نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس بدھ کی صبح اُٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں اس کی شام وزیر اعظم شہباز شریف صدر مملکت کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھجوادیں گے۔ انہوں نے فوری طورپر مذکورہ استدعا پر منظوری کے دستخط ثبت نہ کئے تب بھی آئندہ 48گھنٹوں میں جولائی 2018ءکے انتخابات کی بدولت وجود میں آیا پارلیمان کا ایوان زیریں ازخود تحلیل ہوجائے گا۔ ہمارے تحریری آئین کے دئے قواعد وضوابط کے کامل اتباع میں ہوئی تحلیل کے بعد آنے والے 90دنوں میں نئے انتخابات ہوجانا چاہیے۔ آئین ہی نے مگر یہ شرط بھی عائد کررکھی ہے کہ نئی مردم شماری کی تکمیل کے بعد آبادی کے اضافے کو ذہن میں رکھتے ہوئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقے نئے سرے سے تشکیل دئے جائیں۔ نئی حلقہ بندیاں اس امر کو یقینی بنائیں کہ عمر کے اعتبار سے ہماری آبادی کے جو افراد ووٹ دینے کے اہل ہوچکے ہیں وہ اپنا حق رائے دہی استعمال کرسکیں۔مطلوبہ سہولت فراہم کرنے کے لئے الیکشن کمیشن کو کم از کم 4مہینے درکار ہوں گے۔ حلقہ بندیوں کا اعلان ہوگیا تو ان کی بابت نسلوں سے انتخابی عمل میں حصہ لینے کے عادی افراد مختلف النوع اعتراضات بھی اٹھاسکتے ہیں۔ان کے ازالے کے لئے بھی چار سے چھ ہفتے درکار ہوں گے۔یوں اگر الیکشن کمیشن اور اس کے سرپرست ومعاون ریاستی ادارے انتخابی عمل کو ہر صورت یقینی بنانا چاہیں تب بھی عام انتخابات وطن عزیز میں آئندہ برس کے فروری کے آخری ہفتے یا مارچ کے ابتدائی دس دنوں سے قبل منعقد نہیں ہوپائیں گے۔ریاستی اور حکومتی امور نبھانے کے لئے جو ”نگران حکومت“ نمودار ہوگی وہ 60یا 90دنوں کے بجائے کم از کم آئندہ 6مہینوں تک برسراقتدار رہ سکتی ہے۔
ہمارے مبصرین کی اکثریت یہ بھی محسوس کررہی ہے کہ نظر بظاہر محض چند ماہ کے لئے قائم ہوئی نگران حکومت وطن عزیز کو درپیش مسائل کے حل کے لئے کچھ ایسے تاریخی اقدامات بھی لے سکتی ہے جن کے ”مثبت نتائج“ لوگوں کے روبرو آئے تو عوام کی اکثریت یہ تقاضہ کرنے کو مجبور ہوجائے گی کہ انہیں ایک اور ”انتخاب“کی مشقت سے محفوظ رکھا جائے۔ بہتر یہی ہوگا کہ نگران حکومت کی قیادت میں ”مثبت سمت“ کی جانب جو قدم اٹھائے جارہے ہیں وہ برق رفتاری سے اپنا سفر جاری رکھیں۔ ”مثبت نتائج“ کے حصول کے لئے ڈیڑھ یا دو سال تک انتظار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
مثبت پیش قدمی کی خواہشات وتوقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے گزشتہ چند دنوں سے ہمارے متحرک رپورٹر لہٰذا نہایت لگن اور بے چینی سے یہ طے کرنے میں مصروف رہے کہ نگران حکومت کی قیادت کا ہما کس خوش نصیب کے سربٹھایا جائے گا۔منگل کی رات ایک بجے تک کچھ ایسے متحرک رپورٹروں سے مسلسل رابطے کے باوجودمیں یہ جاننے میں ناکام رہا کہ ”ہما“ کس کے سربٹھایا جارہا ہے۔ڈاکٹر حفیظ شیخ منگل کی صبح تک اگرچہ اس ضمن میں ”طے“ ہوئے تصور کئے جارہے تھے۔جیکب آباد میں پیدا ہوئے شیخ صاحب اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے آج سے کئی دہائیاں قبل امریکہ میں علم کے مرکز قرار پائے شہر بوسٹن تشریف لے گئے تھے۔ علم معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے یعنی آئی ایم ایف کے ملازم ہوگئے۔
مجھے ہرگز خبر نہیں کہ آئی ایم ایف میں انہوں نے کونسے کارہائے نمایاں سرانجام دئے تھے۔ جنرل مشرف نے لیکن پاکستان کو ”سیدھی راہ“ پر چلانے کے لئے اکتوبر1999ءمیں اقتدارسنبھالا تو اس کے چند ماہ بعد وہ سندھ کے وزیر خزانہ تعینات ہوگئے۔ ان دنوں مشہور یہ بھی ہوا کہ ان کی ”دریافت“ محمد میاں سومرو صاحب کی بدولت ممکن ہوئی۔ وہ خود بھی فرزند جیکب آباد تھے اور بینکاری کے شعبے میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہنے کے بعد سندھ کے طاقت ور ترین گورنرلگائے گئے تھے۔ انہوں نے سندھ کو کرپشن سے پاک کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو ”مالیاتی ڈسپلن“ کی لگام ڈالنے کے لئے حفیظ شیخ کی معاونت کا تقاضہ کیا۔ ان کی خواہش کا احترام ہوا۔سندھ حکومت اور صوبائی افسران اس کے بعد ”مالیاتی ڈسپلن“ کے عادی ہوئے یا نہیں اس کے بارے میں راوی کے پاس سنانے کو وافر داستانیں میسر نہیں۔
بہرحال چند مہینوں کی ”ماہرانہ حکومت“ کے بعد 2002ءمیں عام انتخاب ہوئے۔ اس کی بدولت سندھ میں جو حکومت قائم ہوئی اسے ڈاکٹرصاحب کی صلاحیتیں استعمال کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ وہ سینٹ کا رکن منتخب کروانے کے بعد اسلام آباد بھیج دئے گئے۔ یہاں قومی خزانے کے تمام معاملات شوکت عزیز ایک اجارہ دار کی طرح دیکھتے تھے۔حفیظ شیخ صاحب کو اسلام آباد میں تقریباََ ”کھڈے لائن“ لگادیا گیا۔
ان کی ”ذہانت“ البتہ آصف علی زرداری 2010ءمیں ایک بار پھر دریافت کرنے کو مجبور ہوئے جب ان کے لگائے شوکت ترین آئی ایم ایف وغیرہ کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔وزیر خزانہ تعینات ہونے کے بعد تاہم ڈاکٹر حفیظ شیخ نے اپنے مربی آصف علی زرداری کو نظرانداز کرنا شروع کردیا۔ وہ ا ن دنوں کی عسکری قیادت اور واشنگٹن کے ساتھ ”ڈائریکٹ“ ہوگئے۔ بالآخر یوسف رضا گیلانی کو چیف جسٹس افتخار چودھری نے چٹھی نہ لکھنے کے جرم میں فارغ کیا تو راجہ پرویز اشرف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد انہیں کابینہ میں شامل کرنا مناسب تصور نہ کیا۔ شیخ صاحب اس کے باوجود اس گماں میں مبتلا رہے کہ انہیں 2013ءکے انتخابات کے لئے تشکیل ہونے والی نگران حکومت کا وزیر اعظم بنایا جارہا ہے۔گماں مگر گماں ہی رہا اور ڈاکٹر صاحب ہمارے سیاسی منظر نامے سے اوجھل ہوگئے۔2019ءکا بجٹ تیار کرنے سے قبل مگر عمران حکومت اور اس کے مہربان سرپرست قمر جاوید باجوہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو ایک بار پھر”دریافت “کرنے کو مجبور ہوگئے اور مارچ 2021ءتک وہ قومی خزانے کے حتمی کلید برادر رہے۔
یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے شبہ ہورہا ہے کہ مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی میں موجود ”کائیاں اور تجربہ کار“ سیاستدان شیخ صاحب کی ذہانت سے گھبرائے ہوئے ہیں۔ رات گئے تک سرتوڑ کوششیں ہورہی تھیں کہ ڈاکٹر صاحب جیسے ٹیکنوکریٹ کے بجائے کسی ریٹائرڈ جج یا اچھی شہرت کے حامل بیوروکریٹ کو نگران وزیر اعظم بنانے کی راہ نکالی جائے۔میرا جھکی ذہن مگر یہ اصرار کرنے کو مجبور ہے کہ ”گیم“ اب سیاستدانوں کے ہاتھ نہیں رہی۔آنے والے کئی مہینوں تک وہ گھروں میں بیٹھے جمائیاں ہی لیتے رہیں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر