نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ برس کے اپریل سے ہمارے ہاں اضطراب ،ہیجان اور خاص طورپر بلھے شاہ کے بتائے ’’شک شبے‘‘ کے جس دور کا آغاز ہوا ہے وہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ہماری ریاست کے تمام دائمی اداروں اور اہم سیاستدانوں کو باہم مل کر اضطراب سے نجات کی کوئی صورت دریافت کرنا ہوگی۔ وگرنہ جو ابتری پھیلے گی اس پر قابو پانا کسی کے لئے بھی ممکن ہی نہیں رہے گا۔
ٹھنڈے دل سے سوچیں تو عمران مخالف جماعتوں کا یہ آئینی حق تھا کہ اگر ان کے پاس مطلوبہ تعداد میں ووٹ جمع ہوچکے تھے تو باہم مل کر سابق وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ان کے منصب سے فارغ کروانے کی چال چلتے۔ یہ کالم گواہ ہے کہ میں مذکورہ چال کا حامی نہیں تھا۔مسلسل بلکہ اصرار کرتا رہا کہ عمران حکومت کی آئینی مدت کے خاتمے کا انتظار کیا جائے۔ ہم جیسے دیہاڑی دار کالم نگاروں کی رائے مگر سیاستدان قابل غور تصور ہی نہیں کرتے۔اقتدار کی اپنی چاہ اور ہوس ہوتی ہے جس کا علاج ممکن نہیں۔
بہرحال جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوگئی تو سابق وزیر اعظم اور ان کی جماعت نے اس کا مقابلہ کرنے کے بجائے ’’امریکی سازش‘‘کی داستان گھڑلی۔ بدقسمتی سے ان دنوں اپوزیشن جماعتوں کے ’’کائیاں اور سرکردہ سیاستدان‘‘ اس داستان کے اثرات کا ٹھوس رویے سے جائزہ لینے میں ناکام رہے۔ ’’امریکی سازش‘‘ والی تھیوری کو بھرپور توجہ سے رد کرنے کے بجائے محلاتی سازشوں میں مصروف رہے۔
اس تھیوری کی بنیاد پر تاہم کرکٹ سے کرشمہ ساز ہونے کے بعد قوم کے ’’دیدہ ور‘‘ بنے عمران خان نے روایتی اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا پیغام پہنچانے کے ہنر پر کامل گرفت کی بدولت قوم کو ’’حقیقی آزادی‘‘ کے لئے تیار کرنا شروع کردیا۔جو تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تھی اسے ’’قومی سا لمیت‘‘کے منافی ٹھہراتے ہوئے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ تحریک عدم اعتماد مسترد ہوجانے کے فوراََ بعد اس وقت کے وزیر اعظم نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھی ایوان صدر بھجوادی۔ آئین کا تقاضہ ہے کہ اگر کسی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتمادپیش ہوجائے تو اس پر گنتی سے انکار ہوہی نہیں سکتا۔ غالباََ اسی باعث ’’آئین کے تحفظ کی خاطر‘‘ ہمارا سپریم کورٹ از خود متحرک ہوا۔ قومی اسمبلی کے سپیکر کو ’’تحلیل شدہ اسمبلی‘‘ بحال کرنے کے بعد اس کا اجلاس طلب کرنے کی تاریخ بھی دے دی گئی۔ اس تاریخ کو گنتی کا تقاضہ ہوا۔ یوں اپوزیشن کا ہدف حاصل ہوگیا۔
وزیر اعظم کو خالصتاََ ’’آئینی‘‘ دِکھتے انداز میں رخصت کردینے کے بعد اپوزیشن کے لئے لازمی تھا کہ اقتدار سنبھالتے ہی نئے انتخابات کی تیاری شروع کردیتی۔ اسے مگر سابق آرمی چیف قمر جاوید نے ’’ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے‘‘ کا فریضہ سونپ دیا۔ یہ فریضہ ادا کرتے ہوئے مخلوط حکومت میں شامل ہر جماعت آئی ایم ایف کو رام کرنے کے بہانے عوام کی بے پناہ اکثریت پر مہنگائی کا ناقابل برداشت عذاب ٹھہرانے کی ذمہ دار تصور ہوئی۔
مہنگائی کے خلاف بڑھتی نفرت کا سابق وزیر اعظم نے نہایت مہارت سے بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا۔ بتدریج یہ ارادہ باندھ لیا کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسملبلیاں تحلیل کروانے کے بعد نئے انتخابات حاصل کئے جائیں۔ملک کے دو بڑے صوبوں میں ٹھوس اکثریت کے ساتھ تحریک انصاف اگر حکومتیں بنالیتی تو وفاق میں قائم ہوئی حکومت چند ماہ بھی نہیں ٹک سکتی تھی۔مذکورہ اسمبلیوں کے انتخابات مگر سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے باوجود بھی ہونہ سکے۔
میں سنجیدگی سے سوچتا ہوں کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کا نظرانداز کئے جانا خواہ وہ مخصوص تناظر میں چند سیاسی فریقین کو ’’متنازعہ‘‘ یا ’’یک طرفہ‘‘ بھی محسوس ہو ان دنوں تیزی سے بڑھتے ’’شک شبے‘‘ کا حقیقی سبب ہے۔ وزیر اعظم پاکستان آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوجانے کے بعد مسلسل اصرار کررہے ہیں کہ وہ اگست کی 13تاریخ سے قبل قومی اسمبلی کو تحلیل کردیں گے۔ یوں آئندہ نوے دنوں میں قومی ہی نہیں بقیہ چار صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب کروانا لازمی ہوجائے گا۔
میری ناقص رائے میں وزیر اعظم اپنی بات پر ڈٹے رہے تو رواں برس کے اکتوبر یا نومبر میں وفاق کے علاوہ چاروں صوبوں کی اسمبلیوں کے انتخاب ٹالنافقط یہ پیغام دے گا کہ عمران کی تمام مخالف جماعتیں حتی کہ ہمارے چند طاقت ور ریاستی ادارے بھی سابق وزیر اعظم کو صاف ستھرے انتخاب کی بدولت دو تہائی نہ بھی سہی سادہ اکثریت سے کم از کم اسلام آباد کے علاوہ لاہور اور پشاور میں بھی طاقت ور حکومتیں بناتے دیکھ رہے ہیں۔یہ انتخاب ٹالنے کی تمام کاوشیں لہٰذا ’’خوف‘‘ سے گھبرا کر کھیلی چالیں شمار ہوں گی جنہیں درست اور واجب ماننے کو مجھ جیسے عمران خان کے دیرینہ ناقد بھی آمادہ نہیں ہوں گے۔
ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے البتہ مجھے یہ گماں ہے کہ مسلم لیگ (نون)،پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ایف)جیسی جماعتیں ’’اصولوں‘‘ کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی ساکھ کو طویل المدت تناظر میں کسی حد تک برقرار رکھنے کے لئے انتخاب سے بھاگتی نظر نہیں آنا چاہیں گی۔انتخاب مؤخر ہوجانے کے بعد وہ ’’جمہوری نظام‘‘ کی پاسبانی کی بڑھکیں لگائیں گے تو عوام کی اکثریت کا پنجابی والا ہاسا چھوٹنا شروع ہوجائے گا۔ ہار جیت سیاستدان کا معمول ہے۔ گزشتہ حکومت کے دوران ان جماعتوں کے سرکردہ رہ نمائوں نے اپنے خلاف ’’احتساب‘‘ کے نام پر ہوئی غیر منصفانہ اذیتوں اور ذلتوں کا ڈٹ کرمقابلہ کیا ہے۔ وہ تحریک انصاف کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد بھی خود کو سیاست میں زندہ رکھنے کے سو طریقے ڈھونڈ سکتے ہیں۔ سیاستدان مگر یقین مانیں اگر انتخاب سے ڈرتا نظر آئے تو مرجاتا ہے۔
(بشکریہ نوائے وقت)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر