نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اس خواہش سے تاریخ کا مطالعہ ہرگز نہیں کرتا کہ وہاں سے کوئی ”سنہری عہد“ یا ”ہیرو“ تلاش کرنے کے بعد آ پ کو قائل کرنا شروع ہوجاﺅں کہ ہمیں ویسے ہی ”ہیرو“ کی ضرورت ہے جو ”عہد زریں“ کا احیا کرسکے۔ شاید یہ بات میرے قارئین کی اکثریت کو بہت ناگوار سنائی دے گی۔ یہ اصرار کرنے سے مگر باز نہیں رہ سکتا کہ ”عہد زریں“ محض ایک فسانہ ہے۔دور کا ڈھول ہے۔ دورِ حاضر کی مشکلات سے گھبرائے جی کو بہلانے کا اگرچہ سبب ہو سکتا ہے۔
”عہد زریں“ کی میری دانست میں عدم موجودگی اس امر کو بھی ہرگز جائز نہیں بناتی کہ ہم تاریخ کے بارے میں لکھی کتابوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں۔”عہد زریں“ دریافت نہ کرسکنے کے باوجود مصر رہوں گا کہ مستقبل کی بابت درست اندازے لگانے کے لئے تاریخ کا تنقیدی جائزہ از حد ضروری ہے۔سادہ زبان میں یوں سمجھ لیں کہ تاریخ کسی مصروف شاہراہ پرگاڑی چلاتے ہوئے اس شیشے کی مانند آپ کی رہ نمائی کرتی ہے جس کے ذریعے آپ پیچھے سے آئی ٹریفک کی را ہ میں آکر حادثے سے دو چار نہیں ہوتے۔ مثال کے طورپر ہمارے ہاں اپریل 2022 میں سابقہ حکومت کی تحریک عدم اعتماد کے ہاتھوں فراغت کے بعد آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں بھی ”خلفشار“ نمایاں ہوا۔ کئی اعتبار سے وہاں پھیلی ابتری نے ہمارے ریاستی نظام کو ہلا دیا۔ اس تناظر میں سب سے زیادہ مشکلات ریاست کے اہم ترین ستون یعنی سپریم کورٹ کا مقدر ہوئیں۔
کرکٹ کی بدولت کرشمہ ساز تصور ہوئے صاحب جب سیاست میں داخل ہوئے تو بتدریج ایک ”دیدہ ور“ کی طرح ہماری رہ نمائی فرمانا شروع ہو گئے۔ پنجاب میں ان کی جماعت کو واضح اکثریت میسر نہ ہوئی۔وہ صوبہ قابو میں رکھنے کے لئے چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی کی بنائی اور چلائی مسلم لیگ (ق) سے رجوع کرنا پڑا۔”سیم بیچ“ والوں نے مذکورہ بندوبست کی راہ 2018 کے انتخابات سے قبل ہی بنادی تھی۔ گجرات کی نسبت سے مشہور ہوئے چودھری خاندان کے لئے چکوال کے نواحی تلہ گنگ سے بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ”سیف حلقے“ڈھونڈ لئے گئے تھے۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ اگر تحریک انصاف اپنے ہاں سے پنجاب جیسے اہم ترین صوبے کے لئے مناسب وزیر اعلیٰ ڈھونڈ نہیں پائی تھی تو پرویز الٰہی کو مذکورہ عہدے پر نامزد کردیتی۔ موصوف 2002 سے 2007 تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے تھے۔ نواز شریف کے ادوار میں اہم وزارتوں پر فائز بھی رہے۔ وہ اپنے سیاسی اور انتظامی تجربے کی بدولت پنجاب کو نسبتاََ مناسب ”گورننس“ فراہم کرسکتے تھے۔ ہمارے ملک کا مگر یہ المیہ رہا ہے کہ وزیر اعظم کے منصب پر بیٹھا مقبول ترین سیاستدان بھی پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر کسی ”تگڑے“ آدمی کا بیٹھنا دل سے قبول نہیں کرتا۔وہ اس خطرے میں مبتلا رہتا ہے کہ اگر پنجاب کا وزیر اعلیٰ اپنے اقتدار کے دوران کوئی ”جلوہ“ دکھا گیا تو بالآخر وزیر اعظم کا حتمی حریف بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسے طاقت ور اور مقبول ترین وزیر اعظم بھی اپنی ہی جماعت کے غلام مصطفےٰ کھر، ملک معراج خالد اور حنیف رامے کو زیادہ دیر تک پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر برداشت نہیں کر پائے تھے۔ بالآخر صادق حسین قریشی جیسے ”وضع دار“ کے ساتھ کئی برس گزارتے رہے۔ نواز شریف کی پہلی حکومت کے دوران غلام حیدر وائیں کافی جی حضوری وزیر اعلیٰ تھے۔اس کے باوجود 1997 کے بعد جب بھی موقع ملا تو انہوں نے پنجاب اپنے برادر عزیز شہباز شریف کے سپرد رکھنے کو ترجیح دی۔ ”تبدیلی“ کے نام پر آئے وزیر اعظم بھی مذکورہ ”بدعت“ سے محفوظ نہ رہ پائے۔ وقت آیا تو تونسہ شریف سے ابھرے ایک نسبتاََ گمنام اور قطعی ناتجربہ کار عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ نامزد کردیا۔ اتفاق سے موصوف کی نامزدگی کے بعد مجھے پیشہ وارانہ مصروفیات کی وجہ سے مسلسل تین ماہ تک ہر ہفتے دوراتوں اورتین دن کے لئے لاہور جانا ہوتا تھا۔ اس سفر کے دوران عام افراد سے گفتگو ہوتی تو وہ ”دیدہ ور“ کے پرستار ہونے کے باوجود بزدار صاحب کی وزارت اعلیٰ کو ”براحال ہویا پنجاب دا“ کا مجسم اظہار قرار دیتے رہے۔
جو خیالات میں گلیوں اور بازاروں میں عام افراد سے سنتا رہا ان کی بھنک یقینا ’سیم پیج“ والوں تک بھی پہنچی ہوگی۔ 2018 سے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کو مشہور صحافیوں سے ”گپ شپ“ لگانے کا بہت شوق تھا۔ غیر معروف قلم گھسیٹ ہونے کی وجہ سے مجھے ان کی کسی بھی محفل میں بیٹھنے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی۔ خوش قسمتی سے مگر ان کی محفلوں میں اکثر موجود صحافی بھائیوں جیسے عزیز ترین دوست بھی تھے۔میرے ساتھ ملاقاتوں میں ”وہاں“ ہوئی گفتگو کو چسکے لے کر بتا دیتے۔ مذکورہ ملاقاتوں کی بنیاد پر ان کی اکثریت اصرار کرتی رہی کہ سابق آرمی چیف بزدار کے اندازِ حکومت کے بارے میں بہت نالاں محسوس کررہے ہیں۔ اس ضمن میں اپنے جذبات وزیر اعظم تک بھی پہنچا رہے ہیں۔
اپنے دوستوں سے میں التجا کرتا رہا کہ اپنی تاریخ کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں عثمان بزدار کی پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے برطرفی کی توقع نہیں باندھ رہا۔ سابق وزیر اعظم کے لئے وہ ”سیف کارندے“ ہیں۔ان کے ہوتے ہوئے پنجاب کے معاملات وزیر اعظم سیکرٹریٹ اسلام آباد سے بآسانی چلائے جاسکتے ہیں۔ان کی جگہ کوئی اور آیا تو جلد یا بدیر تھوڑی ”خودمختاری“ دکھانے کو مچل جائے گا۔ یہ کہتے ہوئے کمینے دل کو خوشی ہو رہی ہے کہ میں درست ثابت ہوا۔سابق وزیر اعظم نے بلکہ بزدار صاحب کو ”وسیم اکرم پلس“ کا لقب دے دیا۔
”وسیم اکرم پلس“ کا لقب ایجاد کرنے کے پیچھے بھی ایک کہانی تھی۔ لوگ کہتے ہیں کہ قمر جاوید باجوہ طالب علمی کے زمانے ہی سے کرکٹ کے بہت گرویدہ ہو گئے تھے۔ فوج میں شامل ہونے کے بعد بھی اس کھیل سے رغبت جاری رکھی۔ صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی ملاقاتوں میں وہ اکثر یاد دلاتے کہ سابق وزیر اعظم جب پاکستان الیون کے طاقت ور کپتان تھے تو منصور اختر نامی کسی کھلاڑی کو ہر صورت میدان میں اتارتے رہے۔ وہ اگرچہ ”چل“ نہ سکا۔ بزدار صاحب کو چونکہ باجوہ صاحب منصور اختر پکارتے تھے لہٰذا شاید انہیں چڑانے کے لئے سابق وزیر اعظم نے ”وسیم اکرم پلس“ والی تشبیہ ایجاد کرنے کے بعد اسے تکرار سے دہرانا شروع کر دیا۔
اپریل 2022 کے بعد ”وسیم اکرم پلس“ مگر اپنے تئیں پنجاب سنبھال نہیں سکتے تھے۔ دریں اثناءمسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی نے پرویز الٰہی کی منت سماجت شروع کردی تھی۔اس سے گھبراکر بالآخر تحریک انصاف کو اپنی اکثریت پرویز الٰہی کے دس ووٹوں کے حوالے کرنا پڑی۔ انہیں مذکورہ عہدے پر برقرار رکھنے کے لئے سپریم کورٹ کی توقیر کوبھی آرٹیکل 63-A کی ”تشریح“ کے حوالے سے کافی زک پہنچی۔پرویز الٰہی کی نامزدگی اور اس کی بدولت سپریم کورٹ کے رویے پر اٹھے سوالات کے بعد سیاسی اعتبار سے لازمی ہو گیا تھا کہ پنجاب حکومت کواب اس کی آئینی مدت مکمل ہونے تک ہر صورت برقرار رکھا جائے۔ ”سیاست“ مگر ”دیدہ ور“ کو مطلوب ومقصود نہ تھی۔ پرویز الٰہی کو اسمبلی تحلیل کرنے پر مجبور کردیا گیا اور اب ہم اندھی گلی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ تاریخ اور حال پر اسی باعث نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔
(بشکریہ نوائے وقت)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر