نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاش میرے دل ودماغ میں مستقبل کے جو نقشے نمودار ہورہے ہیں انہیں سادہ زبان میں کھل کر بیان کرسکتا۔ عمر تمام صحافت کی نذر کردینے کے بعد مگر اپنی محدودات یا پنجابی والی ”اوقات“ کے سوا کچھ دریافت نہیں کیا۔ ویسے بھی فارسی سے قربت نے اردو کو استعاروں کی سہولت سے مالا مال کررکھا ہے۔ سچ بیان کرنے کی تاب نہ ہو تو ہاتھ گھماکر ان کی بدولت ”ناک“ کو گرفت میں لایا جاسکتا ہے۔
یہ حقیقت اب عام پاکستانیوں کی نگاہ سے اوجھل نہیں رہی کہ ہمارے ہاں ایک ”حکومت“ ہے جو ”دکھتی“ ہے۔ اسے ”سیاسی ناٹک“ پر کٹھ پتلیوں کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔لوگ اس کے نمایاں چہروں اور ”کارناموں“ سے ا±کتا جائیں تو تماشے میں نئے کردار متعارف کروادئے جاتے ہیں۔اپریل 2016ءمیں نام نہاد پانامہ دستاویزات کے دھماکہ خیز ”انکشاف“ کے بعد مذکورہ ”پتلی تماشہ“ نہایت ہیجان خیز ہوگیا۔ اس کی بدولت وطن عزیز کے تین بار منتخب ہوئے وزیر اعظم نواز شریف پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے ہاتھوں سیاسی عمل میں حصہ لینے کے لئے تاحیات نااہل ٹھہرادئیے گئے۔ ان کی فراغت کے بعد کرکٹ کی وجہ سے کرشمہ ساز مشہور ہوئے عمران خان ”دیدہ ور“ کی صورت ابھرنا شروع ہوگئے۔جولائی 2018ءکے انتخابات کے دوران ریاست کے طاقت ور اداروں نے ان کی کھل کر سرپرستی سے گریز نہیں برتا۔وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد وہ اکتوبر2021ءتک ”سیم پیج“ کی برکتوں سے بھی فیض یاب ہوتے رہے۔ مذکورہ برکتوں کے باوجود مگر ریاست کی بقاء یقینی بنانے والوں کو بالآخر ”مزا“ نہیں آیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ حالیہ تاریخ ہے۔ اسے دہرانا وقت کا زیاں ہوگا۔
بہرحال عمران حکومت کی جگہ ہماری تین اہم سیاسی جماعتوں اور ان کے ”اتحادیوں“پر مبنی حکومت تقریباََ 16ماہ اقتدار میں رہنے کے بعد اب گھر جاچکی ہے۔ ریاست کو دیوالیہ سے بچانے کی دہائی مچاتے ہوئے اس نے بے تحاشہ غیر مقبول فیصلے لئے۔ان کی وجہ سے مذکورہ جماعتوں کا مبینہ ”ووٹ بینک“ تباہ وبرباد ہوگیا۔ان کی قیادتوں کے خلاف البتہ ریاست کے تادیبی یا محتسب اداروں نے جھوٹے یا سوچے جو بھی کیس بنائے تھے اپنی شدت سے برقرار نہ ہے۔ اب ”رسیدیں“ دیگر کرداروں سے طلب کی جارہی ہیں۔ ان کا انجام کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا فی الوقت میرا درد سر نہیں۔
میری توجہ کی کامل مستحق آج یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان سے ابھرے ایک نسبتاََ جواں سال اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے انوار الحق کاکڑ صاحب حیران کن انداز میں نگران وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھادئے گئے ہیں۔نگران حکومت کے قیام سے قبل ”منتخب حکومت“ نے انتہائی عجلت میں ایسے قوانین منظور کئے جنہوں نے نگران وزیر اعظم کو باقاعدہ منتخب ہوئے وزیر اعظم کے اختیارات فراہم کردئے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہوئے معاہدے پر کامل عملدرآمد اس فیصلے کے جواز کی صورت اچھالا گیا۔ ”نگران وزیر اعظم“ کو بااختیار بنانے کے بعد شہباز حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بھی طلب کرلیا۔ مذکورہ اجلاس نے حال ہی میں ہوئی مردم شماری پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ اس کے بعد آئینی اعتبار سے لازمی ہوگیا کہ آئندہ انتخابات نئی مردم شماری کے ”حقائق“ کو ذہن میں رکھتے ہوئے نئی حلقہ بندیوں کی تشکیل کے بعد ہی منعقد ہوں۔
مذکورہ بالا فیصلوں کے بعد آپ کو یہ طے کرنے کے لئے علم سیاسیات کی اعلیٰ ترین ڈگری کی ضرورت نہیں کہ آئندہ انتخابات”90دنوں کے اندر“ نہیں ہوپائیں گے۔الیکشن کمیشن نے اگر نئی حلقہ بندیوں کا عمل انتہائی عجلت میں مکمل کرلیا تب بھی ان کا انعقاد آئندہ برس کے فروری کے اختتامی ہفتے سے قبل نہیں ہوپائے گا۔معاملہ مارچ کے ابتدائی دس دنوں تک بھی مو¿خر ہوسکتا ہے۔ قصہ مختصر انوار الحق کاکڑ کی قیادت میں قائم ہوئی نگران حکومت کم از کم آئندہ 6مہینوں تک برسراقتدار رہ سکتی ہے۔
اپنے اقتدار کے دوران مگر ”نگران حکومت“ کو پاکستان کے کئی دہائیوں سے جمع ہوتے مسائل سے نبردآزما ہونے کے لئے چند ”انقلابی“ دِکھتے اقدامات لینا ہوں گے۔ ہم بے اختیار لوگوں کو ہرگز علم نہیں کہ ہمارے ہاں کن قوتوں یا افراد نے چند اقدامات کو نہایت سوچ بچار کے بعد وطن عزیز کی بقاءاور طویل المدت خوش حالی اور استحکام کے لئے ”انقلابی“ ٹھہرایا ہے۔ ان کی نشان دہی ہو بھی جائے تو مجوزہ اقدامات نہایت احتیاط سے اختیار کردہ حکمت عملی کے بعد ہی متعارف کروائے جاسکتے ہیں۔کینسر جیسے موذی مرض کی تشخیص کے بعد بھی اس کے مریض کو ”کیموتھراپی“ کے لئے ذہنی طورپر تیار کیا جاتا ہے۔بسااوقات یہ فیصلہ بھی ہوتا ہے کہ مریض اب ”کیموتھراپی“ برداشت کرنے کے قابل نہیں رہا۔بہتر یہی ہے کہ اسے درد اور تکلیف برداشت کرنے کی قوت فراہم کردی جائے۔
عمران حکومت نے اپنا پہلا بجٹ تیار کرتے ہوئے اپریل 2019ءہی میں ہمارے لئے آئی سی یو میں داخل ہوئے مریض اور کینسر کے علاج کے لئے لازمی قرار پائی کیموتھراپی کی گفتگو شروع کردی تھی۔اسد عمر کے ہاتھوں مگر اس کا اطلاق نہ ہوپایا۔ڈاکٹر حفیظ شیخ ہی اس ضمن میں ”حاذق طبیب“ قرار پائے۔ موصوف کے ہاتھوں ”علاج“ شروع ہوا تو چند ماہ بعد کرونا کی وباءنازل ہوگئی۔ اس کی وجہ سے عالمی معیشت کے نگہبان اداروں نے ہمارے ساتھ ذرا شفقت برتی۔ جس ”شفقت“ کا مظاہرہ ہوا اسی کی بدولت میسر ہوئی امدادی رقوم مگر ”برآمدات بڑھانے“ کے نام پر چند اجارہ دار سیٹھوں میں بانٹ دی گئیں۔ عام آدمی کی روزمرہّ ضروریات اس تناظر میں بے دردی سے نظرانداز کردی گئیں۔
”مرض“ لہٰذا اب مزید شدت سے اپنا اثردکھانا شروع ہوگیا ہے۔ ”نگران حکومت“ کے پہلے دودن واضح انداز میں نشاندہی کررہے ہیں کہ ہماری معیشت کو بحال کرنے کے لئے ”کیموتھراپی“ دوبارہ شروع کردی گئی ہے۔پاکستان کے دیہاڑی دار اور متوسط طبقے کی بے پناہ اکثریت مگر اب اسے برداشت کرنے کے قابل نہیں رہی۔خدارا فی الوقت اسے درد کی شدت برداشت کرنے والی ادویات فراہم کریں۔ وہ جانبر ہونے کے بعد ہی مزید جھٹکوں کا متحمل ہوسکے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر