نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کو اقتدار میں بٹھانے یا وہاں سے ہٹانے کے لئے جو محلاتی سازشیں ہوتی ہیں ان کا کھوج لگانے کی مجھے بطور رپورٹر علت لاحق رہی ہے۔ مذکورہ علت مگر صحافیانہ تجسس تک ہی محدود رہی۔ ذاتی طور پر میں کسی خاص شخص کے سر پر اقتدار کا ہما بٹھانے کی سازش میں کبھی ملوث نہیں رہا۔ نہ ہی کسی شخصیت کے سیاسی زوال سے کبھی ذاتی لطف اٹھایا ہے۔
عملی صحافت سے بتدریج کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے محلاتی سازشوں کی بابت مگر گزشتہ کئی برسوں سے غافل رہنا شروع ہو گیا۔ عمران خان البتہ اگست 2018 ء میں ریاست کے طاقتور ترین اداروں کی معاونت سے لگائی گیم کی بدولت وزارت عظمیٰ پر فائز ہو گئے۔ اقتدار سنبھالنے کے چند ہی ہفتے بعد ان کی حکومت نے مجھے ٹی وی اداروں کے لئے ”مالی بوجھ“ ثابت کر دیا۔ محض رزق کمانے کی خاطر ہی نہیں بلکہ صحافت میں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے مجھے پرنٹ صحافت میں لوٹنا پڑا۔ ”نوائے وقت“ نے اس ضمن میں میرا ڈٹ کر ساتھ دیا۔ پرنٹ صحافت میں لوٹا تو اپنے اصل میدان یعنی پارلیمان کی کارروائی پر تمام تر توجہ مبذول کردی۔ سینٹ یا قومی اسمبلی کے اجلاس ہوتے تو پریس گیلری سے ان کے بغور مشاہدے کے بعد ”دی نیشن“ کے لئے انگریزی میں کالم لکھتا۔ اس کالم کے لئے بیشتر مواد بھی پارلیمان ہاؤس کی راہداریوں میں گھومتے ہوئے مل جاتا۔ صحافت سے بہت محنت سے برقرار رکھے اس تعلق کی بنیاد پر کبھی کبھار چند مہربان دوستوں کی شفقت ایسی محفلوں میں شرکت کے مواقع بھی فراہم کر دیتی جہاں سیاستدان ”آف دی ریکارڈ“ گپ شپ کے لئے ضرورت سے زیادہ احتیاط برتنے سے گریز کرتے ہیں۔
مارچ 2021 ء کے ابتدائی دنوں میں خوش قسمتی سے ایسی ہی ایک محفل میں موجود تھا۔ اس مہینے سینٹ کی آدھی نشستیں خالی ہونا تھیں۔ سیاستدانوں کی رچائی محفلوں میں اندازے لگائے جا رہے تھے کہ ان کی جماعتوں کے قائدین کون سے افراد کو خالی ہوئی نشستوں پر ”ٹھونسنے“ کی کاوش کریں گے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ ان دنوں ہمارے وزیر خزانہ ہوا کرتے تھے۔ کسی بھی منتخب ایوان کے رکن نہیں تھے۔ آئی ایم ایف کو رام کرنے کی خاطر مگر عمران خان قومی خزانے کی کلید ان کے سپرد کرنے کو مجبور ہوئے اور اس تناظر میں اپنے پرانے وفادار اور کارپوریٹ دنیا کے کرشمہ ساز تصور ہوتے اسد عمر کو چٹکی بجا کر فارغ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا تھا۔
ڈاکٹرصاحب وزارت خزانہ کا منصب سنبھالنے کے بعد آئی ایم ایف سے ایک معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس معاہدے نے پاکستان کو معاشی سہارا تو فراہم کر دیا مگر اس کی عائد کردہ شرائط پر عملدرآمد کے دوران ہمارے عام اور دیہاڑی دار افراد کی زندگیاں اجیرن ہو گئیں۔ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین قومی اسمبلی کے دلوں میں ”بغاوت“ کی خواہش ان ہی دنوں ابھرنا شروع ہو گئی تھی۔ نجی محفلوں میں مجھ جیسے ”راندۂ درگاہ“ صحافی کے روبرو بھی سرگوشی میں بیان کر دیتے کہ وہ اپنے حلقوں میں جانے کے قابل نہیں رہے۔ اپنے حامیوں کو وہ ”حفیظ شیخ کی نازل کردہ“ مہنگائی اور کسادبازاری کے تسلی بخش جواب فراہم نہیں کر پاتے۔
تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے دلوں میں جو غصہ اور مایوسی اْبل رہے تھے ڈاکٹر حفیظ شیخ اس کے بارے میں کا ملاً غافل رہے۔ بطور ”ٹیکنوکریٹ“ انہیں عوام کے براہ راست ووٹوں سے قومی اسمبلی میں پہنچے اراکین کی اکثریت معاشی امور کی مبادیات کے بارے میں قطعاً جاہل محسوس ہوتی تھی۔ وہ ان کی دلجوئی میں ”وقت ضائع“ کرنے کو بھی آمادہ نہیں تھے۔ دفتری امور نبٹانے کے بعد گالف کھیلنے چلے جاتے۔ موسم گالف کی اجازت نہ دیتا تو اپنے گھر ہی میں اس کھیل کی تنہائی میں پریکٹس سے جی بہلاتے۔ بارہا اسمبلی میں کھڑے ہو کر انہوں نے نہایت رعونت سے یہ اعلان بھی کیا کہ ان کی پالیسیوں پر ”جاہلانہ“ تنقید کے عادی افراد کبھی آئی ایم ایف جیسے عالمی اداروں کے اندر داخلے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ نہ ہی انہیں دنیا کی کسی مستند یونیورسٹی سے معاشیات کو بطور مضمون پڑھنے کی ”سعادت“ نصیب ہوئی ہے۔
ان کے خود پسند رویے کے باوجود عمران خان صاحب نے انہیں سینٹ کی اسلام آباد سے خالی ہوئی ایک نشست کے لئے امیدوار نامزد کر دیا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو آئندہ دو برسوں تک برقرار رکھنے کے لئے لازمی تھا کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ بطور ”منتخب“ وزیر خزانہ عالمی معیشت کے نگہبانوں سے معاملات سنبھالے رکھتے۔ تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کی خاطر خواہ تعداد مگر انہیں ”سبق سکھانے“ کو مچل رہی تھی۔ ان کے دلوں میں جو جذبات مچل رہے تھے ان کی بھنک مصطفیٰ نواز کھوکھر کو بھی مل گئی۔ ان دنوں وہ پیپلز پارٹی کے جواں سال اور متحرک سینیٹر ہوا کرتے تھے۔ اپنی جماعت کے قائد بلاول بھٹو زرداری سے بھی ان کی بہت قربت تھی۔ اس قربت کی بنیاد پر وہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس امر پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کی شکست یقینی بنانے کے لئے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو ان کے مدمقابل سینٹ کا امیدوار بنا دیا جائے۔ کافی ہچکچاہٹ اور سوچ بچار کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت اور گیلانی صاحب اکھاڑے میں اترنے کو آمادہ ہو گئے تو مسلم لیگ (نون) نے بھی ان کی پرخلوص مدد کا فیصلہ کر لیا۔ تحریک انصاف کے ”ناراض“ اراکین سے مسلم لیگ (نون) کی قیادت نے خفیہ ملاقاتیں کی۔ ان ملاقاتوں میں انہیں یقین دلایا گیا کہ اگر انہوں نے گیلانی صاحب کی حمایت میں ووٹ دیا تو آئندہ انتخابات میں انہیں مسلم لیگ (نون) کا ٹکٹ فراہم کر دیا جائے گا۔ گیم لگ گئی تو اس کا نتیجہ بھی برآمد ہو گیا۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ خفیہ رائے شماری کی بدولت سینٹ کی نشست حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ان کی ناکامی کے بعد عمران خان نے بھی انہیں ذلت آمیز انداز میں وزارت خزانہ سے فارغ کر دیا۔ وقتی طور پر حماد اظہر کو ان کی جگہ بٹھانے کے بعد شوکت ترین بالآخر مذکورہ منصب پر براجمان ہو گئے۔
”ووٹ کی طاقت“ سے 2021 ء میں شکست خوردہ ہوئے ڈاکٹر حفیظ شیخ کو مگر اب وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ صاحب نے نگران وزیر اعظم کے لئے ”تگڑا“ امیدوار ڈیکلیئر کر دیا ہے۔ رانا صاحب نے یقیناً ازخود ان کی ممکنہ نامزدگی کا اعلان نہیں کیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف صاحب کی منشاء کے بغیر وہ ایسا بیان جاری کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ مارچ 2021 میں ان دنوں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شمار ہوتے راجہ ریاض صاحب نے بھی ڈاکٹر حفیظ شیخ کے خلاف ووٹ دیا ہو گا۔ اب مگر وہ ڈاکٹر صاحب کی بطور نگران وزیر اعظم نامزدگی کی مخالفت کو بے چین نہیں ہوں گے۔ فیصل آباد کے دو ”رانا“ اگر ایک نام پر متفق ہو گئے تو محاورے والا ”ہما“ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے سر پر منڈلانا شروع ہو جائے گا۔
یہ کالم لکھنے تک مجھے ہرگز خبر نہیں کہ بالآخر ”ہما“ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے سر پر بٹھا دیا جائے گا یا نہیں۔ میرے اندر بیٹھا تھوڑا سا کمینہ انسان مگر انتہائی گرم جوشی سے یہ توقع باندھ رہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس منصب پر فائز ہوجائیں۔ ان کی تعیناتی پاکستان کے سیاستدانوں کی اجتماعی بے بسی کو واضح انداز میں بے نقاب کردے گی۔ ان کی ”اوقات“ بھونچال کی صورت ہمارے سامنے آ جائے گی۔ ثابت ہو جائے گا کہ بالآخر آئی ایم ایف کے چہیتے ہی وطن عزیز میں اقتدار کی مسندوں پر بٹھائے جاتے ہیں۔ ”ووٹ“ نامی شے اس ضمن میں کسی وقعت کی حامل نہیں۔ ”ووٹ کو عزت دو“ کا واہمہ لہٰذا جلد از جلد ذہن سے نکال دو اور عالمی اور مقامی اشرافیہ کے روبرو اپنے سر جھکانے کو ہمیشہ تیار رہو۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر