اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

نیازی نام کا ڈی ایس پی حرم گیٹ تھانے کے باہر کھڑا ہاتھ میں پکڑی سٹک لہرا کے متنبہ کر رہا تھا کہ اگر منتشر نہ ہوئے تو لاٹھی چارج ہوگا۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب فلم کی مانند آنکھوں کے سامنے ہے۔ میں نشتر میڈیکل کالج کے قاسم ہال کے اپنے کمرے میں بیٹھا پتھالوجی کی کتاب کھولے مطالعہ میں مشغول تھا کہ دروازہ کھلا۔ علی شمس القمر ( اب مرحوم ) اور فواد علی شاہ ( آج کل مفقود ) داخل ہوئے اور کہا چل مرزا پی آئی ڈی سی کھاد فیکٹری والوں کے جلوس میں چلتے ہیں۔

میں تب طالبعلموں کی چین نواز تنظیم این ایس او نیشنلسٹ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں فعال تھا اور تقریباً روزانہ ہی نشتر سے کوئی دس کلومیٹر پیدل چل کر کھاد فیکٹری میں مزدوروں کے دھرنے میں جاتا اور پیدل ہی آتا تھا، کبھی شمعون ساتھ ہوتا تو کبھی ناصر زیدی ( موجودہ جنرل سیکرٹری پی ایف یو جے ) اور کبھی تنہا۔ فواد شاہ غالباً این ایس ایف کا کارکن تھا اور علی شمس القمر خود ساختہ جگت گرو۔

اس روز میرا جانے کو قطعی جی نہیں کر رہا تھا مگر قمر کی دی گالی اور چل بے کے ساتھ فواد نے مجھے اٹھا کے کھڑا کیا اور مجھے ان کے ہمراہ جانا پڑا۔ گھنٹہ گھر چوک سے جلوس میں شامل ہوئے۔ مجھے دو سال پہلے بھاشانی کا پرجنون ہمدرد ہونے کے بعد کھدر پوش ہونے کا خبط لاحق تھا اور بھورے کھدر کے کئی شلوار قمیص سلوا لیے تھے وہی پہنا کرتا تھا۔

جب گھنٹہ گھر اور حرم گیٹ کے درمیان پہنچے تو پولیس کی ایک بڑی نفری نے تیز تیز چلتے ہوئے اطراف سے جلوس کو عبور کیا تھا۔ میرے بال بڑھے ہوئے تھے ویسے ہی جیسے کراچی سے پہنچے مزدور رہنما عثمان میمن کے۔ عثمان نے بھی بھورے ہی رنگ کی کے ٹی کا جوڑا پہنا ہوا تھا۔

حرم گیٹ پہنچے تو ہر جانب پولیس تھی۔ مزدوروں میں جوش تھا۔ میں اور عثمان ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے بڑھ چڑھ کے حکومت مخالف نعرے لگا رہے تھے۔

نیازی نام کا ڈی ایس پی حرم گیٹ تھانے کے باہر کھڑا ہاتھ میں پکڑی سٹک لہرا کے متنبہ کر رہا تھا کہ اگر منتشر نہ ہوئے تو لاٹھی چارج ہوگا۔

پھر لاٹھی چارج شروع ہو گیا۔ میں بھی بہت سوں کے ساتھ نیازی کے سامنے سے دوڑتے ہوئے نکلا۔ آگے جا کے میری دائیں پنڈلی کی ہڈی ایک تانگے کے لوہے کے پائیدان سے ٹکرائی۔ بہت درد ہوا، خون سے شلوار پہ دھبہ بن گیا مگر رکنا درست نہیں تھا چنانچہ لنگڑاتا ہوا بھاگتا چلا گیا اور پاک گیٹ میں داخل ہو کے ”النگ“ ( فصیل ) پہ ہو لیا۔ شلوار اٹھا کے دیکھا، پنڈلی پر بڑا سا گھاؤ تھا اور خون رس رہا تھا۔ گھاؤ کا نشان آج تک ہے۔

بھاگ کے پہنچے بہت سے لوگ النگ پہ تھے۔ میں نے سانس درست کی۔ اتنے میں قمر اور فواد بھی آ ملے۔ ہم ہنستے ہوئے باتیں کرتے جا رہے تھے کہ حرم گیٹ سے بیس پچیس قدم پہلے، عام کپڑوں میں ہمارے ساتھ چلتے ہوئے دو تین افراد میں سے ایک نے مجھے پیچھے سے گریبان کو بل دے کر پکڑا۔ قمر اور فواد چشم زدن میں بھاگ نکلے مگر جاتے جاتے فواد جسے ہم فولاد علی شاہ کہتے تھے، مجھے پکڑنے والے کے چہرے پر اپنا فولادی مکا جڑ گیا تھا۔ سامنے سے لاٹھیوں ( ڈانگ ) والے دو سپاہی آئے پکڑنے والا پکارا کہ اس کا ساتھی مجھے مار کر بھاگا ہے تو انہوں میری کمر پر ڈانگیں برسانا شروع کر دیں۔

پکڑنے والا بار بار میانوال لہجے میں کہہ رہا تھا کہ اس کا ساتھی مجھے مار کے بھا گا ہے۔ ساتھ دونوں تینوں تھپڑ بھی جڑ دیتے۔ میں نے سوچا کہ قمیص اتار کے بھاگ جاؤں۔ ایسا کرنا چاہا تو اس نے مجھے شلوار کے نیفے سے پکڑ لیا۔ شلوار تو اتاری نہیں جا سکتی تھی اگرچہ بہت عرصے بعد ہمارے رہنما اور عزیز دوست پروفیسر برکت علی نے کہا تھا کہ اتار دیتے تو لوگ یہ کہہ کے کہ مجذوب کو کیوں پیٹ رہے ہو چھڑا لیتے۔

حرم گیٹ تک جاتے جاتے ایک کی ڈانگ ٹوٹ گئی۔ گیٹ سے نکلتے ہی مجھے چھوٹی لاٹھیوں ( سوٹی ) والے پولیس والوں کے حوالے کر دیا۔ ان میں سے کوئی جسیم میانوالیا مجھے بالوں سے پکڑ کر اوپر اٹھاتا اور زمین پر پٹخ دیتا، پھر مجھ پر درجنوں کڑ کڑ کرتی لاٹھیاں برستیں۔ مشتاق نام کا، جس کی نیم پلیٹ پر نام لکھا تھا، ایک بہت جوشیلا تھانیدار پیٹنے کے درمیان بار بار مجھ سے کہتا، ”کہہ میں بھٹو دا سالا“ مگر میں باوجود نڈھال ہونے کے بآواز بلند کہتا، ”توں بھٹو دا سالا“ ۔ ۔ ۔

بالآخر جب مار مار کے تھک گئے تو اسی مشتاق نے پیچھے سے میرا گریبان پکڑے یہ کہتے ہوئے ”کوہو او اینہوں“ حرم گیٹ کے تھانے کے گیٹ کے چھوٹے دروازے سے مجھے اندر پھینک دیا۔

یہ بھٹو کی عوامی حکومت کا دور تھا جب مصطفی کھر پنجاب کے گورنر تھے اور وہی حرکتیں کر رہے تھے جو امیر محمد خاں آف کالا باغ کرتے رہے تھے۔

تاریخ 10 ستمبر اس طرح یاد رہی کہ اگلے روز ہمیں ہتھکڑیاں لگا کر، مہندی رنگی داڑھی والے رانجھا نام کے ایک سپاہی نے میرا بازو مروڑ کر ہتھکڑی لگائی تھی تاکہ میں بازو سیدھا نہ کر پاوں۔ ملتان کی گرمی میں تپتے پولیس کے بند ٹرک میں بھر کر عدالت لے گئے تھے۔ پیش کیے بن، کیونکہ 11 ستمبر کو قائد اعظم کا یوم وفات تھا، ہمیں جیل پہنچانے کا حکم لے آئے تھے۔

ان سب صعوبتوں کے باوجود میں آج بھی بھٹو کو ایوب، یحیی، ضیاء، مشرف یا کسی بھی اے بی سی آمر جرنیل سے بہتر سمجھتا ہوں۔

%d bloggers like this: