اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پنجاب اسمبلی ، پی ٹی آئی نے ٹکٹیں کیسے تقسیم کیں؟۔۔۔||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پنجاب اسمبلی کے لئے تحریک انصاف نے اپنے امیدواروں کا اعلان کردیا ہے، ان کے حوالے سے سوشل میڈیا میں مختلف مباحث چل نکلے ہیں۔ ایک بات جس کا بار بار ذکر کیا جا رہا ہے ، وہ یہ کہ عمران خان نے اپنے وعدے پورے نہیں کئے اور بیشتر جگہوں پر انہی پرانے امیدواروں، الیکٹ ایبلز ہی کا انتخاب کیا ہے۔ کچھ لوگ اس فیصلے کا دفاع کر رہے ہیں تو بعض کے خیال میں مجموعی طور پر فیصلے ٹھیک ہیں مگر اکا دکا غلطیاں کی گئی ہیں۔

کیا الیکٹ ایبلز کا انتخاب کیا گیا؟

غیر جانبداری سے تحریک انصاف کے امیدواروں کی فہرست کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بہرحال ماننا پڑے گی کہ مجموعی طور پر عمران خان نے مضبوط اور تگڑے امیدواروں کا انتخاب کیا ہے،بہت سی جگہوں پر الیکٹ ایبلز ہیں ، کچھ جگہوں پر ایسے امیدوار جوپہلی بار لڑ رہے ہیں، مگر ان میں الیکشن کا خرچہ اٹھانے کی سکت موجود ہے۔نظریاتی لوئر مڈل کلاس کارکنوں کو زیادہ تر جگہوں پر ٹکٹ نہیں ملے۔ البتہ لاہور میں عمران خان نے سات آٹھ نشستوں پر نظریاتی ، پرانے ورکر وں کو ٹکٹ دے کر بڑا رسک لیا ہے۔

یہ کہنا البتہ غلط ہوگا کہ صرف الیکٹ ایبلز کا انتخاب کیا گیا، ایسا نہیں ہے۔ عمران خان نے دو اہم معیار یہ بنائے کہ امیدواروں کی تحریک انصاف کے لئے کیا خدمات ہیں اور خاص کر پچھلے ایک سال کے دوران ان کا رویہ اور طرزعمل کیا رہا؟ جن لوگوں نے پچھلے ایک سال میں اچھی کارکردگی نہیں دکھائی یا وہ منظرعام سے غائب رہے، انہیں عمران خان نے بھی نظرانداز کر دیا، خواہ وہ کتنے ہی مضبوط الیکٹ ایبلز کیوںنہ ہوں۔ اوکاڑہ میں میاں منظور وٹو کے ساتھ ایسا ہوا۔ بعض دیگر جگہوں پر بھی ایسا کیا گیا۔

فیصلے کس طرح کئے گئے ؟

تحریک انصاف کے اندرونی حلقے یہ کہتے ہیں کہ اس بار عمران خان نے خود انٹرویو لئے اور وہ ہر ایک سے اس کی کارکردگی کا پوچھتے رہے۔ انہوں نے ایک سال پہلے ہی مختلف سرکاری اور غیر سرکاری ذرائع سے مختلف فیلڈ سروے بھی کرارکھے تھے اوران کے پاس حلقے کے حوالے سے فرسٹ ہینڈ انفارمیشن موجود تھی۔

دو فیکٹرز جنہیں اہمیت دی گئی ، ان میں سے ایک پارٹی سے سیاسی وفاداری نبھانا تھا۔

ذرائع کے مطابق عمران خان پنجاب میں بعض ارکان اسمبلی کے منحرف ہونے سے دلبرداشتہ اور ناخوش تھے ، انہوں نے اس لئے ان تمام ارکان اسمبلی اور سیاسی شخصیات کو اچھی طرح اکاموڈیٹ کیا جو اسٹیبلشمنٹ اور پی ڈی ایم حکومت کے تمام تر دباﺅ اور ترغیب کے باوجود تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے رہے ۔

تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈرز میں پرانے امیدواروں کی اکثریت ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں ایک سو اسی ارکان اسمبلی نے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ دیا۔ ان سب پر دباﺅ تھا کہ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے ووٹ نہ دیا جائے ، اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دباﺅ بھی تھا۔ اس کے باوجود ان ارکان اسمبلی نے عمران خان اور تحریک انصاف سے کمٹمنٹ نبھائی اور اعتماد کا ووٹ دیا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اعتماد کا ووٹ ملنے کے بعد اسمبلی توڑ دی جائے گی۔اگر وہ اعتماد کا ووٹ نہ دیتے تو اسمبلی چھ ماہ مزید رہتی اور انہیں بطور رکن اسمبلی تمام مراعات ملتیں۔اس کے باوجود وہ ڈٹے رہے ۔

ذرائع کے مطابق دوسرا بڑا فیکٹر یہ بھی رہا کہ عمران خان یہ چاہتے ہیں کہ ایسا امیدوار ہو جو نہ صر ف الیکشن جیتے بلکہ اپنی جیت کو محفوظ بھی بنا سکے۔ انہیں خطرہ ہے کہ متعصب الیکشن کمیشن، یک رخی اور مخالف نگران حکومتوں کے ہوتے ہوئے الیکشن نتائج میں گڑ بڑ ہوسکتی ہے، وہ اسٹیبلشمنٹ کے کردار سے بھی مطمئن نہیں اور خان کو خدشہ ہے کہ ان کی سیٹوں میں کمی لانے کی کوشش ہوگی تاکہ واضح اکثریت نہ مل سکے ۔ اسی لئے عمران خان نے وہ امیدوار منتخب کئے جو پنجابی محاورے کے مطابق ڈنڈی پٹی والے ہوں ، جو رزلٹ بچا سکیں۔

کون محروم ، کون خوش نصیب رہا

عمران خان نے نوے پچانوے فیصد ارکان اسمبلی کو دوبارہ ٹکٹ دیا ، چند ایک کو تبدیل کیا گیا، اس کی بھی اپنی وجوہات تھیں، کہیں پر بدعنوانی وغیرہ کے الزامات یا پھر پچھلے چند ماہ میں منظر عام سے غائب رہنا یا پھر مقامی سطح پر کارکنوں کی ناخوشی وجہ بنی۔ چند ایک جگہوں پر عمران خان نے سابق وزرا کو ایم پی اے کا ٹکٹ دینے کے بجائے قومی اسمبلی کے لئے کہا اور کہیں پر ایم این اے کو صوبائی اسمبلی پر ایڈجسٹ کیا۔

جیسے فیصل آباد میں چودھری ظہیرالدین کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دینے کے بجائے قومی اسمبلی کے ٹکٹ کا کہا گیا، انہیں منحرف انصافین رکن اسمبلی نواب شیر وسیر کے مقابلے میں لڑایا جائے گا، طلال چودھری کا بھی یہی حلقہ ہے۔ اسی طرح جھنگ سے ایم این اے غلام بی بی بھروانہ کو اس بار قومی کی جگہ صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر اکاموڈیٹ کیا گیا۔ ان کی جگہ ق لیگ کے سابق رکن قومی اسمبلی شیخ وقاص اکرم کو لایا جائے گا۔ یاد رہے کہ شیخ وقا ص کے والد شیخ یعقوب کو بھی ایک صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر ٹکٹ دیا گیا۔

کئی اہم اورنمایاں لوگوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر ٹکٹ نہیں دئیے گئے، لاہور میں سابق وزیر تعلیم مراد راس کو اس بار ابھی تک ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ اوکاڑہ میں منظور وٹو فیملی محروم رہی، اشرف سوہنا کو بھی وہاں سے ٹکٹ نہیںملا۔ فیصل آباد سے باﺅ وارث نے رانا ثنااللہ کو ہرایا تھا، ان پر بعد میں بدعنوانی کے الزامات لگتے رہے، اسی وجہ سے انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا اور وہاں سے اسماعیل سیلا کو ٹکٹ دیا گیا، یہ پیپلزپارٹی میں برسوں رہے ہیں، مگر دلیر اور رانا ثنااللہ کی ٹکر کے سمجھے جاتے ہیں، مبینہ طور پر ماضی میں کہیں رانا صاحب پر ہاتھ بھی اٹھا چکے ہیں۔ یہاں سے شکیل شاہد کی جگہ سابق وفاقی وزیر میاں زاہد سرفراز کے بیٹے علی سرفراز کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔

سرگودھا سے چیمہ خاندان کے منیب چیمہ کو ٹکٹ دیا گیا، فیصل فاروق چیمہ سے عمران خان ناراض تھے کہ انہوں نے اعتماد کا ووٹ دینے کے حوالے سے تساہل سے کام لیا ، تاہم لگتا ہے معافی تلافی ہوگئی، انہیں بھی ٹکٹ مل گیا ہے۔ جبکہ فیصل گھمن کو بھی ٹکٹ دیا گیا ہے۔ سرگودھا کے ایک حلقے سے عبداللہ ممتاز کاہلوں کو ٹکٹ دیا گیا ہے، ان کے والد ممتاز کاہلوں کو پچھلی بار ٹکٹ نہیں ملا تھا، عمران خان نے اس بار تلافی کرنے کی کوشش کی، حالانکہ یہاں زیادہ بہتر امیدوار موجود تھے، جیسے شعیب اعوان ۔

جنوبی پنجاب کے حلقے

ملتان سے زیادہ تر پرانے امیدواروں ہی کو ٹکٹ ملے ہیں، جن میں شاہ محمود قریشی گروپ نمایاں ہے۔ ظہیر علیزئی نے اس بار الیکشن نہیں لڑنے کا کہا تو ان کی جگہ معین ریاض قریشی کو ٹکٹ ملا ہے، یہ بھی شاہ محمود کے عزیز ہیں۔ لودھراں میں عامر اقبال شاہ نے ضمنی الیکشن جیتا تھا، انہیں ایک بار پھر ٹکٹ ملا ہے، نواب امان اللہ خان کو بھی اس بار ٹکٹ دیا، کیپٹن عزت جاوید پچھلی بار ضمنی میںہار گئے تھے، انہیں پھر ٹکٹ دیا گیا۔ لودھراں کے معروف سیاستدان نواب حیات اللہ ترین جو ابھی چند دن پہلے انتقال کر گئے ہیں، ان کی بیٹی شازیہ حیات اللہ ترین کو بھی ٹکٹ ملا ہے۔

بہاولپور سے ایک دو حلقے ابھی تک زیرالتوا رکھے گئے ہیں، سمیع اللہ چودھری اور ملک احمد عثمان چنڑ کو ٹکٹ مل گیا، احمد پورشرقیہ سے گزین عباسی اور اوچ شریف سے افتخار گیلانی کو ٹکٹ دیا گیا۔ یہاں سے انصافین ایم این اے سمیع گیلانی لوٹا بن گیا تھا۔ رحیم یار خان میں بھی کم وبیش وہی پرانے امیدواروں کو ٹکٹ ملا۔بہاولنگر میں اس بار سلمان گڈوکا کو ٹکٹ ملا ہے، ضمنی میں یہ سیٹ کالوکا خاندان نے تحریک انصاف کو ہرا کر برقرار رکھی تھی، سلمان گڈوکا اچھا مقابلہ کر سکتے ہیں۔شوکت لالیکا، احتشام لالیکا بھی کامیاب رہے۔ چشتیاں سے عبداللہ وینس کو ٹکٹ ملا، یہاں ارائیں ووٹ زیادہ ہے جبکہ وینس جٹ ہیں، مگر یہاں سے قومی میں اعجاز الحق کو ٹکٹ ملے گا جو خاصا ارائیں ووٹ رکھتے ہیں، ممکن ہے اس کا فائدہ وینس کو ہوجائے۔

ڈی جی خان میں بھی کم وبیش وہی ٹکٹ ملے جو متوقع تھے، البتہ ایک حیران کن ٹکٹ پی پی دو سو بانوے سے غضنفر عباس کو دیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ انہیںوحدت المسلمین کے کوٹے میں ٹکٹ ملا، مقامی انصافین رہنمااور کارکن اس پر ناراض ہیں۔تونسہ سے عثمان بزدار اور خواجہ داﺅد کو حسب سابق ٹکٹ دیا گیا ہے۔ راجن پور سے منحرف سابق ڈپٹی سپیکر دوست مزاری کے حلقے میں نیا امیدوار لایا گیا، جبکہ یہاںسردار نصراللہ دریشک اور ان کے صاحبزادوں کی کمٹمنٹ نبھانے کی وجہ سے انہیں بھرپور اکاموڈیٹ کیا گیا۔

مظفر گڑھ میں البتہ عمران خان نے اپریشن کلین اپ کیا ہے اور پانچ نئی ٹکٹیں دی گئیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ سابق ارکان ڈھلمل رہے ، خرم لغاری کو ٹکٹ نہیں ملا، ان کے والد کو البتہ دیا گیا ہے۔ امکان ہے کہ خرم اپنے باپ کے مقابلے میں لڑے گا۔عبدالحی دستی کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔منہ پھٹ جمشید دستی کو ایک سیٹ پر ٹکٹ ملا ہے، دستی صاحب ماضی میں عمران خان کو گالیاں دیتے تھے، وقت نے اب انہیں صرف ایک سیٹ کے لئے عمران خان سے رجوع کرنے پر مجبور کر دیا۔ نواب زادہ نصراللہ کے صاحبزادے منصور علی خان کو بھی ٹکٹ ملا۔ اقبال پتافی کو بھی ٹکٹ دیا گیا۔

سنٹرل اور اپر پنجاب

سیالکوٹ میں اس بار نسبتاً مضبوط امیدوار لئے گئے ، عثمان ڈار کو صوبائی کا ٹکٹ ملا ہے، احسان بریار، عظیم نوری گھمن ، عمر جاوید گھمن وغیرہ کو بھی اکاموڈیٹ کیا گیا۔ شکرگڑھ سے ارسلان حفیظ کو ٹکٹ ملا ، یہ انصاف یوتھ ونگ سے آئے ۔ پچھلی بار احسن اقبال نے نارووال میں سوئپ کیا تھا ، ایک سیٹ رہ گئی تھی۔ اس بار دیکھیں کیا بنتا ہے؟

مسلم لیگ ن اپنا مضبوط ترین قلعہ گوجرانوالہ کو مانتی ہے، تحریک انصاف کی کوشش ہے کہ گوجرانوالہ میں ڈینٹ ڈالا جائے۔ حامد ناصر چٹھہ کے بیٹے احمد چٹھہ پہلے قومی سے لڑتے تھے،ا س بار وہ صوبائی پر لائے گئے ہیں۔ انصافین کو امید ہے کہ طارق گجر، اسداللہ پاپا وغیرہ اچھا مقابلہ کریں گے۔ حافظ آباد میں بھٹی خاندان کو ترجیح ملی۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ریاض فتیانہ کی اہلیہ کو صوبائی کا ٹکٹ ملا۔ ایک اہم ٹکٹ چودھری سرور کے بھائی چودھری رمضان کو دیا گیا۔ چودھری رمضان نے اپنے بھائی سے معذرت کر کے تحریک انصاف کا ساتھ دیا تھا، عمران خان نے انہیں ٹکٹ دے کر صلہ دیا۔ شیخوپورہ میں بھی مناسب امیدواروں کو ٹکٹ ملے ہیں۔

پنڈی میں پرانے امیدوار ہی ہیں، ایک حلقے سے نئی امیدوار کو ٹکٹ ملا، اتفاق سے یہ حلقہ چودھری نثار کا ہے۔نجانے مقصد چودھری نثار کو فیور دینا ہے یا مضبوط امیدوار موجود نہیں تھا؟چکوال سے فوزیہ بہرام اور عمار یاسر کو ٹکٹ مل گئے ۔ گجرات سے چودھری پرویز الٰہی گروپ کو بھرپور اکاموڈیٹ کیا گیا۔ چودھری پرویز الٰہی کو بھی ٹکٹ دیا گیا، البتہ اس بار مونس الٰہی کو بھی قومی کے بجائے صوبائی سے لایا گیا ہے۔ ممکن ہے عمران خان انہیں صوبے میں کوئی اہم رول دینا چاہتے ہوں ؟

وزیراعلیٰ کے امیدوار

پی ٹی آئی میں شاہ محمود قریشی، فواد چودھری، حماد اظہر وغیرہ صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں سے لڑنے کا پروگرام بنائے بیٹھے تھے۔ یہ سب چاہتے تھے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے امیدوار بن سکیں۔ عمران خان نے اس حوالے سے اپنی اتھارٹی اسٹیبلش کرائی ہے اور ان تینوں سے معذرت کر کے انہیں کہا ہے کہ ہمیں مرکز میں آپ کی ضرورت ہے۔ انہیں ٹکٹ نہیں دئیے گئے۔ اس طرح اس وقت پی ٹی آئی میں کوئی مضبوط امیدوار موجود نہیں۔ میاں اسلم اقبال ہوسکتے ہیں، مگر وہ ٹاپ لیڈرشپ میں نہیں آتے۔ عین ممکن ہے عمران خان چودھری پرویز الٰہی یا ان کے صاحبزادے سے کی گئی کمٹمنٹ نبھانا چاہتے ہوں یا پھر وہ کسی عثمان بزدار کی طرح کے کمزور امیدوار کو عین وقت پر وزیراعلیٰ بنا دیں۔

لاہور میں اکاموڈیٹ ہونے والے کارکن

لاہور کے کئی حلقوںمیں نظریاتی کارکنوں اور انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نوجوانوں کو ٹکٹ دینے کا جرات مندانہ فیصلہ کیا گیا۔ لاہور جیسے شہر میں چھ سات حلقوں میں نوجوان اور کارکن ٹائپ لوگوں کو ٹکٹیں دی گئی ہیں جنہوںنے پچھلے ایک سال میں ماریں کھائیں، جیل بھرو تحریک میں بھی گئے اور سب کچھ کے باوجود استقامت سے کھڑے رہے۔ مثال کے طور پر پی پی 149سے عباد فاروق کو ٹکٹ دیا گیا، یہ جذباتی ورکر ہیں، جیل بھرو تحریک میں بھی شامل تھے، ان کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں پولیس کی گاڑی پر کھڑے احتجاج کر رہے تھے۔ پی پی 146 سے ملک وقار کو ٹکٹ ملا، یہ نظریاتی کارکن ہیں۔ پی پی 144سے یاسرگیلانی کوٹکٹ دی گئی ، تحریک انصاف میںگراس روٹ لیول سے اوپر آئے، خاصی محنت کی اور استقامت سے کام کر رہے۔

پی پی 160سے تحریک انصاف لائرز ونگ کے فعال رکن حیدر مجید کو ٹکٹ دی گئی، تیس پینتس سالہ نوجوان حیدر مجید کئی برسوں سے لائرز ونگ میں بہت متحرک رہا۔ حافظ فرحت سے ہم میڈیا والوں کا برسوں پرانا تعلق ہے، یہ پارٹی میں بہت ایکٹو اور کمٹیٹد رہے ہیں، انہیں پچھلی بار بھی ٹکٹ ملا، اس بار بھی دیا گیا۔ پی پی 161سے عمار بشیر گجر کو ٹکٹ ملا، یہ بھی انصاف یوتھ ونگ سے آئے ۔ پی پی 159سے اعظم نیازی کو ٹکٹ دیا گیا، انکی فیملی کی بس سروس مشہور ہے۔ ان کے کاروبار کو براہ راست نشانہ بنایا، اعظم نیازی اور ان کی فیملی ڈٹے رہے، ٹکٹ ان کا حق تھا۔ لاہور تنظیم کے ذمہ دار شیخ امتیاز کو ٹکٹ ملا، ان کی بھی پارٹی کے لئے قربانیاں اور جدوجہد ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان سات آٹھ لوگوں کو عمران خان نے ان کی قربانیوں کی وجہ سے ٹکٹ دی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: