نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے دین کی کلیدی علامات کے بارے میں ہم پاکستانی بہت جذباتی ہیں۔بنیادی طورپر ’’عقل کا غلام‘‘ ہوتے ہوئے بھی مجھ گنہگار نے اس کی بابت کبھی شرمندہ محسوس نہیں کیا۔نہایت خلوص اور عقیدت پر مبنی ان جذبات کو تاہم چند جماعتیں اور افراد جب خالصتاََ سیاسی مفادات کے حصول کے لئے بھڑکانے کی کوشش کریں تو جی جل جاتا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے پریشان ہوجاتا ہوں کہ واضح طورپر مفادپرستانہ بنیاد پر بھڑکائی ایسی تحریک کو نام نہاد ’’عالمی برادری‘‘ رعونت سے نظرانداز کردے گی اور یوں ہماری مقدس ترین علامتوں کی توہین کا سلسلہ بدقسمتی سے جاری رہے گا۔
یورپ کے کئی ممالک میں گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلم اور اسلام دشمن جنونیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔بنیادی وجہ اس کی اقتصادی حقائق ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاری کے بعد اپنے ممالک میں زندگی کی معمولات بحال کرنے کے بعد انہیں استحکام وخوشحالی کی جانب بڑھانے کے لئے ان ممالک کو سستے مزدوروں کی بے تحاشہ تعداد درکار تھی۔ ان کے حصول کے لئے یورپی ممالک نے ا فریقہ اور ایشیاء کے ان ممالک سے تارکین وطن کو منافقانہ خوش دلی سے خوش آمدید کہا جو کئی دہائیوں تک ان کے سامراجی قبضے میں جکڑے رہے تھے۔ انتہائی کٹھن حالات میں دن رات مشقت کے بعد تارکین وطن معاشی اعتبار سے ذرا مستحکم ہوگئے تو انہوں نے اپنے عزیزوں اور قرابت داروں کے لئے بھی یورپ میں روزگار تلاش کرلیا۔ یوں تارکین وطن کی یورپ کے بے شمار شہروں میں ’’مخصوص آبادیاں‘‘ رونما ہونے لگیں۔یورپی حکومتوں نے ان آبادیوں کو ان سہولتوں سے جان بوجھ کر محروم رکھا جو یورپ کے ’’فرزندان مٹی‘‘ کا بنیادی حق تصور ہوتی ہیں۔ یہاں پیدا ہوکر جوان ہونے والی نسلیں واضح طورپر متعصبانہ بنیاد پر برتی ’’عدم مساوات‘‘ مگرسر جھکائے تسلیم کرنے کو تیار نہ ہوئیں۔انہوں نے یورپ ہی کے سکھائے ’’شہریوں کے مابین مساوات‘‘ والے اصول کے حصول کیلئے بھرپور سیاسی جدوجہد کا آغاز کردیا۔
1990کی دہائی سے مگر یورپ میں اقتصادی اعتبار سے مزید نمو کی گنجائش باقی نہ رہی۔ کساد بازاری اور اقتصادی جمود نے بیروزگاری میں بے پناہ اضافہ کیا۔ سفید فام اکثریت کے پڑھے لکھے نوجوانوں کی اکثریت کونسل پرست جنونیوں نے مایوسی اور کساد بازاری کے موسم میں یہ سوچنے کو مائل کیا کہ ان کی بے روزگاری کا اصل سبب یورپی ممالک میں تارکین وطن کی موجودگی ہے جو سستی ا جرت پر جان لیوا مشقت کو ہمہ وقت آمادہ رہتے ہیں۔انہیں یورپ سے نکال دیا جائے تو غالباََ خوش حالی کا دور واپس آسکتا ہے۔بے تحاشہ محققین اگرچہ ٹھوس اعدادوشمار کی بدولت مصر ہیں کہ یورپ میں زندگی کی معمولات اور رونق بحال رکھنا تارکین وطن کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
بہرحال تارکین وطن کے خلاف اْکسائی جنگ کا بھرپور اظہار نسل پرستوں کے ایک جنونی گروہ کی جانب سے اسلام اور مسلم دشمنی کے ذریعے بھی ہوتا ہے۔ سویڈن کئی دہائیوں تک اس سوچ سے محفوظ رہا تھا۔ صومالیہ ،یمن اور شام کی خانہ جنگیوں کی وجہ سے اس ملک میں لیکن تارکین وطن کی تعداد میں چونکا دینے والا اضافہ شروع ہوگیا تو اسلام دشمنی بھی سراٹھانے لگی۔ حال ہی میں وہاں کلام پاک کی توہین کا جو واقعہ ہوا ہے وہ مذکورہ رویے میں پریشان کن حد تک اضافے کا ٹھوس اظہار ہے۔
جو واقعہ ہوا وہ ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے۔سویڈن کی حکومت بھی اس کی بابت شرمندہ اور معذرت خواہ ہے۔ اس کی مگر چند مجبوریاں بھی ہیں۔میری دانست میں نسل پرست اور اسلام دشمن جنونیوں کے خلاف سویڈن جیسی حکومتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے پاکستان جیسے ممالک کو انتہائی سوچ بچار کے بعد ایسی حکمت عملی تشکیل دینا ہوگی جو توہین آمیز رحجانات کی موثر انداز میں پیش بندی کی راہ بنائے۔ ایسی حکمت عملی تشکیل دینے کی جانب مگر ہمارے ہاں توجہ ہی نہیں دی جارہی۔سویڈن میں جودلخراش واقعہ ہوا ہے اسے کئی جماعتیں بلکہ اپنی سیاست چمکانے کے لئے ہی استعمال کررہی ہیں۔
نہایت افسوس کے ساتھ یہ لکھنے کو مجبو رہوں کہ سویڈن میں ہوئے واقعہ کے تناظر میں اپنی سیاست چمکانے کے عمل کا آغاز سابق وزیر اعظم عمران خان نے کیا۔9مئی کے واقعات کے بعد وہ خود کو دیوار سے لگا محسوس کررہے ہیں۔ان کی جماعت میں کئی برسوں تک شامل رہے نمایاں افراد کی کثیر تعداد ان سے دوری دکھانے کی کاوشوں میں مبتلا ہے۔24/7 چینل ان کی شخصیت سے ریٹنگ کی رونق برقرراررکھنے کے قابل نہیں رہے۔ زمان پارک کے رہائشی پر ان دنوں ناقابل برداشت تنہائی طاری ہوچکی ہے۔ جو تنہائی اور گمنامی اپنی نوجوانی ہی میں کرکٹر کے طورپر ’’کرشمہ ساز‘‘ مشہور ہوئے خان صاحب پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس کے توڑ کے لئے سابق وزیر اعظم نے فیصلہ کیا کہ وہ سویڈن میں ہوئے واقعہ کے خلاف احتجاجی تحریک کی قیادت کریں گے۔
سویڈن میں ہوئے واقعہ کی بنیاد پر احتجاجی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے حکومت کو حواس باختہ بنادیا۔ عوام میں مقبول خان صاحب جیسے رہ نما کو وہ ’’کلام پاک کی توہین کے خلا ف احتجاج سے روکنے‘‘ کا تاثر دینے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ بہتر تو یہی تھا کہ ان کے ساتھ مذاکرات کے بعد انہیں ’’پرامن احتجاج‘‘ کا بھرپور موقعہ فراہم کردیا جاتا۔معقولیت کی راہ اختیار کرنے کے بجائے حواس باختہ حکومت نے مگر فیصلہ یہ کیا کہ وہ ’’احتجاج‘‘ کو خان صاحب سے’’اچک‘‘ کر ’’اپنا‘‘ بنالے۔
جمعرات کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ آج پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بھی طلب کرلیا گیا ہے۔مجھے قوی امید ہے اس کے دوران سویڈن میں ہوئے واقعہ کی مذمت میں دھواں دھار تقاریر کے اختتام پر کوئی احتجاجی قرارداد متفقہ طورپر منظور کرلی جائے گی۔جمعہ کے روز حکومتی نمائندے مختلف شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالنے کے منصوبے بھی بنا رہے ہیں۔سوال اٹھتا ہے کہ اگر حکومت پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے علاوہ ریلیوں کی صورت بھی سویڈن میں ہوئے واقعہ کے بارے میں احتجاج کا حق رکھتی ہے تو عمران خان اور اس کی جماعت کو اس سے محروم کیوں رکھا جا ئے۔مذکورہ سوال کا تسلی بخش جواب بھی مگر اس سوال کا جواب فراہم نہیں کر پائے گا جو ایسی مؤثر حکمت عملی کے بارے میں ہے جو یورپ میں مقیم اسلام دشمن جنونیوں کو ہمارے دین کی توہین سے باز رکھنے میں مدد گار ثابت ہوسکے۔
(بشکریہ نوائے وقت)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر