نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدھ کی سہ پہر سے آڈیو لیکس کا لامتناعی سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ مقصد اس کا عام پاکستانیوں کو باور کروانا ہے کہ عمران خان کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد کور کمانڈر لاہور سے مختص ’جناح ہاﺅس‘ پر مشتعل ہجوم کا دھاوا ہرگز ’برجستہ‘ نہیں تھا۔ تحریک انصاف کی مقامی قیادت اسے اکسانے اور بھڑکانے میں بھرپور حد تک ملوث تھی۔ مذکورہ لیکس کے بعد افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے کی جانب سے ایک بیان جاری ہوا۔ اس کے الفاظ اور لہجہ غیر معمولی حد تک تلخ اور انتباہی تھے۔
ایم کیو ایم کے مقابلے میں تحریک نصاف مگر ایک ملک گیر جماعت ہے۔ اس کے بانی عمران خان ایم کیو ایم کے قائد کی طرح بیرون ملک مقیم نہیں۔ان کی جماعت ’بھتہ خوری او ربوری بند لاشوں‘کی وجہ سے ’بدنام‘ بھی نہیں ہوئی۔ سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال کی بدولت اس نے 18 سے 35 سال کی عمر والے نوجوانوں کے جذبات خوب بھڑکائے ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کی ایک کماحقہ تعداد بھی عمران خان کو ’چور اور لٹیروں‘ سے جدا ایک ’ایمان دار‘ سیاستدان سمجھتی ہے۔ ان کی وجاہت کرشمہ اور درویشی کو سراہتی ہے۔ ایسی جماعت کو ’ایم کیو ایم‘ بنانا بہت دشوار ہو گا۔
عمران خان کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد کور کمانڈر لاہور سے مختص عمارت پر جو حملہ ہوا اس سے متعلقہ آڈیو لیکس یہ عندیہ دے رہی ہیں کہ تحریک انصاف کے خلاف ایسے شواہد جمع کیے جارہے ہیں جو مذکورہ جماعت کو ’افواجِ پاکستان کا دانستہ دشمن‘ ثابت کریں۔ ان کی بنیاد پر اس جماعت کے خلاف بھی ایسا ہی ریفرنس تیار ہوسکتا ہے جو نیشنل عوامی پارٹی کو ’کالعدم‘ ٹھہرانے کا سبب ہوا تھا۔
ریاستی حکمت عملی سے قطعی بے خبر ہوتے ہوئے محض اپنے تجربے کی بنیاد پراندازے لگا رہا ہوں جو بالآخر غلط بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ بدھ کی صبح اٹھ کر مگر جو کالم لکھا تھا اس کے اختتام پر سابق وزیر اعظم کی گرفتاری کے بعد ہوئی ہنگامہ آرائی مجھے برجستہ نہیں ’پرکار‘ محسوس ہوئی تھی۔ وہ کالم دفتر بھجوادینے کے کئی گھنٹوں بعد آڈیو لیکس کا سلسلہ شروع ہوا جو میرے خدشات کی تصدیق تھا۔ مذکورہ لیکس کے بعد تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی ،اسد عمر اور فواد چودھری بھی گرفتار کرلیے گئے۔ عمران خان سے ’القادر ٹرسٹ‘ کی بابت سوالات اٹھانے کے لیے عدالت نے انھیں آٹھ دنوں کے لیے نیب کی تحویل میں دے دیا ہے۔
ملک بھر سے سینکڑوں نوجوان ہنگامہ آرائی اور کارسرکار میں مداخلت جیسے الزامات کے تحت گرفتار ہو چکے ہیں۔لاہور کے ’جناح ہاﺅس‘ پر ہوئے حملے کے ذمہ داروں کی نشاندہی اور گرفتاریوں کے بعد تاہم ان کے خلاف ’دہشت گردی‘ کے سنگین الزامات کے تحت مقدمات نہ صرف تیار ہوں گے بلکہ ریاست پوری شدت اور قوت سے ان کی پیروی کرے گی۔ ایسے الزامات کے تحت ’عبرت کا نشان‘ بنائے نوجوان ویسے ہی کڑے حالات سے دوچار ہوں گے جن کا سامنا جنرل ضیاءکے لگائے مارشل کے دوران پیپلز پارٹی کے کئی جیالوں کو کرنا پڑا تھا۔ ’ہم جو تاریک راہوں میں ….‘ والی فضا۔
انجام جو بھی ہو۔ 9 مئی کے دن سے رونما ہونے والے واقعات عندیہ دے رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات اب شاید بروقت نہ ہو پائیں گے۔ ان کے انعقاد سے قبل ہماری ریاست کے اصل کرتا دھرتا اس امر کو یقینی بنانا چاہیں گے کہ تحریک انصاف منتشر اور کمزور سے کمزور تر ہو جائے۔ مذکورہ ہدف کے حصول کے لیے ہماری ریاست ہر حربہ استعمال کرنا جائز شمار کرے گی۔
تحریک انصاف کے مستقبل کے بارے میں جو خدشات میرے دل ودماغ میں وسوسوں کی طرح امڈتے چلے جا رہے ہیں ان کی شدت سے گھبرا کر حیران ہورہا ہوں کہ عمران خان نے ان مذاکرات کو ’ویٹو‘ کیوں کر دیا جو حکومت کے ساتھ ہو رہے تھے۔ وہ ذرائع جن کی بتائی بات پر ہمیشہ اعتماد کرتا ہوں مجھ سے ’آف دی ریکارڈ‘ رابطوں کے دوران اعتراف کرتے رہے کہ مذکورہ مذاکرات کے دوران حکومت اس بات پر رضا مند ہو گئی تھی کہ آئندہ مالیاتی سال کا بجٹ منظور کروانے کے چند ہی روز بعد جولائی 2023ء کے پہلے دس دنوں کے دوران قومی اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کر دیا جائے گا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات یوں ’ایک ہی دن‘ رواں برس کے اکتوبر سے قبل منعقد ہو سکتے تھے۔
ایک مناسب ’آفر‘ کو رعونت سے دھتکارنے کے بعد عمران خان نے حکومت و ریاست کو ان کی گرفتاری کے لیے گویا ’مجبور‘ کر دیا۔ گرفتاری ہو گئی تو اس کے ردعمل میں عاشقان عمران کی دکھائی ’برجستگی‘ نے ان کی سیاست کے لیے نئی مشکلات کھڑی کردیں۔ کاش وہ جولائی میں قومی اسمبلی کی تحلیل کے وعدے پر اعتبار کر لیتے اور ہمارے ہاں جھوٹی سچی ’جمہوریت‘ کا ڈھونگ جاری رہتا۔ ان کی جانب سے اپنائی ضد وطن عزیز کو ایک بار پھر اس مقام پر لوٹا رہی ہے جہاں سے ہم کئی بار گزر چکے ہیں۔ دائروں میں ہوتا سفر اذیت ناک حد تک جاری ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر