اظہرعباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(حصہ دوم)
9 مئی ہوا ؟ بہت برا ہوا۔ لیکن کیا آپ نے سوچا کہ یہ کیوں ہوا ؟
گزشتہ کئی برسوں سے ہم ان سیاسی دہشت گردوں کے خلاف جہاد مسلسل کرتے رہے ہیں۔ مسلسل آگاہ کرتے رہے ہیں کہ جو فصل کئی دہائیاں پہلے سیاستدانوں کو بدنام کرنے سے کاشت کرنا شروع کی گئی تھی وہ اب بلآخر کٹنے کو تیار ہے کہ وہ بچہ جو اس وقت دس یا گیارہ برس کا تھا اور اس کے ذہن میں مسلسل زہر بھرا جا رہا تھا کہ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں بدعنوان ہیں، کرپشن کا ورد کرکے انہیں برین واش کر دیا گیا تھا، اب 22 سے 35 سال کا ہو چکا اور جب اس کا رخ آپ کی طرف موڑا گیا تو اس نے تہس نہس کرنے میں دیر نہیں لگائی۔
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ یہ کلٹ کیسے وجود میں آیا اور اس کی ریورس انجینئرنگ کر کے ان وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں جس کی وجہ سے مملکت، ریاست اور معاشرہ اس تباہی کا شکار ہوا۔
"کسی بھی قوم کی تقدیر، کسی بھی وقت، اس کے پانچ اور بیس سال سے کم عمر کے جوانوں کی رائے پر منحصر ہوتی ہے۔”
– گوئٹے۔
اگر گوئٹے کی بات درست ہے تو پاکستان کی تقدیر میں کیا مسئلہ ہے؟ ایک ریسوسز سے بھرپور ملک ہونے کے باوجود اس کی تقدیر مصیبتوں کے بھنور میں کیوں گھوم رہی ہے؟ اس کے 183 ملین افراد میں سے 63% نوجوان ہیں جو کہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔
پاکستان کو مزید تاریک دور کی طرف دھکیلنے کے پیچھے کیا وجوہات ہیں اور نوجوانوں کا کردار کیا ہے؟
جواب سادہ اور آسان ہے، لیکن اس کا حل، عملی لحاظ سے، پیچیدہ اور مشکل ہے۔
پاکستان اپنی آزادی کے بعد سے سماجی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی حقائق پر محیط کئی مسائل کے حوالے سے گہری کھائی میں پھنسا ہوا ہے۔ یہ دیوہیکل راکھشس نوجوانوں کے لیے چیلنج بن چکے ہیں۔ کچھ عناصر نے ان کو اس قدر پیچیدہ طریقے سے جوڑ دیا ہے کہ ملک کی خوشحالی کو برباد کرنے والے، لکڑی کو دیمک کی طرح ڈھانچے سے چمٹے اور کھانے والے ان عفریتوں سے چھٹکارا پانا بہت مشکل ہے۔
کمزور معاشی حالات، خراب تعلیم، غربت، روزگار اور ترقی کے کم مواقع، منفی مذہبی اور سیاسی اثر و رسوخ، امن و امان کی خراب صورتحال اور ناانصافیوں نے نوجوانوں کو بنیاد پرستی، انتہا پسندی، چائلڈ لیبر، جرائم، جہالت اور نفرت کی طرف مائل کیا ہے۔
پاکستان کی آزادی کے بعد سے نوجوان اپنے حقوق سے محروم ہیں۔ پاکستان کے دنیا کے نقشے پر ابھرنے کے وقت سے ہی حکومت، فوج اور عسکریت پسندوں نے ان کے سماجی، معاشی، شہری، سیاسی اور ثقافتی حقوق کو پامال کیا ہے۔ نوجوانوں کے سماجی و معاشی حقوق کو نظر انداز کیا جاتا ہے جس کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اسکولوں میں طلبہ کا داخلہ مدارس کے اندر طلبہ کی تعداد سے کم ہے اور چائلڈ لیبر بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
پاکستان میں تعلیم کو تین مختلف معیاروں میں تقسیم کیا گیا ہے: سرکاری ادارے، نجی ادارے، اور مدارس۔ زیادہ تر سرکاری اداروں میں تعلیم کا معیار تسلی بخش نہیں ہے۔ نصاب پرانا ہے اور اکثر غلط تاریخ پر مشتمل ہے، جس کے نتیجے میں نفرت کو فروغ ملتا ہے۔ جبکہ اکثر پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم جدید اور معیاری سرکاری سکولوں سے بہت بہتر ہے، ان کے اخراجات متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہیں۔ جہاں تک مدارس کا تعلق ہے، وہ ان طلباء کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں جو غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اسکول کے بھاری اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں پناہ گاہ، خوراک اور روزمرہ کے اخراجات فنڈ کرنے والے برداشت کرتے ہیں، جن میں سے بہت سے مشکوک یا نقصان دہ عزائم رکھتے ہیں۔ ماضی میں یہ مدارس انتہا پسند اور جنونی پیدا کرنے میں ملوث رہے ہیں، جن میں سے بعض کو خودکش بمبار کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
دوسری جانب پاکستان میں بہت سے بچے مزدوری پر مجبور ہیں۔ چائلڈ لیبر کے خاتمے کے بین الاقوامی پروگرام (IPEC) کے مطابق پاکستان میں اس عمر کے 40 ملین بچوں میں سے 5 سے 14 سال کی عمر کے 3.8 ملین بچے کام کر رہے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کا مستقبل معیارات کی چکی میں پس رہا ہے۔
نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو مناسب معیار زندگی کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ زیادہ تر خاندان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں اپنی بنیادی ضروریات تک رسائی نہیں ہے۔ ان کے پاس نہ تو کھانے کے لیے کافی خوراک ہے اور نہ ہی اتنے کپڑے جو انھیں انتہا پسند عناصر سے بچا سکیں۔ انہیں صحت کی کوئی سہولت میسر نہیں۔ بے روزگاری اور ناخواندگی کی وجہ سے نوجوان منشیات اور جرائم کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ ناکافی خوراک کی وجہ سے وہ غذائی قلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ قبول شدہ معیار زندگی کی حدود سے باہر رہنے والے نوجوانوں کے ساتھ نسل، جنس اور معذوری کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ غربت، بے روزگاری اور ناخواندگی کا یہ سارا کھیل انہیں غیر قانونی سرگرمیوں کی طرف لے گیا ہے۔ عسکریت پسند اور سیاست دان اس غربت اور بے بسی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
پاکستان کا یہ سب سے قیمتی اثاثہ گمراہ کن بھنور میں پھنس چکا ہے۔ نوجوانوں کو غیر اہم باتوں پر اپنی توانائیاں ضائع کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ نوجوان سوشل میڈیا پر سیاسی، عسکری اور مذہبی جماعتوں کو پروموٹ کرتے ہیں اور وہ بہت متحرک ہیں۔ یہ اس لیے ہو رہا ہے کہ معاشرے میں ان کی برین واشنگ کی جا رہی ہے جو نوجوانوں کو نوجوانوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، نفرت کے مواد کو فروغ دے رہے ہیں تاکہ دوسرے نوجوانوں کو بھی جمہوری اور پرامن نظریات کے خلاف متحد ہونے کے لیے برین واش کر سکیں۔
پاکستانی عوام اپنے مذہب کے تئیں جذباتی ہیں۔ اسلام کے نام پر بھی یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے اور کوئی اس کو چیلنج کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ اس کھیل کے سنگین نتائج آنے والے ہیں۔ ریاست نوجوانوں کے ساتھ مخلص نہیں اور جوانوں کی توانائیاں منفی چیزوں پر منتشر ہو رہی ہیں۔
ملک کی تقدیر نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ اگر نوجوان معاشرے کی بہتری کے لیے اپنی توانائیاں لگانے کے قابل ہو جائیں تو ہم ایک خوبصورت پاکستان تلاش کر لیں گے۔ تاہم اس وقت پاکستان کے نوجوانوں کو سمجھنا ہوگا کہ ملک کی بہتری کس میں ہے۔ ہمارے اصل دشمن بھوک اور مہنگائی ہیں اور ہمارا اصل ہتھیار حقیقی خوشحالی کے لیے تعلیم ہے۔ ہماری لڑائی ان دشمنوں کے خلاف ہے جو نفرت کو ہوا دیتے ہیں، ہماری لڑائی انہیں سے ہونی چاہیے۔ ہم اپنی توانائیاں مثبت چیزوں پر لگائے بغیر اچھے نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔
یہاں میں اپنے پرانے کالم کا ایک پیرا گراف پیش کرنا چاہوں گا جو اس تمام بحث کا نچوڑ ہے:
جس طرح اس ملک میں اشرافیہ، عام عوام اور غریب عوام کی کلاس ابھر کر سامنے آ رہی ہے جلد اس کا نتیجہ سامنے آنے والا ہے- اس ملک میں ایک لا وارث نسل بھی تیار ہو رہی ہے جس کی نا تربیت کی گئی ہے نا یہ تعلیم و دین کے نام سے واقف ہے اور یہ ایک سروے کے مطابق 6% ہے۔ یہی 6% آپ کو ہر اخلاقی برائی اور سانحے کی ذمہ دار نظر آئے گی۔
یہ ملک بہت تیزی کے ساتھ ایک معاشرتی بحران کیطرف جا رہا ہے اور اس کے ذمہ دار آپ میں اور یہ معاشرہ ہے۔
(جاری ہے)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر