مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

طارق فتح ردعمل کا شکار نہیں تھے، ان کی ذات ردعمل تھی ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد وقاص گورایا سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ چند ایک بار فون پر گفتگو کی ہے۔ ہر بار میں نے شکوہ کیا کہ فوج پر تنقید میں بھی کرتا ہوں، دوسرے بھی کرتے ہیں لیکن آپ حد سے گزر جاتے ہیں۔ فاؤل لینگویج استعمال کرتے ہیں۔ گورایا کا موقف ہے کہ ایجنسیوں کو یہی زبان سمجھ آتی ہے۔ پیار سے بات سمجھتے تو نوبت یہاں تک آتی؟
نوبت کہاں پہنچ چکی ہے، اس کی وضاحت ضروری نہیں۔ یوتھیا بریگیڈ کی زبان سن لیں۔
آپ سلمان حیدر کو جانتے ہوں گے۔ شاعر ہیں۔ تھیٹر کا شوق ہے۔ نرم لہجے میں میٹھی باتیں کرتے ہیں۔ پاکستان میں تھے تو یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ ایجنسی نے گورایا کو اٹھایا تو انھیں بھی اغوا کرلیا۔ شریف آدمی کے لیے ذہنی تشدد کافی ہوتا ہے۔ ان پر جسمانی تشدد کیا، اور ایسے کہ جیسے چھٹے ہوئے بدمعاش پر کیا جاتا ہے۔
سلمان بھائی پر ظلم، توہین مذہب کے جھوٹے الزامات اور جلاوطنی کی کہانی سن کر گورایا کی بات ٹھیک لگتی ہے۔
آج طارق فتح کا انتقال ہوا ہے۔ پاکستان میں ان کی تعریف کرنے والے کم ہیں۔ مذہبی تو خیر خفا تھے، ریشنلسٹ بھی ان کی خامیاں بیان کررہے ہیں۔ مجھے بھی یہ کہنے میں ہچکچاہٹ نہیں کہ وہ کوئی آئیڈیل شخص نہیں تھے۔ ذہین تھے، لکھنا بولنا جانتے تھے، درست غلط کی تمیز تھی لیکن توازن سے محروم تھے۔ پاکستان اور مذہب پر تنقید کرتے ہوئے ساری حدیں پار کرجاتے تھے۔
طارق فتح ردعمل کا شکار نہیں تھے، ان کی ذات ردعمل تھی۔ اگر پاکستان میں ڈاکٹر عبدالسلام اور ملالہ کو عزت دی جاتی، علی وزیر کو بولنے کی اجازت ہوتی، دلیل سے گفتگو کرنے والے حسین حقانی، پرویز ہودبھائی اور مبارک حیدر کی بات سن لی جاتی تو طارق فتح کی کیا اہمیت رہ جاتی؟
پاکستان میں اختلافی آوازوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے؟ گلالئی کے والد پروفیسر اسماعیل بغیر جرم کے سیکڑوں پیشیاں بھگت چکے ہیں۔ عمر چیمہ اور مطیع اللہ جان اغوا کیے گئے اور احمد نورانی کو ملک چھوڑنا پڑا۔ ابصار عالم کے پیٹ میں گولی ماری گئی۔ شکر ہے کہ وہ بچ گئے۔ لیکن صحافی سلیم شہزاد اور ڈاکٹر حسن ظفر عارف خوش قسمت نہیں تھے۔ وہ قتل کیے گئے۔
جب نرم لہجے میں دلیل سے بات کرنے والوں کا یہ حشر ہوگا تو پھر ردعمل میں طارق فتح جیسے لوگ پیدا ہوں گے۔ ایک طارق فتح کا انتقال ہوا ہے۔ دس مزید آتے ہی ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: