نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسحاق خاکوانی صاحب سے دیرینہ شناسائی ہے۔نہایت مہذب،خلیق اور وضع دار شخصیت کے حامل ہیں۔ان کی سیاسی سوچ سے میں عموماََ اتفاق کرتا ہوں مگر سیاسی عمل کے حوالے سے ان کی ترجیحات سے اکثر اختلاف رہا۔خاکوانی صاحب اختلافات کو تاہم دوستانہ مسکراہٹ سے برداشت کرنے کے عادی ہیں اور اپنے دفاع میں جذبات کے بجائے دلائل کو فوقیت دیتے ہیں۔دیرینہ مراسم کے باوجود ہم دونوں کے مابین طویل عرصے سے سرسری گفتگو بھی نہیں ہوئی تھی۔
پیر کی صبح اپنا کالم دفتر بھجوادینے کے بعد اپنے ٹویٹر اکاﺅنٹ پر نگاہ ڈالی تو مجھے خاکوانی صاحب کے لکھے ایک ٹویٹ نے پریشان کردیا۔قبل از دوپہر لکھے اس ٹویٹ کو میرے دیکھنے تک 52 ہزار 700افراد پڑھ چکے تھے۔ان کی تعداد نے مجھے بھی اسے توجہ سے پڑھنے کو راغب کیا۔
مذکورہ ٹویٹ میں خاکوانی صاحب نے انتہائی فکر مندی سے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ”موجودہ حالات“ میں ”فوری انتخابات“ ہمارے گھمبیر مسائل کا حل نہیں۔سابق وزیر اعظم اگر ان کی وجہ سے اکثریت حاصل نہ کرپائے تو اپنی ”ہار“ تسلیم کرنے سے انکار کردیں گے۔ فرض کیا ان کی ممکنہ اکثریت کو روکا نہ جاسکا تو اقتدار میں لوٹ کر عمران خان نہ صرف اپنے مخالف سیاستدانوں بلکہ ریاست کے عدلیہ اور قومی سلامتی سے متعلق اداروں کے علاوہ میڈیا کو بھی اپنا مطیع فرماں بردار بنانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں برتیں گے۔ ان کی دانست میں بروقت انتخاب جو نظر بظاہر رواں برس کے اکتوبر یا نومبر میں ہونا آئینی اعتبار سے لازمی ہے ملک کو ویسے ہی خلفشار کی جانب بھی لے جاسکتے ہیں جو 1970ءکے برس ملکی تاریخ میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوئے پہلے انتخاب کے نتیجے میں برآمد ہوا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن ان کے نتیجے میں ماضی کے ”مشرقی پاکستان“ میں قومی اسمبلی کی دونشستوں کے سوا باقی تمام حلقے بھاری اکثریت سے جیت گیا تھا۔ صدر جنرل یحییٰ نے مگر اسے اقتدار منتقل کرنے میں لیت ولعل کا رویہ اختیار کیا تو پاکستان کو طویل خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا۔اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے براہ راست فوجی مداخلت کے ذریعے پاکستان کا دولخت ہوجانا یقینی بنادیا۔
خاکوانی صاحب نے جو ہولناک تصویر کھینچی میں اس کے امکانات کے بارے میں غیر یقینی کے عالم میں ہوں۔ملکی سیاست کا یہ طالب علم اگرچہ مصر ہے کہ سابقہ مشرقی پاکستان میں ا ردو کو قومی زبان قرار دینے کے علاوہ وہاں بے تحاشہ ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر ”احساس محرومی“ بتدریج سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا گیا تھا۔شیخ مجیب نے اس احساس کو طویل انتخابی مہم کے دوران شعلے اُگلتی تقاریرسے شدید تر بنادیا۔بالآخر کئی دہائیوں سے ہمارے بنگالی بھائیوں کے دلوںمیں ابلتا غصہ 1970ءکے انتخابات کے دوران لاوے کی صورت پھٹ پڑا۔
ہماری ریاست کے چند دائمی ادارے 1971ءکا سانحہ ہوجانے کے باوجود جس انداز میں ”قومی سلامتی“ یقینی بنانے کے نام پر پے در پے جو سیاسی تجربات کرتے رہے ہیں عوام کی اکثریت ان سے اب اکتا چکی ہے۔مذکورہ ”اکتاہٹ“ پر تاہم تحریک انصاف ہی کا اجارہ نہیں ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کی 1967ءمیں بنائی پیپلز پارٹی سے وابستہ افراد کو آج بھی اپنے قائد کا جنرل ضیاءکے ہاتھوں پھانسی لگنا نہیں بھولا ہے۔ اس کے علاوہ دسمبر2007ءمیں راولپنڈی میں ہوا محترمہ بے نظیر بھٹو کا وحشیانہ قتل بھی ہے جس کی آج تک تشفی بخش تحقیقات نہیں ہوپائی ہیں۔
نواز شریف پیپلزپارٹی کو سیاست سے باہر رکھنے میں ریاست کے دائمی اداروں کے کئی دہائیوں تک ”لاڈلے“ تصور ہوتے تھے۔اپریل 1993ءمیں لیکن انہوں نے ”ڈکٹیشن“ نہ لینے کی ٹھان لی۔تب سے اب تک دوبار وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹنے کے بعد ان کی حکومتوں کو استحکام نصیب نہیں ہوا۔دوسری حکومت کارگل کی بدولت اکتوبر1999ءمیں لگائے مارشل لاءکی نذر ہوگئی۔ تیسری حکومت کے دوران ”پانامہ“ نے انہیں تاحیات نااہل کردیا۔
تحریک انصاف کے قائد اقتدار میں نام نہاد ”باریاں لینے والی“ ان دونوں ”موروثی جماعتوں“ کے خلاف ایماندار ”دیدہ ور“ کی صورت نمودار ہوئے۔مخالفوں کو کمزور کرتے ہوئے عمران خان صاحب کو ایوان اقتدار تک پہنچانے میں ہماری ریاست کے طاقت ور ترین اداروں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ مجھے یقین نہیں کہ وہ تن تنہا غصے سے مغلوب ہوئے شیخ مجیب الرحمن کی طرح وطن عزیز کو کامل انتشار کی جانب دھکیل سکتے ہیں۔
کامل انتشار اور افراتفری کے جس امکان سے خاکوانی صاحب خلوص مندی سے گھبرائے ہوئے ہیں میری ناقص رائے میں فقط اسی صورت عملی شکل اختیارکرسکتا ہے اگر ریاستی ادارے غضب ناک ہوئے عمران خان کو بقیہ سیاسی کرداروں کی ترجیحات سفاکی سے نظرانداز کرتے ہوئے رام کرنے کی کاوشوں میں جت جائیں۔رواں برس کے اکتوبر یا نومبر میں انتخاب سے مفر مذکورہ تناظر میںسابق وزیر اعظم کے ”خوف سے گھبراکر “ ان کی عاجزانہ دلجوئی کا ماحول بنائے گا۔ممکنہ ماحول مسلم لیگ (نون)اور پیپلز پارٹی کو باقی صدیقی کے بیان کردہ ”داغ دل“ یاد دلانے کو مجبور کردے گا۔ سابق وزیر اعظم کا دل اگر کسی نہ کسی صورت ”جیت“ لیا گیا تو باقی جماعتوںکو اس صورت ٹشو پیپر کو استعمال کے بعد ردی کی ٹوکری میں پھینکے جانے کا دُکھ لاحق ہوجائے گا۔ سابق وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کے بعد ملک کو ”دیوالیہ ہونے سے بچانے“ کے نام پر فوری انتخاب سے گریز نے ان کے ووٹ بینک اور سیاسی ساکھ کو یقینا شدید زک پہنچائی ہے۔ سیاستدان مگر ڈھیٹ ہڈی کے حامل ہوتے ہیں۔ لوگوں کی کمزور یادداشت کافائدہ اٹھاتے ہوئے ایک دن انگڑائی لے کر بڑھکیں لگانا شروع ہوجاتے ہیں۔کسی ایک سیاسی فریق کی دلجوئی کے لئے خواہ وہ عوام میں کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو باقی افراد کو نظرانداز کرنا طویل المدت تناظر میں خیر کی ہرگز خبر نہیں لاتا۔
(بشکریہ نوائے وقت)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر