اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

محبت کی بیماری؟۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا میں موسیقی اور آرٹ سے زیادہ مجرد کوئی چیز شاید ہی کوئی ہو۔ لیکن اُس کے بھی اصول و ضوابط موجود ہیں۔ مائیکل اینجلو نے کہا تھا کہ مجسمہ گری محض فالتو پتھر کو جھاڑ دینے کا نام ہے۔ موسیقی کے سُر، راگ، راگنیاں، ٹھاٹھ وغیرہ رائج ہیں، اور ہر تہذیب میں شناخت کیے گئے ہیں۔
لیکن ایک یہ محبت ہی اتنی اونتری کیوں ہے کہ اِس کا کوئی اصول نہیں؟ کیا اِس کی کوئی تعریف کی جا سکتی ہے؟
یورپ کے courtly love اور فارسی روایت کی مجازی/حقیقی روایت کے متعلق کافی کچھ لکھ سکتا ہوں جس کا یہ مقام نہیں۔ ایک سادہ ترین ممکنہ تعریف یہ ہے کہ: انسانی ذات کے خالص اور کھولتے ہوئے تولیدی جذبات انا کی چھاننی سے چھن کر معاشرتی ذات تک پہنچتے ہیں تو علامتی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ چنانچہ پرندوں میں جو علامت رنگوں کی شوخی کی شکل میں لبھاتی ہے، وہی انسانوں کی دنیا میں دیگر روپ اختیار کر لیتی ہے: کہیں گاڑی، کہیں رنگ، کہیں قد، کہیں بٹوا، اور کہیں حماقت۔
جب آپ محبت میں ’گرتے‘ ہیں تو آپ پر کئی قسم کی کیفیات طاری ہوتی ہیں: بھوک نہ لگنا، نیند نہ آنا، تکلیف کا احساس نہ رہنا، گرمی سردی برداشت کرنا، وغیرہ وغیرہ۔ ابن سینا نے اپنی کتاب الشفاء میں یا کسی اور جگہ پر محبت کو ایک مرض (disorder) کے طور پر بیان کیا ہے جو اُس کے مطابق شدید ڈپریشن جیسا ہے جس میں مریض کا ذہن خیالی ہیولوں اور واہموں سے مغلوب ہو جاتا ہے۔ اس میں آنکھیں دھنس جاتی ہیں، آنکھیں پیلی نظر آتی ہیں، پلکیں بار بار جھپکی جاتی ہیں، کبھی رونے اور کبھی ہنسنے کے دورے پڑتے ہیں۔ سانس لینے، پسینہ آنے، نبض وغیرہ میں بھی بے قاعدگیاں واقع ہوتی ہیں۔ ابن سینا کے مطابق نیند نہ آنا اور سمجھ بوجھ متاثر ہونا بھی عام چیز ہے۔ (آپ disease ہف dis-ease بھی پڑ سکتے ہیں)
ابن سینا کو اندازہ نہیں تھا کہ بیسویں صدی میں فلموں اور بالخصوص گانوں کے ذریعے برصغیر میں ایک اور ہی قسم کی محبت کو فروغ دیا جائے گا اور دو تین سو سال سے پڑی لونڈے بازی پر مبنی اردو شاعری کو نوجوانوں کی جسمانی مجبوریوں پہ منڈھ کر ایک عجیب کھیل رچایا جائے گا۔ اور اُس میں گلزار اور ساحر لدھیانوی، مخدوم محی الدین اور دیگر اپنا اپنا حصہ ڈالیں گے۔ اور امرتا جیسے کردار عجیب دو نمبری کریں گے۔ لیکن ہر مضبوط خبطی خاتون کو امروز تو نہیں ملتا، اُس کا کوئی فردا بھی نہیں ہوتا۔
سب بھول جاتے ہیں کہ محبت میں ’گرنے‘ کے بعد ایک اور مرحلہ آتا ہے جو اِس کا متضاد ہے۔ اِس میں آپ fall out of love سے گزرتے ہیں۔ معاشرے سے لڑ کر شادی کرنے والے جوڑوں کو تین چار سال بعد ایک یا دو بچوں کے ہمراہ دیکھیں۔ وہ ایک دوسرے کو مخاطب کر کے بات بھی نہیں کرتے۔ مرد اپنی امی اور بھائی کی ذمہ داری کا احساس دلا رہا ہوتا ہے، اور لڑکی کو اپنے میکے والوں کی کشش کھینچ رہی ہوتی ہے۔
کیا میرا ٹیسٹوسٹرون لیول گرنے لگا ہے جو میں ایسی بات لکھ رہا ہوں؟ یا میں محبت کرنا بھول گیا ہوں؟ ٹیسٹوسٹرون لیول تو ٹیکنیکل سی چیز ہے، جس کے نتیجے میں آپ محبت کرنا بھولتے ہیں۔ میرے خیال میں محبت شعوری طور پر بھی کی جا سکتی ہے اور کرنی بھی چاہیے۔ نہ کہ اِسے معاشرے کی خباثتوں سے لڑنے کا سیلہ بنانا چاہیے۔ دعا والے معاملے پر سوشل میڈیا کی دیواریں بجتی رہیں۔ عدالتوں، میڈیکل بورڈز وغیرہ سب نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ چسکا فروشی بھی ہوئی، اور فیمنزم کے ڈنڈے بھی ڈالے گئے۔
(پچھلے سال کی تحریر)

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: