اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دوست مٹھا دلدار، عالم سبھ آباد کریں !||رانا محبوب اختر

سُکار بیت کا دوسرا مصرع عجب ہے جس میں لطیف خدا کو دوست مٹھا دلدار کہہ کر سارے عالم کو آباد رکھنے کی دعا کرتے ہیں ۔ سندھ کا سُکار، ہریالی اور مستی پوری دنیا کو میسر ہو ، دعائے لطیف ہے۔ شاہ کا خدا ، دوست ، مٹھا اور دلدار ہے۔ لطیف ، ولی اللہ ہیں۔ خدا کے دوست !!خواجہ غلام فرید خدا کو یار پنل کہہ کر پکارتے ہیں۔ ملتان کے استاد الاساتذہ،  ڈاکٹر انوار احمد، فرید کے یار پنل کو خدائے لم یزل کا سواں صفاتی نام کہتے ہیں :

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کا پاکستان،  قدیم انڈس ریپبلک ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عمر پچھتر سال اور سندھ وادی کی عمر لگ بھگ پانچ ہزار سال ہے ۔ نئے پاکستان اور  قدیم پاکستان میں تضادات اپنی اصل میں کولونیل ہیں ۔ پچھتر سالہ کولونیل آدمی اور پانچ ہزار سال کے بوڑھے حاشیائی مقامیوں کے اتہاس میں مغائرت ہے ۔ شاہ بھٹائی،  بلھے شاہ،  رحمان بابا، خواجہ فرید اور مست توکلی مقامی زبانوں کے وہ شعراء ہیں جن کے کلام میں مقامی روایت اور صدیوں کی دانش و حکمت ورنیکولرائز ہو گئی ہیں۔ اس پس منظر کے ساتھ آج ہم شاہ سائیں کے ایک دعائیہ شعر پہ بات کرتے ہیں۔ دعا، عبادت کا مغز ہے۔ زرتشت ، ھرمسی ، یہودی، عیسائی، ہندو، جین، بدھ ، سکھ ، مومن اور ملحد سبھی دعا کا منتر جپتے ہیں کہ دعا ، منتشر ، ملتوی  اور سیال خواہشوں کو لفظ اور نام دیتی ہے۔
شاہ عبدالطیف بھٹائی ( 1752 ء وفات ) کا "رسالو” سندھ وادی کی حکمت کا مجمع البحرین ہے۔ مولانا جامی نے مولانا رومی کی مثنوی کے بارے میں کہا کہ:
مثنوئ مولوئ معنوی
ہست قرآن در زبانِ پہلوی
علامہ اقبال نے کارل مارکس کو خراج پیش کیا کہ :
من چہ گویم وصفِ آں عالیجناب
نیست پیغمبر و لے دارد کتاب
اسی طرح کرسٹوفر شیکل نے شاہ بھٹائی کے ” رسالو ” کو سندھی میں قرآن کہا ہے ۔
شاہ سائیں کا ایک دعائیہ بیت سندھ وادی میں قومی ترانے کی طرح اہم ہے :
سائنیم سدائیں، کریں متھے سندھ سُکار
دوست مٹھا دلدار، عالم سبھ آباد کریں
ترجمہ: میرے سائیں سندھ پر ہمیشہ سکار ہو ۔ اے میرے میٹھے دلبر دوست ، سارے عالم کو آباد رکھنا!
شاہ لطیف کے اس بیت میں دو سخن اہم ہیں۔ پہلا سخن سُکار ہے جو عربی کے سُکر سے آیا ہے۔ سُکر کی جڑ، مُسکِر ہے اور قیاس ہے کہ مُسکِر ، فارسی کے مَست گر سے نکلا ہے۔ سُکر کا مترادف مستی اور متضاد ہوشیاری ہے۔ علامہ اقبال نے ”تری آنکھ مستی میں ہوشیار کیا تھی”کہہ کر ایک کیفیت بیان کی ہے ۔ مستی کی ہوشیاری پر لطیف کا جہانِ معنی استوار ہے۔”لغت نامہ دھخدا”میں سُکر کا ایک مطلب جادو ہے۔ سُکر ، کھجور کی شراب اور سُکاریٰ ، نشے کی کیفیت کو بھی کہتے ہیں ۔ سلطان العاشقین، ابن علی بن الفارض عربی زبان کے شہرہ آفاق مصری شاعر اور صوفی تھے۔ صوفیوں اور بھکتیوں کے برعکس وہ خدا کو ایک عورت کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ ان کی ایک مشہور نظم ”الخمریہ” ہے۔ ایک شعر میں وہ سکر کی کیفیت کا ذکر کرتے ہیں:
شُیرینا علی ذکر الحبیب مدامتہً
سُکرنا بھا من قبل ان یخلق الکرم
ترجمہ: محبوب کی یاد میں ہم نے شراب پی ہے ۔ ہم انگور کی بیل کی تخلیق سے بھی پہلے سکر کی کیفیت میں ہیں۔ صوفیوں کے لئے عشق کی مستی اتم سُکار ہے ۔
سُکاریٰ، وہ کیفیت ہے جس میں لفظ کی غلط ادائیگی کا احتمال رہتا ہے۔ اس لئے سُکر کی کیفیت میں نماز کی ممانعت ہے۔ جب کہ تصوف کی دنیا میں شُکر اور سَکر ہم معنی ہیں۔ شُکر کی کیفیت میں آدمی حق کی حضوری میں ہوتا ہے۔ شُکر، عنایات کا اعتراف ہے۔ ایسی حق شناسی ہے جس میں تمام صفات حق سے منسوب ہو جاتی ہیں۔ شُکر کی تین قسمیں ہیں۔ زبانی، قلبی اور عملی۔ زبانی شُکر، گفتار ہے۔ قلبی شُکر، ادراک ہے اور عملی شُکر ، کردار ہے۔ شُکر، شُکرانہ ہے۔  شُکر کی ش سے پیش ہٹا کر  ک  پر زَبر لگائیں تو شُکر کی شکل بنتی ہے۔سَکر، عربی میں شَکَر ہے۔ سکار عربی میں سفید میٹھے انگور کو بھی کہتے ہیں۔ عرب، گنا سندھ سے پہلے ایران اور پھر شرق اسط لے گئے تو سکر کا لفظ بنا۔ سندھ کا گنا اور شکر ، یونان پہنچ کر Sakchar یا Sakcharon ہوا اور رومیوں نے اسے Saccharum کر دیا ۔ سکر ،سکھر ہے ۔ سکر ، سکھر شہر کے نام کی وہ عرب جڑ ہے ، جس کا مٹھاس سندھ کی مٹی اور گنے کے کھیتوں سے نکل کر پورے عالم پر محیط ہے۔ سنسکرت میں سکھا کے معنی خوشی اور رحمت کے ہیں۔ سندھ وادی کے دوسرے شہروں کی طرح،  سکھر ، سکار سے جڑا ہوا شہر ہے۔ اروڑ اور بکھر ، سکھر کے قدیم نام ہیں! سندھی میں سکھارو اور سرائیکی میں سکھر ، بڑھیا آدمی کہتے ہے!
سندھی زبان میں سُکار کے معنی بارش کے بعد ہونے والی ہریالی اور آبادی کے ہیں۔ سکار، ڈُکار کا متضاد ہے۔ سُکار، وَسکار کے بعد کی ہریالی کو کہتے ہیں۔  سُکار، فطرت کے باطن کا وہ خمار ہے جو زمین پر سبز چادر کی صورت نمودار ہوتا ہے ۔ سندھی زبان نے عربی کے لفظ سُکر کے دل میں الف رکھ دیا ہے۔ جب حق پانی بن کر زمین پر برستا ہے تو زمین ہری ہوتی ہے ۔سندھ ، سُکار اور آباد ہوتا ہے۔ شاہ لطیف صرف سندھ نہیں ، پورے عالم انسانیت کے لئے ہریالی ، آبادی اور مستی بھرے سُکار کی دعا کرتے ہیں۔ سندھو کا جہانِ معنی جس میں شُکر، شَکر اور سُکر کی لطیفی تثلیث ہجر اور بھوک کے مارے آدمی  کے دل اور وجود کو آباد کرتے ہیں ! اس تکون کو وجود کے چوکھٹے میں اتارنا لطیفی گیان ہے ۔ یہ مہذب زمینی اور مقامی تثلیث ہے جو پوسٹ کولمبس تاریخ کے نسل پرست کرودھ، سامراجی غرور اور وحشیانہ بیانیے کو بدلنے کی بنیاد بن سکتی ہے!
سُکار بیت کا دوسرا مصرع عجب ہے جس میں لطیف خدا کو دوست مٹھا دلدار کہہ کر سارے عالم کو آباد رکھنے کی دعا کرتے ہیں ۔ سندھ کا سُکار، ہریالی اور مستی پوری دنیا کو میسر ہو ، دعائے لطیف ہے۔ شاہ کا خدا ، دوست ، مٹھا اور دلدار ہے۔ لطیف ، ولی اللہ ہیں۔ خدا کے دوست !!خواجہ غلام فرید خدا کو یار پنل کہہ کر پکارتے ہیں۔ ملتان کے استاد الاساتذہ،  ڈاکٹر انوار احمد، فرید کے یار پنل کو خدائے لم یزل کا سواں صفاتی نام کہتے ہیں :
سونہڑیں یار پُنل دا
ہر جا عین حضور
وحدت الوجودی صوفیاء کے ہاں ایک تناقص یہ ہے کہ اروڑ سے دمشق تک یار پنل کے سجائے ہوئے مقتلوں میں داہر اور قاسم ایک ہی طرح کی سفاکی سے قتل ہوئے ہیں۔ مقامی مقتولوں اور سامراجی قاتلوں کو ایک ماننے سے حق کی وحدت پر سوال اٹھتے ہیں! ”کافرانہ” سوالات ہی سے "ہمت کفر” اور "جرات تحقیق” ہے۔ سامراجی کھیل کی کھوج اور تاریخ کی درست تفہیم کے لئے سندھ وادی کے آثار اور مزار اور ان سے جڑی اقدار کی تحلیل نفسی اور تجزیہ اہم ہیں ۔ یہ وہ مقامی ٹیکنالوجی ہے جسے سیکھ کر ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کر سکتی ہے۔ پوسٹ کولمبس یک رخی سامراجی تاریخ سے برات کا اعلان کر سکتی ہے ۔
کولمبسی خدا مقامیوں کے قتل سے خوش  ہوتا ہے ۔ مابعد کولمبس تاریخ میں پادری اور ملا کے خدا قہر اور قبضے کے خدا ہیں ۔اس کے برعکس صوفی اور شاعر کا خدا  یار پنل اور دوست مٹھا منٹھار ہے ۔ وہ پورے عالم کو آباد کرنے اور پالنے والا رب ہے ۔ ریاست کولمبسی استعمار کا انکار کر کے بھوک اور پیاس سے بچ سکتی ہے۔ ریاستی تضادات اور سماجی فساد کا علاج حکیم ، حلیم ، عمیق اور عتیق وادی سے ہم آہنگ ریاست ہے۔ ریاست کے پاس کولمبسی ماضی کو مقامی ماضی سے بدلنے کی جادوئی طاقت ہے ۔ سُکار کے احساس سے سرشار سیکولر ریاست مقامی اور مہاجر ، غالب مسلم اکثریت اور مغلوب اقلیتوں ، غریب اور امیر کا”ڈکار”، خوف اور حزن ختم کر سکتی ہے۔ سب کو برابری کی بنیاد پر شہریت دے سکتی ہے ۔ پچھتر سال پرانی پاکستانی ریاست، تنخواہ دار اشرافیہ کی اکادمیوں میں سندھ وادی کی پانچ ہزار سال کی تاریخ کا  نصاب پڑھا کر عمیق و امیر بن سکتی ہے۔ مقامی تاریخ سے  سامراجی تاریخ  کے بیانیے کو بدل کر عام لوگوں سے اعتماد کا ووٹ لے سکتی ہے۔ پورے عالم کو آباد کرنے کا خواب بشر مرکز ، روشن نظر، سیکولر،  صوفی ، مساواتی، عنایتی اور مارکسی ہے ۔ ہماری دنیا ،  رنگینی اور تکثیریت کا طلسم ہے۔ سندھ وادی میں حمکت اور محبت ہم معنی ہیں۔ حکمت ، کثرت سے وحدت کشید کرتی ہے اور رنگوں کی شورش کے پیچھے ایک نور کا جلوہ دیکھتی ہے۔ شاہ لطیف کی متھے سندھ سکار اور سبھ عالم کی آبادی کی دعا بیک وقت مقامی اور آفاقی ہے ۔ متھے سندھ سکار،”جمل جہان دی خیر”اور سب کا بھلا سب کی خیر، سندھ وادی کی قدیم دانش ہے ۔ سُکار، بھوک، خوف اور حُزن سے نجات کی کلید ہے !!

%d bloggers like this: