خدشات کے اظہار کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم کویقین دلایا کہ ایسے حالات واقعتا پیدا ہوگئے تو وہ ان کی جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
نواز شریف وطن لوٹے تو چند ماہ بعد 12اکتوبر1999ء ہوگیا۔سابق وزیر اعظم نے افواج پاکستان کے چیف آف سٹاف کو حیران کن انداز میں ’’برطرف ‘‘کیا تھا۔ جس وقت اس کا اعلان ہوا وہ پی آئی اے کی ایک عام پرواز کے ذریعے سری لنکا سے وطن لوٹ رہے تھے۔ان کو وطن لانے والی پرواز میں تاخیر کی کوششیں ہوئیں۔یہ کاوشیں ’’ہی ‘‘جوابی بغاوت (Counter Coup)کا باعث ہوئیں۔ نواز شریف اس کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ ہوگئے۔بعدازاں ان کے خلاف جنرل مشرف کو پاکستان واپس لانے والی پرواز میں رخنہ ڈالنے کے الزام میں مقدمہ بھی چلا جس کی بنیاد پر طویل اور سنگین سزا سنادی گئی۔
مشکل کی اس گھڑی میں امریکی صدر کو اس کی جانب سے 4جولائی 1999ء کے روز نوازشریف سے ہوئی ملاقات کے دوران کیا وعدہ یاد دلانا پڑا۔صدر کلنٹن سے قبل سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے قائدین بھی جنرل مشرف کے ساتھ چند ملاقاتوں میں نہایت مہارت سے سفارت کارانہ زبان استعمال کرتے ہوئے نوازشریف کی جاں بخشی کی تجویز دے چکے تھے۔ جنرل مشرف اگرچہ بطور کمانڈو اشاروں اور کنایوں میں ہوئی ’’درخواست‘‘ سے لاعلم ہونے کا تاثر دیتے رہے۔ بالآخر لبنان کے وزیراعظم میدان میں اْترے۔سعودی حکومت سے انہوں نے مزید متحرک کردار ادا کرنے کی درخواست کی۔ اس کے بعد جو ہوا تاریخ ہے اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔فی الوقت ہمیں عمران خان کی ممکنہ جلاوطنی پر توجہ دینا ہوںگی۔
عمران خان کی جلاوطنی کا ذکر سرگوشیوں میں شروع ہوا تو بالآخر جے یو آئی (ایف) کے ایک منہ پھٹ رہ نما حافظ حمد اللہ صاحب نے ایک ٹی وی شو میں یہ دعویٰ کردیا کہ عمران خان کی اہلیہ نے حال ہی میں اسلام آباد میں مشرق وسطیٰ کے ایک اہم ملک کے سفیر سے ملاقات کے دوران ان سے اپنے خاوند کی جاں خلاصی کے لئے دوستانہ کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔سفارت کاروں سے عرصہ ہوا میری ملاقاتیں نہیں ہوتیں۔ اس محاذ پر سرگرم ساتھیوں سے لہٰذا رجوع کرنے کو مجبور ہوا۔پانچ کے قریب ساتھیوں نے تصدیق کی ہے کہ حافظ صاحب نے جس ملاقات کا دعویٰ کیا وہ واقعتا اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ہوئی تھی۔ذرائع مگر اس ملک کے نام کی بابت متفق نہیں تھے جن کے ساتھ مبینہ ملاقات ہوئی ہوگی۔
اپنے دوستوں کے ذرائع اور نیت پر شبہ کرنے کی مجھ میں جرات ہی نہیں۔اس کے باوجود ان کے ساتھ گفتگو میں سوال اٹھاتا رہا کہ غیر مردوں سے شرعی پردہ کی عادی بیگم عمران خان نے اگر واقعی اپنے خاوند کی مدد کے لئے کسی سفیر سے ملنا ضروری سمجھا تھا تو یہ ملاقات اسلام آباد کے کسی ہوٹل کے ریستوران میں ہونا عجب دِکھتا ہے۔ایسی ’’حساس‘‘ ملاقاتوں کے لئے متعلقہ فریق ایک دوسرے سے براہ راست رابطے سے ویسے بھی گریز کرتے ہیں۔مثال کے طورپر مجھے یاد نہیں پڑتا کہ جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد محترمہ کلثوم نواز شریف نے کسی غیر ملکی سفیر سے اپنے شوہر کی جاں بخشی کی خاطر مدد کے حصول کے لئے ملاقات کی تھی۔ ایسی ملاقات اگر ہوئی ہوتی تو میں اس سے ہرگز بے خبر نہ رہتا کیونکہ ان دنوں میں ان کے 24گھٹنے اسلام آباد میں مقیم بے شمار سفارتکاروں سے مسلسل رابطے میں رہتا تھا۔نواز شریف کی ممکنہ جلاوطنی کی خبر مجھے یہ واقعہ ہوجانے سے کم از کم تین ماہ قبل ایک اہم برادر ملک کے سفیر نے بتائی تھی۔ وہ اس ضمن میں ہوئی ’’پیش رفت‘‘ کا مرکز واشنگٹن کے علاوہ تین عرب ملکوں کے دارالحکومت ہی بتاتے رہے تھے۔
بہرحال میرا نہیں خیال کہ عمران خان فی الوقت اپنی ’’جاں بخشی‘‘ اور ’’جلاوطنی‘‘ کی راہیں تلاش کررہے ہیں۔کر بھی رہے ہوں تو جو سکیم ان کے ذہن میں ہوگی اسے بروئے کار لانے کے لئے اپنی اہلیہ کو غیر ملکی سفارت کاروں سے ملاقاتوں کے لئے متحرک نہیں کریں گے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے کسی اہم ملک کے سفیر کو ان کی حکومت کی جانب سے حکم ہوا ہو کہ وہ ازخود عمران خان صاحب کے اہل خاندان سے رابطہ کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ان کے ساتھ جیل میں کیا سلوک ہورہا ہے۔شاید اسی باعث وہ ملاقات ہوئی جس کا ذکر حافظ حمد اللہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کردیا اور اسلام آباد میں سرگوشیوں کا سیلاب امڈ پڑا جو دور کی کوڑیاں لانے کو اْکسارہا ہے۔بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر