نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھ بے وقوف کو ابھی تک یہ گماں لاحق تھا کہ انکم ٹیکس وہ ٹیکس ہوتا ہے جو حکومت اپنے شہریوں سے ان کی آمدنی پر وصول کرتی ہے۔گزشتہ چنددنوں سے مگر وطن عزیز میں بجلی کے ہوشربا بلوں کی بابت ماتم کنائی کا آغاز ہوا تو دھیرے دھیرے یہ دریافت بھی کرنا شروع کردیا کہ ان بلوں میں ’’انکم ٹیکس‘‘ کے نام پر بھی خاطرخواہ رقم اینٹھی جارہی ہے۔اپنی تسلی کے لئے دس کے قریب صارفین کے بل غور سے دیکھنے کے بعد یہ دعویٰ کررہا ہوں۔
اپنی نظر میں آئے بلوں میں ’’انکم ٹیکس‘‘ کا اندراج دیکھا تو سرپکڑ کررہ گیا۔بجلی کا بل سادہ ترین الفاظ میں اس قیمت کی نشاندہی کرتا ہے جسے ہم نے اپنے گھروں کو روشن رکھنے کے لئے ادا کرنا ہے۔بجلی کی فی یونٹ قیمت طے کرنے کے بعد ہمارے خرچ کردہ یونٹوں کی اجتماعی قیمت پر ’’جنرل سیلز ٹیکس‘‘ کے نام پر مزید رقم وصول کرلی جائے تو اسے گوارہ کیا جاسکتا ہے۔یہ ویسا ہی ٹیکس ہے جو مثال کے طورپر آپ کسی ریستوران میں کھانے کے بعد ادا کرتے ہیں۔ایسے ٹیکس لوگوں کو ’’سادہ زندگی‘‘ گزارنے کی ترغیب دینے کے نام پر متعارف کروائے گئے تھے۔ 1980ء کی دہائی میں برطانیہ میں سرمایہ دارانہ نظام کو مزید وحشیانہ بنانے کے لئے مارگریٹ تھیچر برسراقتدار آئی تو اس نے ویلیو ایڈڈٹیکس کے نام پر VATکو مسلط کیا۔ جواز اس کا یہ گھڑا کہ روزمرہّ استعمال کے لئے صارف جو اشیائ خریدتا ہے اس کا منافع فقط ان اشیاء تیار کر نے والوں کو نہیں جانا چاہیے۔ ریاست بھی اس کا کچھ حصہ حاصل کرے تاکہ عوام کو بہتر پولیس،ہسپتال اور سکول میسر ہوں۔ کافی مزاحمت کے بعد اس ٹیکس کو بالآخر ’’معمول‘‘ تصور کرلیا گیا۔برطانیہ جیسے ملک میں یہ ٹیکس معمول ہوگیا تو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ آئی ایم ایف وغیرہ نے پاکستان جیسے غریب ممالک کو مجبور کرنا شروع کردیا کہ وہ اپنے ہاں بھی ایسا ہی ٹیکس متعارف کروائیں۔چند اشیائے صرف پر ’’سیلز ٹیکس‘‘ ہمارے خطے میں برطانوی راج کے دنوں ہی میں متعارف کروادیا گیا تھا۔جنرل سیلز ٹیکس کے عنوان سے اسے بتدریج روزمرہّ استعمال کی تقریباََ ہر شے پر لاگو کردیا گیا ہے۔
ہمارے گھروں کو بجلی کے جوبل آتے ہیں ان میں بھی جنرل سیلز ٹیکس کے نام پر اضافی رقم وصول کی جاتی ہے۔ اس ٹیکس کوہم عرصہ ہوا برداشت کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔شاید وہ بلاجواز بھی نہیں۔اپنے گھر کو روشن اور کمرے کو گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم رکھنے کے لئے بجلی کے جو یونٹس استعمال کرتاہوں ان کی قیمت کی کچھ رقم اگر حکومت کو بھی مل جائے تو اچھی پولیس،بہتر تعلیم اور صحت عامہ کا مناسب نظام نصیب ہونے کی امید پیدا ہوتی ہے۔ یہ مگر کئی دہائیوں سے میسر ہوتے نظر نہیں آرہے۔ بے اختیار رعایا کی مانند اگرچہ ہم جنرل سیلز ٹیکس بے تحاشہ اشیاء کے استعمال پر دئے چلے جارہے ہیں۔ خرچ پرٹیکس کا جواز بہرحال کسی نہ کسی بہانے تراشہ جاسکتا ہے۔بجلی کے بل کے ذریعے مگر ’’انکم ٹیکس‘‘ کے نام پر رقم کیوں وصول کی جارہی ہے۔اس کا جواب میرا کندذہن ڈھونڈنے سے قاصر ہے۔
مجھ جیسے لاکھوں پاکستانی اپنی خدمات کے عوض تنخواہ یا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔یہ کالم لکھنا میرا ’’ہنر‘‘ تصور ہوتا ہے۔اسے استعمال کرتے ہوئے میں یہ کالم لکھتا ہوں۔ہفتے میں پانچ روز اسے لکھنے کی وجہ سے ’’نوائے وقت‘‘مجھے جو معاوضہ بینک کے ذریعے بھجواتا ہے اس پر واجب ٹیکس دفتر ازخود کاٹ لیتا ہے۔اسے حکومتی خزانے میں ہر برس باقاعدگی سے جمع کروادیا جاتا ہے۔یہ کالم لکھنے سے میری جو ’’آمدنی‘‘ ہوتی ہے اس پر واجب ٹیکس دفتر کے ذریعے ادا کرنے کے باوجود میں ہر برس انکم ٹیکس ریٹرن بھی جمع کرواتا ہوں۔میرے ’’ذرائع آمدنی‘‘سادہ وشفاف ہیں۔جو آتا ہے وہ بینک میں جمع ہوتا ہے۔اس کا ریکارڈ بآسانی تلاش کیا جاسکتا ہے۔نسبتاََ سادہ او ر شفاف ذرائع آمدنی کے باوجود میں اپنی آمدنی کا گوشوارہ بھرنے کے لئے ٹیکس کے امور سے متعلق ایک ماہر سے رجوع کرتا ہوں۔پیدائشی بزدل ہونے کی وجہ سے یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ ’’غلط گوشوارے‘‘‘ جمع کروانے کے الزام میں دھرنہ لیا جائوں ۔مختلف دفاتر میں اپنے ’’ہنر‘‘ کی بدولت ماہانہ تنخواہ لینے والے پاکستانی اپنی تنخواہ سے پیشگی ٹیکس کٹوانے کے باوجود ہر برس انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع کرتے ہوئے ایسی ہی مشقت کا سامنا کرتے ہیں۔اس کے باوجود ان سے بجلی کے بلوں کے ذریعے ’’انکم ٹیکس‘‘ کے نام پر حکومت کے پاس مزید رقم اینٹھنے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ہم مگر فریاد کریں تو کس سے کریں۔
سنا تھا کہ عدالتوں کو ’’ازخودنوٹس‘‘ کے عنوان سے جو اختیار فراہم ہوا ہے اس کا بنیادی مقصد ہی ’’وسیع تر عوامی مفاد‘‘ میں ایسے سوالوں کے جواب تلاش کرنا ہے جو مثال کے طورپر مجھ جیسے بے بس وبے اختیار شہری کو یہ سمجھاسکیں کہ باقاعدگی سے اپنی آمدنی دکھاتے گوشوارے حکومت کے پاس جمع کروانے کے باوجود وہ بجلی کے بلوں کے ذریعے ’’انکم ٹیکس‘‘ کی مد میں مزید رقم کیوں ادا کررہا ہے۔عوام کے بنیادی حقوق سے جڑے ایسے سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کے لئے مگر ’’ازخود نوٹس‘‘ شاذہی متحرک ہوا۔افتخار چودھری اس اختیار کو عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو ’’چور اور لٹیرے‘‘ ثابت کرنے کے لئے استعمال کرتے رہے۔ عالم غضب میں ایک وزیر اعظم کو بھی چٹھی نہ لکھنے کے جرم میں گھر بھیج دیا۔ بعدازاں جسٹس ثاقب نثار نے اسی اختیار کو پانامہ کے ذریعے اقامہ ڈھونڈنے کے لئے استعمال کرنے کی ریت متعارف کروائی۔ موصوف کو فوری انصاف فراہم کرنے کے بہانے ہسپتالوں اور نچلی عدالتوں میں ’’چھاپے‘‘ ڈالنے کی بھی علت لاحق ہوگئی۔ان دنوں یہ اختیار سیاسی سوالات کے جواب ڈھونڈنے میں خرچ ہورہا ہے۔ اس بنیادی سوال کی جانب نگا ہ ڈالنے کی کوئی امید نہیں کہ ہر برس باقاعدگی سے انکم ٹیکس ادا کرنے والا بے اختیار وبدنصیب پاکستانی بجلی کے بل کے ذریعے بھی ہر ماہ ’’انکم ٹیکس‘‘ کے نام پر اضافی رقم کیوں ادا کررہا ہے۔بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر