نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

“خرچے” کے بعد حاصل ہوئے نتائج ۔۔۔ || نصرت جاوید

کاش ان کا ادا کردہ فقرہ میں من وعن دہراسکتا۔ فقط یہ عرض کروں گا کہ اس فقرے میں بہت ”خرچے“کے بعد حاصل ہوئے نتائج کا ذکر تھا۔ جالب صاحب کی دانست میں بے شمار کتابیں ”خرچ“ کر دینے کے باوجود زاہد ڈار صاحب مطلوبہ ”تخلیقی نتائج“ فراہم نہیں کر پائے ہیں۔اپنی بات پر زور دینے کے لئے انہوں نے ایک ریاستی ادارے کا نام لیا۔ میں وہ نام دہراﺅں گا نہیں وگرنہ ایک دو دن بعد ٹی وی کیمروں کے روبرو یا اپنے ٹویٹر اکاﺅنٹ کے ذریعے پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کرتا سنائی دوں گا۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی نہ کسی وجہ سے مشہور ہوئے چند افراد کی بابت منیر نیازی صاحب کے ادا کردہ طنزیہ فقرے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زبان زد عام ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ ”جگت“ لاہور کی تہذیب کا نمایاں حصہ رہی ہے۔ادیبوں اور شاعروں نے اس صنف کومعاصرانہ چشمک کیلئے استعمال کرتے ہوئے اپنے تئیں ایک لطیف ہنر بنا دیا۔ سعادت حسن منٹو نے اس ہنر کو بھرپور انداز میں بروئے کار لاتے ہوئے اپنے دور کے بڑے ناموں کے ”خاکے“ لکھے۔ انہیں کتابی شکل میں جمع کیا تو ”گنجے فرشتے“ کا حیران کن عنوان دیا۔ ان خاکوں میں کئی ایسے فقرے ہیں جو آج بھی منٹو کی یاد میں پڑھتا ہوں تو ہاتھ سے کتاب چھوٹ جاتی ہے۔ گھنٹوں یہ دریافت کرنے میں گزرجاتے ہیں کہ منٹو صاحب ایسا کاٹ دار فقرہ کیسے سوچ پائے۔

کاٹ دار فقرے کی بات چلی ہے تو بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ میری نوجوانی میں ”عوامی اور دیوانے“ مشہور ہوئے شاعر -حبیب جالب- بھی کمال کے فقرہ باز تھے۔ ان کے ادا کردہ فقرے مگر منیرنیازی کے ادا کئے فقروں کی طرح کالم نگاروں کی جانب سے مناسب انداز میں ریکارڈپر نہیں آئے۔ جالب صاحب کی چاکری اور چمچہ گیری کی نعمت مجھے بھی میسر رہی ہے۔ اکثر جی چاہتا ہے کہ ان کے ادا کردہ چند برجستہ کلمات کو سیاق و سباق میں رکھ کر لوگوں کے روبرو لاﺅں۔ سیاسی رپورٹر سے دیہاڑی لگانے والے کالم نگار ہوئے اس بے ہنر سے قاری مگر ”حالاتِ حاضرہ“ پر تبصرہ آرائی کا تقاضا کرتے ہیں۔ عمران خان اور ان کی جماعت اس وقت ”حالاتِ حاضرہ“ پر چھائی ہوئی ہے۔ان کی حمایت یا مخالفت میں ڈٹ کر لکھو تو سوشل میڈیا پر بھی رونق لگ جاتی ہے۔میرا سست اور کند ذہن اس ”سہولت“ سے فائدہ اٹھانے کو مائل رہتا ہے۔ ایسے عالم میں کیا ضرورت ہے کہ ذہن پر زور ڈال کر وہ تمام واقعات یاد کروں جن کے دوران جالب صاحب کی زبان سے کاٹ دار فقرے ادا ہوئے تھے۔

اپنی کاہلی کے اعتراف کے بعد انکشاف یہ کرنا چاہ رہا ہوں کہ گزشتہ چند ہفتوں سے میں اپنے اندازِ صحافت کی بابت سنجیدگی سے سوالات اٹھانا شروع ہو گیا ہوں۔ میرے لئے مختص کمرے میں میری مہربان بیوی نے بہت چاہ سے کتابوں کو کرم خوردہ ہونے سے بچانے کے لئے ہماری بساط سے بڑھ کر رقم خرچ کر کے چند شیلف بنواکر وہاں رکھوائے ہیں۔ ان پر نگاہ ڈالتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے۔ اس دکھ میں مبتلا ہو جاتا ہوں کہ کتابوں سے لدے ان شیلفوں سے عرصہ ہوا رجوع کرنا چھوڑ رکھا ہے۔ یہ کالم لکھنے اور اسے دفتر بھجوا دینے کے بعد گھر میں آئے اخبارات کا پلندہ ختم کرتا ہوں۔ اس کے بعد دوپہر کا کھانا پھر قیلولہ اور بعدازاں رات گئے تک ٹویٹر اور فیس بک سے چھیڑخانی۔

دریں اثناء ہمارے ”آزاد“ میڈیا کو عمران حکومت کے خاتمے کے بعد اچانک یاد آ گیا ہے کہ نصرت جاوید نام کا ایک اینکر بھی ہوا کرتا تھا۔ میں یاد آ گیا تو مختلف ٹی وی شوز میں شرکت کی دعوت بھی ملنا شروع ہوگئی۔ میرے چھوٹے بھائیوں جیسا دوست محمد مالک تاہم عمران حکومت کے دوران بھی نہیں بھولا تھا کہ میں 2007 سے 2018 تک ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوتا رہا ہوں۔ اکثر مجھے اپنے پروگرام میں شمولیت کو اکساتا رہا۔ میں اس کی بے روزگاری کا سبب بننے کو تاہم آمادہ نہ ہوا۔ عمران حکومت رخصت ہوگئی تو اس کے شوز میں جانا شروع ہو گیا۔ مالک کے بعد طلعت حسین بھی مین سٹریم ٹی وی پر لوٹے تو مجھے اپنے پروگراموں میں مدعو کرنا شروع ہو گئے۔

میں پرنٹ جرنلزم سے ٹی وی صحافت کی جانب کبھی منتقل ہونا ہی نہیں چاہتا تھا۔ سید طلعت حسین اور مشتاق منہاس نے بہت مہارت سے بالآخر مجھے اس جانب مائل کیا اور میں 2007 میں ”آج“ ٹی وی کے لئے ”بولتا پاکستان“ کے عنوان سے ایک پروگرام کا میزبان ہو گیا۔ ”ایمرجنسی پلس“ لگاتے ہوئے جنرل مشرف نے اس پروگرام کو بھی سکرین سے غائب کرنا لازمی تصور کیا۔ بہرحال پرانے تعلق کی خاطر طلعت حسین کے شوز میں بھی اکثر چلا جاتا ہوں۔

طلعت حسین کی طرح میری ایک دیرینہ ساتھی نسیم زہرہ بھی ہیں۔وہ ہمارے گھر کے فرد کی مانند ہیں۔ اس کے شو میں شرکت سے انکار میرے لئے انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ بھی کم از کم دو افراد ہیں جو اپنے ٹی وی شو میں تبصرہ آرائی کے لئے بلائیں تو میں اسے اپنے لئے عزت افزائی محسوس کرتا ہوں۔ اگرچہ ان دونوں سے میرے ذاتی مراسم شناسائی تک محدود ہیں۔

جو تمہید باندھی ہے اس کا مقصد دیانتداری سے اعتراف کرنا ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے ٹی وی کیمروں کے روبرو ”سنجیدہ دانشور“ دکھنے کے بجائے پھکڑپن پر اترآتا ہوں۔ میرے پھکڑپن کا کوئی مخصوص نشانہ نہیں ہوتا۔ سیاق وسباق اس کے رخ کا تعین کردیتے ہیں۔مثال کے طورپر موجودہ حکومت کو تواتر سے میں ”بھان متی کا کنبہ“ پکارتا ہوں۔ حکومت اور ان کے حامیوں کی ڈھیٹ ہڈی مگر میری فقرہ بازی کو برداشت کرلیتی ہے۔تحریک انصاف والے مگر معاف کرنے کو آمادہ نہیں ہوتے۔ان کے محبوب رہ نماﺅں کے بارے میں کوئی طنزیہ فقرہ ادا کروں تو مجھے ”بدکار“ ثابت کرنے کو فیس بک کھنگالتے ہوئے ایسی تصاویر وائرل کردیتے ہیں جنہیں دیکھتا ہوں تو بڑی حسرت سے دل میں سوال اٹھتا ہے ”کس زمانے کی بات کرتے ہو؟دل جلانے کی بات کرتے ہوئے؟“۔ چند عاشقان عمران نے اب میری ”گنا ہ آلود“ زندگی کی بابت حال ہی میں ایک مختصر دورانیہ کی ”ڈاکومینٹری“ بھی تیار کر دی ہے۔ اکثر جی چاہتا ہے کہ اسے اپنے ٹویٹر اور فیس بک اکاﺅنٹ پر روزانہ پوسٹ کرتے ہوئے وائرل بنانے کی کوشش کروں۔ عمر کے آخری حصے میں ”بدنام“ ہونے کا لطف اپنے تئیں مزے دار ہے۔

یہ سب لکھنے کے باوجود حقیقت مگر یہ ہے کہ اپنے کمرے میں تنہا بیٹھے ہوئے چاروں طرف لگی کتابیں دیکھتا ہوں تو شرم آتی ہے۔ خیال آتا ہے کہ ان تمام کتابوں سے میرے ذہن نے جو بھی کشید کیا وہ اس کالم یا میری ٹی وی شوز میں شرکت کی بدولت نئی نسل کے سپرد کیوں نہیں ہورہا۔خاندانی حکیموں کی طرح میرے پاس دانش کے حوالے سے کوئی ”مجرب نسخہ“ موجود نہیں ہے۔کتابوں نے مگر کچھ سکھایا ہے۔ جو سیکھا ہے اسے خلق خدا میں بانٹنا چاہیے۔اس ضمن میں ارادہ باندھ کر مگر روزانہ کی بنیاد پر توڑ دیتا ہوں۔ میرے لئے ثابت قدمی کی دعا کیجئے۔

یہ کالم ختم کرتے ہوئے یاد آیا کہ اس کے آغاز میں حبیب جالب صاحب کی فقرہ بازی کا ذکر بھی ہوا تھا۔ اس تناظر میں انہوں نے زاہد ڈار صاحب کے بارے میں بھی ایک کاٹ دار فقرہ ادا کررکھا ہے۔ڈار صاحب شاعر تھے مگربسیار نویس نہیں تھے۔لکھنے سے کہیں زیادہ انہیں پڑھنے کا شوق تھا۔ پاک ٹی ہاﺅس لاہور میں اپنے لئے مختص میز پر کئی کتابیں رکھ کر اکیلے بیٹھے انہیں پڑھنے میں گھنٹوں محو رہتے۔ وہ ایک روز اس عالم میں تھے کہ جالب صاحب میرے ہمراہ پاک ٹی ہاﺅس میں داخل ہوئے۔ اندرگھستے ہی ڈار صاحب سے مختص میز کی جانب تیزی سے لپکے۔ ان کے قریب آتے ہی ان کے ہاتھ میں موجود کتاب چھین لی اور بلند آواز میں کہا کہ…

کاش ان کا ادا کردہ فقرہ میں من وعن دہراسکتا۔ فقط یہ عرض کروں گا کہ اس فقرے میں بہت ”خرچے“کے بعد حاصل ہوئے نتائج کا ذکر تھا۔ جالب صاحب کی دانست میں بے شمار کتابیں ”خرچ“ کر دینے کے باوجود زاہد ڈار صاحب مطلوبہ ”تخلیقی نتائج“ فراہم نہیں کر پائے ہیں۔اپنی بات پر زور دینے کے لئے انہوں نے ایک ریاستی ادارے کا نام لیا۔ میں وہ نام دہراﺅں گا نہیں وگرنہ ایک دو دن بعد ٹی وی کیمروں کے روبرو یا اپنے ٹویٹر اکاﺅنٹ کے ذریعے پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کرتا سنائی دوں گا۔

۔

بشکریہ : نوائے وقت

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author