نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کنڈیرا کی موت ۔۔۔ || نصرت جاوید

نصرت جاوید پاکستان کے مایہ ناز سینئر صحافی ہیں، ، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے روزنامہ ایکسپریس، نوائے وقت اور دی نیشن سمیت دیگر قومی اخبارات میں کالم ،مضامین اور پارلیمنٹ ڈائری لکھتے چلے آرہے ہیں،انکی تحریریں خاص طور پر ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کالم میں اکثر میلان کندیرا کا ذکر رہا ہے۔ عرصہ ہوا میں اسے تقریباََ بھول چکا تھا۔ بدھ کی سہ پہر مگر موبائل فون پر سرسری نگاہ ڈالنے کے بعد اس کی موت کی خبر ملی تو دل اداس ہوگیا۔ کندیرا کا شمار ان لکھاریوں میں ہوتا ہے جس کے ناولوں نے میری سوچ کو 1990ءکی دہائی میں حیران کن انداز میں بدل دیا تھا۔ ایک پڑھے لکھے دوست سے خبر ملی کہ ان دنوں چیکوسلاوکیہ کہلاتے ملک سے تعلق رکھنے والا ایک ناول نگار ہے۔کمیونسٹ نظام سے فرار ہوکر پیرس میں جلاوطن ہوا بیٹھا ہے۔اس نے ایک زبردست ناول لکھا ہے۔عنوان ہے اس کا The Unbearable Lightness of Beingاس عنوان کا اردہ ترجمہ میرے بس سے باہر ہے۔

 

بہرحال اپنے دوست کے ادبی ذوق پر مجھے اندھا اعتماد تھا۔کافی کوشش کے بعد اس کا یہ ناول ڈھونڈا۔اسے پڑھنا شروع کیا تو تمام رات جاگتے ہوئے اسے ختم کرنے کومجبور ہوگیا۔ چند ہی دنوں بعد اسی ناول پر بنائی ایک فلم بھی وڈیو کیسٹ کی صورت میسر ہوگئی۔ اسے بھی تین بار بہت چاﺅ سے دیکھا۔ بالآخر مگر یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑی کہ ناول کو ”فلمانا“ تقریباََ ناممکن ہے۔ کسی بڑے ناول کو پڑھتے ہوئے ہر قاری کے ذہن میں بہت ہی ذاتی ہیولے یا مناظر تشکیل پاتے ہیں۔وہ سکرین پر نظر نہ آئیں تو مایوسی ہوتی ہے۔

مذکورہ ناول سے کہیں زیادہ مگر مجھے میلان کندیرا کے ایک اور ناول نے کئی روز تک ہکا بکا بنائے رکھا۔ اس کا عنوان تھا: The Book of Laughter and Forgetting اس کی بدولت پیغام یہ ملا کہ آمرانہ معاشروں میں اشرافیہ کا ایک گروہ خود کو چند ”مقدس“ بنائے نظریات کا ”پاسبان“ بنالیتا ہے۔اقتدار پر مکمل گرفت حاصل کرلینے کے بعد یہ گروہ اپنے معاشروں کے ہر شہری کو اس ”نظریے“ کے عین مطابق زندگی گزارنے کو مجبور کرتا ہے۔اس ضمن میں معمولی غفلت برتنے والے کو بھی ”بداخلاق،غیر ذمہ دار یا عیاش“ٹھہرادیا جاتا ہے۔دیانت داری سے ریاست کے اپنائے نظریے کے بارے میں اٹھائے سوالات ”تخریب کاری“ شمار ہوتے ہیں۔اقتدار پر قابض گروہ شہریوں کو ہر لمحہ یہ بھی یاد دلاتا رہتا ہے کہ وہ ان کے ملک کو ”جنت کا ٹکڑا“ بنارہے ہیں۔ جہاں ہر انسان ”برابر“ ہے۔اسے مفت تعلیم فراہم کی جارہی ہے جس کے حصول کے بعد روزگار ہر صورت یقینی بنایا جاتاہے۔تعلیم مکمل کرنے اور اپنی ”استطاعت“ کے مطابق نوکری کے حصول کے بعد شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ شادی کرے ،بچے پیدا کرے اور بقیہ زندگی ایک خوشحال اور ہمہ وقت ہنستے مسکراتے انسان کی طرح گزارے۔

 

میلان کندیرا کمیونزم کے نام پر قائم ہوئی حکومتوں کو بدترین آمرانہ نظام سمجھتا تھا حالانکہ وہ خود 18سال کی عمر میں اپنے ملک پر جرمن افواج کے قبضے کے بعد وہاں کی کمیونسٹ پارٹی کا متحرک کارکن بن گیا تھا۔مذکورہ حیثیت میں اس نے وہاں کی حکمران جماعت کے سرکردہ افراد کی دوغلی اور منافقانہ زندگی کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ مایوس ہوا تو اسے بے نقاب کرنے کے لئے انتہائی تخلیقی استعارے اور تلمیحات ایجاد کرنے کی لگن میں جت گیا۔ادب کا انتہائی سنجیدگی قاری ہوتے ہوئے بھی وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ادا س لہجے میں ظالمانہ نظام کی بابت ماتم کنائی لوگوں کے ذہن بدلنے کے کام نہیں آئے گی۔بہتر یہی ہے کہ خود کوفلسفی اور ”گہرا“ ثابت کرنے کے بجائے ناول نگار روزمرہّ زندگی کے انتہائی عام کرداروں پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے ”خوئے غلامی“ سے بے بس ہوئے افراد کو ”لطیفہ“ کی مانند دکھائے۔

 

1975ءمیں جو پہلا ناول اس نے لکھا نام ہی اس کا The Joke لطیفہ تھا۔ کمیونسٹ نظام میں نوجوانوں کو ”سیدھی راہ“ پر رکھنے کے لئے پرفضا مقامات اور قصبوں میں ”نظریاتی کیمپ“ لگاکرتے تھے۔ مذکورہ ناول کا مرکزی کردار ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہے۔ وہ لڑکی مگر ”نظریاتی تربیت“ کی وجہ سے چند دنوں کے لئے شہر میں موجود نہیں۔ نظریاتی تربیت کے دوران وہ ناول کے مرکزی کردار کو ایک طویل خط لکھتی ہے۔اس کے ذریعے وہ اس امر پر انتہائی طمانیت کا اظہار کرتی ہے کہ اسے ”نظریاتی تربیت“ کی وجہ سے ”بہتر انسان“ بننے کی راہ نظر آنا شروع ہوگئی ہے۔یاد رہے کہ کمیونسٹ نظام میں ”مایوسی پھیلانا“ بدترین جرم تصور ہوتا تھا۔ ادیبوں،شاعروں اور ڈرامہ نگاروں کو مجبور کیا جاتا کہ وہ اپنی تخلیقات کی بدولت عوام کو امید دلائیں۔ ”رجائیت“ زندگی کا حتمی ہدف تھی۔

 

اپنی محبوبہ کے طویل خط کے جواب میں ”دی جوک“ کے مرکزی کردار نے ایک پوسٹ کارڈ پر فقط یہ لکھا کہ ”رجائیت عوام کی افیون ہے-ٹراٹسکی زندہ باد“۔ یاد رہے کہ ٹراٹسکی روسی انقلاب کے بانیوں میں سے ایک تھا۔سٹالن کو مگر اس کا ”ایمان“ مشکوک محسوس ہوا۔خوف سے جلاوطنی کو مجبور ہوا اور بالآخر میکسیکو میں روسی ایجنٹ کے ہاتھوں مارا گیا۔ کندیرا نے جب یہ ناول لکھا تو اس وقت چیکو سلاوکیہ میں آمرانہ نظام کی مسلط کردہ گھٹن کے خلاف ’پراگ بہار“ کی تحریک کو روسی فوج کی مدد سے سختی سے کچل دیا گیا تھا۔ ان دنوں اس ناول کا لکھے جانا دانستہ خودکشی کے مترادف تھا۔ ناول چھپتے ہی لہٰذا بین کردیا گیا اور کندیرا کو نوکری اور کمیونسٹ پارٹی سے نکال دیا گیا۔ میلان کندیرا کا باپ ایک نامور موسیقار تھا۔ اس کی وجہ سے میلان کندیرا بھی پیانو بہت مہارت سے بجاسکتا تھا۔ نوکری سے محروم ہوجانے کے بعد زندگی گزارنے کے لئے کندیرا شام میں مختلف شراب خانوں میں چلا جاتا اور وہاں موجود پیانو بجاتے ہوئے لوگوں سے ٹپس جمع کرتا۔بے روزگاری کے ان ہی دنوں میں بنیادی طورپر پھکڑ باز میلان کندیرا نے ایک اخبار کے لئے ”آج کا دن کیسے گزرے گا“ والا کالم بھی قلمی نام سے لکھنا شروع کردیا۔ اخبار کے مدیر کو یہ باور کروایا گیا کہ ”نجوم“ جیسی ”فروعات“ کو سنجیدگی سے لینے والا کالم نگار بذات خود ایک ”ایٹمی سائنسدان“ ہے جو ریاست کے ”حساس“ ادارے سے وابستہ ہے۔ اس کی کہانی مگر زیادہ دنوں تک چل نہ پائی۔ بالآخر جلاوطنی کو مجبور ہوا اور بدھ کے دن اس دنیا سے بھی چلا گیا ہے۔

(بشکریہ نوائے وقت)

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author