اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وطن پرستی خول میں بند ہو کر نہیں ہو سکتی۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر آج ہندوستان کے ساتھ سیر و سیاحت کے دروازے کھل جائیں تو میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہندوستان کو دیکھنے کے نتیجے میں آپ کا جذبۂ حب وطن گھٹنے کی بجائے بڑھے گا۔ سارا ہندوستان پٹھان اور مسلم مہروں سے اٹا پڑا ہے۔
مجھے 2005ء میں دہلی جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ میرے ساتھ جانے والا ایک پبلشر تو لال قلعہ کو دیکھ کر تقریباً آب دیدہ ہو گیا اور اُس کا ذکر ’’ہمارا‘‘ کہہ کر کرتا تھا۔ تنوع کا تجربہ کرنے میں ضروری نہیں کہ آپ خود سے دور ہی ہو جائیں، آپ خود کو زیادہ عزیز بھی ہو سکتے ہیں۔
دہلی کے کناٹ پلیس اور دیگر جگہوں پر نظر آنے والی کوئی لڑکی حسین نہیں تھی۔ آپ کسی لڑکی کو پیچھے سے دیکھتے تو بہت اچھی لگتی، خصوصی کمینے پن کے ساتھ تیز تیز چل کر آگے سے دیکھنے کو بڑھتے تو سخت مایوسی ہوتی۔ خوشونت سنگھ نے لاہور میں کہا تھا کہ ہندوستان میں خوب صورت چہرہ مشکل سے ڈھونڈنا پڑتا ہے، اور پاکستان میں بدصورت چہرہ۔ اور اگر آپ اُن لڑکیوں کو بات کرتے سن لیں تو ویسے ہی دوڑ لگا جائیں۔
چوکوں پر چمگادڑوں کی طرح سائیکل رکشے کی سیٹوں پر نیم خوابیدہ لنگوٹی پوش غریب لوگ، پیشاب کے جوہڑوں کے گرد فخریہ لنگ نمائی کرتے ہوئے نوجوان، ہر رکشے کے ہینڈل کے آگے رام، سیتا ہنومان کی تصویریں، مندروں کے باہر سپیکروں پر بھونڈے بھجن اور لمبی قطاریں، بھگوان تخلیق کرنے والی ورکشاپیں، کچرے پر بیٹھ کر روٹی کھاتی ہوئی گائے، Always کی طرح خاکی لفافے میں بوتل لپیٹ کر دیتے ہوئے liquor سٹورز، پان کی پیکیں، ڈبے میں دیسی گھی کے پوّے نکال کر صبح سویرے پوجا کرتا اور آرتی اُتارتا ہوا ہوٹل ریسپشنسٹ۔ یہ سب آپ کو پسند نہیں آئیں گے۔
ہم چونکہ اپنے آپ میں بند ہیں، ہمارے پاس کوئی پیمانہ نہیں رہا جس کے مطابق خود کو جانچ سکیں، یا غور کر سکیں، لہٰذا ہم نہایت زود رنج اور دکھی پھرتے ہیں۔ یہ وہی شیزوفرینیائی طرزِ عمل ہے جس کی میں پہلے بھی نشان دہی کر چکا ہوں۔ اب جاوید اختر کی باتوں سے رنجیدہ ہوئے بیٹھے ہیں۔ وہ ہندوستان کے خلاف باتیں کرتا ہے تو ہمیں اچھا لگتا ہے کہ دیکھو کتنا متوازن اور سچا ہے۔ اگر ہمارے بارے میں تھوڑی بات کر دے تو بس ہماری دُم پر پاؤں آگیا۔ ہر ایک کی رائے کو اپنی پسند کے مطابق ہونے کا اصرار بھی حقیقت کی ایک غلط تفہیم کا پتا دیتا ہے جس کی ہمیں عادت ہے۔ اور اِس بار تو صرف دائیں بازو کے علاوہ بائیں بازو کے اور لبرل لوگ بھی میدان میں کود پڑے۔
جاوید اختر بہت اچھا فلمی شاعر ہے، جو سوچتا ہے اُسے بلیغ انداز میں بیان کرتا ہے۔ وہ آپ کو موسیقی سیکھنے اور سمجھنے کے قابل بھی بناتا ہے۔ جبکہ ہم موسیقی بھولنے کا تہیہ کیا بیٹھے ہیں۔
May be an image of 2 people, people sitting, bicycle and outdoors
All reactions:

218

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: