اظہرعباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(حصہ سوئم)
پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا ففتھ جنریشن وار فئیر کے نام پر سوشل میڈیا کی جنگ، دونوں میں جو ایندھن بنی وہ اس بدقسمت ملک کی نوجوان نسل تھی۔ جس نسل کو اس ملک کی ہیومن ریسورس میں شامل ہو کر ویلیو ایڈیشن کرنی تھی اسے سوشل میڈیا کی جنگ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
نائن الیون کے بعد ابتدا میں ففتھ جنریشن وارفئیر صرف ایک پراجیکٹ تھا جس کا مقصد نوجوان نسل کو دہشت گردی کے عفریت سے بچانا اور اسے ایک سمت دینا تھا نیز سوشل میڈیا سے جاری نفسیاتی وار فئیر کا توڑ کرنا اور اس کا جواب دینا بھی اس کے اغراض و مقاصد میں شامل تھا۔ مختلف یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل قابل نوجوان آئی ٹی، نفسیات، بزنس غرضیکہ ہر شعبہ کے ماہرین لئے گئے۔ اس دور میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ہمارے حلیف بھی مدد کیلئے اپنی خدمات سمیت حاضر تھے۔ لیکن بدقسمتی سے رفتہ رفتہ اس کی سمت تبدیل ہوتی گئی۔ 2011 کے بعد اس کی سرگرمیوں کی نوعیت یکدم بدل گئی اور اسے مقامی سیاسی مہمات کیلئے استعمال کیا جانے لگا۔ اس دور میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے مقابل ایک تیسری قوت لائی جائے۔ اسے کھڑا کرنے اور قوت بنانے میں اتنا تردد کیا گیا کہ جو اس قوت کے خالق تھے وہ بھی اس کے سحر میں مبتلا ہوتے چلے گئے۔ نوجوان نسل جو سوشل میڈیا کی نسل تھی اس کیلئے ایک دیوتا کھڑا کیا گیا جو اب ایک عفریت کی شکل میں ریاست کو کھڑا للکار رہا ہے۔
مزید ظلم یہ کیا گیا کہ اس پراجیکٹ کو پراجیکٹ عمران سے Synchronise کرتے کرتے اس کو خان صاحب کے سوشل میڈیا سیل کے لوگوں سے بھر دیا گیا۔ اور بالآخر جب پراجیکٹ عمران کو ترک کیا گیا تو نا صرف اس پراجیکٹ کو پی ٹی آئی نے مال غنیمت کی طرح سمیٹا بلکہ اسے مکمل طور پر خان صاحب کی امیج بلڈنگ پر لگایا۔ اس پر بے تحاشا فنڈز لگائے گئے بلکہ خان صاحب نے ملکی و غیر ملکی کمپنیاں تک ہائر کیں جو انہیں بیانیہ بنا کر دیتیں، ٹرینڈز بلکہ سلوگن تک بنا کر دیتیں۔ سائیکلوجیکل پروفائیلنگ برطانیہ کی کمپنیاں کرتیں۔ یہ ساری واردات میں اپنے سوشل میڈیا کی جنگ پر گذشتہ کالمز کی سیریز میں کر چکا ہوں۔
عامر ایچ قریشی ایک سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں۔ وہ اپنے ایک سلسلہ وار ٹویٹ میں لکھتے ہیں کہ "جوزف گوئبلز جرمنی کے سابق ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر کا پراپیگینڈہ وزیر تھا جس سے منسوب ہے کہ اس نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ "جھوٹ کو اگر بہت کثرت سے دہرائیں تو وہ سچ بن جاتا ہے”- اور اس نے نازی حکومت میں رہتے ہوئے ایسے ہی کیا اور بہت حد تک، چاہے کچھ عرصہ کے لیے ہی سہی، اس میں کامیاب بھی رہا-
جوزف گوئبلز سے جتنا بھی اختلاف کریں لیکن یہ بات سچ ہے کہ آمروں کو ہمیشہ ہی ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کا آرٹ جانتے ہوں یا کم از کم جھوٹ کو اتنی مرتبہ ضرور دہرائیں کہ لوگوں کو یہ سچ معلوم ہونے لگے-
چونکہ آمریت ہوتی ہی خلاف قانون ہے اسلئے حقائق کو چھپانا اور جھوٹ پھیلانا اسکی مجبوری ہوتی ہے-
ان کا خیال ہے کہ "پاکستان میں گوئبلز ڈاکٹرائن کو اسٹیبلشمنٹ نے کامیابی کیساتھ استعمال کیا-”
"ہائبرڈ حکومت کے دوران گوئبلز ڈاکٹرائن نے اپنا رنگ انتہائی بھرپور طریقے سے دکھا کر جھوٹ بولنے، حقائق چھپانے اور تاریخ کو مسخ کرنے کے گزشتہ تمام ریکارڈز توڑ ڈالے- میڈیا کو قابو کر کے جھوٹ بولنے کا لامتناہی اور عظیم ترین سلسلہ جاری ہوا-”
وہ مزید لکھتے ہیں کہ:
"اگرچہ قیام پاکستان سے لیکر عمران کی حکومت کے خاتمے تک ملک میں گوئبلز ڈاکٹرائن کی حقیقی وارث اور استاد اسٹیبلشمنٹ رہی لیکن بسا اوقات کوئی شاگرد اپنے اساتذہ سے آگے بھی نکل جاتا ہے- عمران کی سیاست کے گزشتہ 12 سالوں کا تجزیہ کریں تو اسکے ہزاروں جھوٹ، یوٹرنز، منافقت، وعدہ خلافیوں، الزامات اور ڈرامہ بازیوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ عمران خان نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر عہد حاضر کا جوزف گوئبلز ہے”
خان صاحب پاکستان کی ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے کرکٹ کپتان، ایک سیاسی نوخیز تھے، اور کرکٹ کے میدان سے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست کے سمندر میں ڈبکیاں لگا رہے تھے، جب تک حالات نے ان کے ابھرنے کے لیے دروازے نہیں کھولے۔ جنرل شجاع پاشا نے ان کا ہاتھ تھاما اور کھینچ کر قومی سطح پر لے آئے۔
2016 میں نواز شریف کی معزولی اور شہباز شریف کی طرف سے فوج کی لائن پر چلنے سے انکار کے بعد، عمران وزیر اعظم کے طور پر اگلا انتخاب بن گئے۔
انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کئے گئے ہر وعدے پر یو ٹرن لینے کے باوجود ایمانداری اور قابلیت کی تصویر بننے کے لئے بطور وزیر اعظم اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھایا۔ اپنے سوشل میڈیا کو استعمال کیا اور اپنی امیج بلڈنگ پر زور دیتے رہے
جب ان کی معاشی پالیسیاں تباہ ہونا شروع ہوئیں تو خان صاحب کو نااہل سمجھا گیا اور عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے انہیں باہر دھکیل دیا گیا، یہ راستہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اپنایا گیا تھا اور وہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بنے جو عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائے گئے۔
(جاری ہے)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر