مئی 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’میل شاؤنزم کی عینک اور himpathy!!!!!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

یہ بھی شوہر کے ساتھ زیادتی ہی ہے اسے بلاوجہ ڈاکٹروں کے چکر لگوائیں۔ کبھی سوچا ہے شوہر یہ پیسہ کس قدر محنت سے کماتا ہے؟ جو آپ کے وہم یا ضد کی نظر ہوجاتا ہے۔ ”

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ع کی شادی بیس برس کی عمر میں اپنے سے پندرہ برس بڑے شخص سے ہوئی جب وہ بی اے کی طالبہ تھی۔ اپنے گھر کو خیر باد کہنے اور شادی کی ذمہ داری لینے کے لیے وہ ذہنی طور پہ تیار نہیں تھی۔

ش کی شادی پندرہ برس کی عمر میں کر دی گئی۔ آئندہ پانچ برس میں وہ چار بچوں کی ماں بن گئی۔ ش نے اپنی زندگی کے بارے میں بہت سے منصوبے بنا رکھے تھے۔ وہ ان میں سے کسی پہ بھی عمل نہ کر سکی۔

ف کو کبھی بھی گھریلو زندگی اچھی نہیں لگتی تھی لیکن ماں باپ نے شادی طے کر دی اور بقیہ زندگی اسے شادی شدہ ہو کر گزارنا پڑی۔

ک کی شادی میٹرک کرنے سے پہلے ایک رنڈوے شخص جو کہ تین بچوں کا پہلے سے باپ تھا کر دی گئی کہ سوتیلی ماں اسے زیادہ عرصہ گھر نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔

س کی شادی بی اے میں ہو گئی۔ شوہر کام کے سلسلے میں زیادہ تر دوروں پہ رہتا تھا۔ تنہائی اور چار بچوں کی ذمہ داریوں نے اسے بے حد چڑچڑا کر دیا۔

پ کی شادی فرسٹ کزن سے ہوئی۔ شادی کے بعد سسرال کا سارا کام پ پہ ڈال دیا گیا۔ وہ صبح سے شام تک اس میں جتی رہتی۔

ر کی شادی اس کی مرضی کے خلاف پندرہ برس بڑے شخص سے ہوئی جو جسمانی کمزوری کا شکار تھا۔ ر کے بے پناہ اصرار پہ بھی وہ شخص ڈاکٹر کے پاس جانے پہ راضی نہیں ہوا۔

ک کو ڈاکٹر بننے کا شوق تھا لیکن گھر والے جلد شادی کرنا چاہتے تھے سو اس کی کسی نے بات نہ سنی۔ پھر تمام عمر اس قلق کے ساتھ زندگی گزری۔

ب کی شادی جس شخص کے ساتھ ہوئی وہ جنسی مریض تھا۔ وہ ہر رات ایک عذاب سے گزرتی۔

ف کا شوہر کانوں کا کچا اور گھر والوں کے اشاروں پہ چلنے والا تھا۔ جب بھی گھر آتا، معمولی باتوں پہ خوب گالی گلوچ کرتا۔

ب کی چار بیٹیاں تھیں اور شوہر دن رات بیٹا نہ پیدا کرنے کے طعنے دیتا تھا۔
ث کا شوہر اکثر گھر سے باہر رہتا اور اس کی سیکرٹری اس کے ساتھ ہوتی۔
م پچاس برس کی ہو چکی تھی۔ شوہر شوگر کا مریض تھا لیکن اسے ہر رات بیوی کی قربت چاہیے تھی۔

ص کے شوہر نے کبھی اجازت نہیں دی کہ وہ بچوں کے ساتھ چھٹیاں میکے میں گزارے۔ عید ہو یا شب برات سب سسرال میں گزرتی ہیں۔

س کا شوہر گھر میں ہر چیز تو لاتا ہے لیکن اسے ذاتی جیب خرچ کبھی نہیں دیا۔
الف کا شوہر شوہر تو ہے لیکن آج تک شوہر بن نہیں سکا۔ معاشرتی دباؤ کے سامنے الف خاموش ہے۔

کیا کریں یہ سب عورتیں؟ کہاں جائیں؟ کس سے مدد مانگیں؟ اپنی زندگی کی ڈولتی ناؤ کو کیسے سنبھالیں؟ اپنے اندر چھپے غصے، اینگزائٹی اور ڈپریشن کا کیا حل کریں؟ کس سے حل پوچھیں؟ کون ہے جو سمجھے؟

سوشل میڈیا پہ بہت سی ایسی پوسٹس پڑھنے کو ملتی ہیں جن میں بہت سی ایسی عورتوں کو لعن طعن کیا جاتا ہے جنہوں نے صاحب پوسٹ کے سامنے اپنے شوہر سے زیادتی کی۔ وہ صاحب پوسٹ کو چڑیل لگیں اور شوہر صاحب انتہائی معصوم و مظلوم۔

دیکھیے یہ پوسٹ جو ہم نے فیس بک پر دیکھی ؛
ایک خاتون ہانپتی کانپتی اندر داخل ہوئیں، جسامت کے حساب سے پانچ یا چھ ماہ کی پریگننٹ لگ رہی تھی۔
اسسٹنٹ نے اسے بلایا۔ کہ ادھر آ کر فائل بنوا لیں۔ خاتون نے ناگواری سے اسے دیکھا۔
” مجھے کوئی فائل نہیں بنوانی۔ ایمرجنسی ہے ابھی اسی وقت مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے“
اسسٹنٹ نے حیرت سے اسے دیکھا۔ اس کی ظاہری حالت بالکل ٹھیک تھی۔ ایمرجنسی کی وجہ سمجھ نہ آ رہی تھی۔
” کیا ایمرجنسی ہے آپ کو ؟ وہیں بیٹھے ہوئے بتا دیں میں فائل بنا دیتی ہوں“

خاتون تڑخ کر بولی ”کیوں آپ کو کیوں بتاؤں۔ مجھے صرف ڈاکٹر سے بات کرنی ہے۔ میرا بائیو ڈیٹا ان کے پاس موجود ہے۔

اسسٹنٹ نے ناگواری سے اس عورت کو دیکھا۔ ”ٹھیک ہے۔ چلی جانا۔ لیکن پہلے ان کی پیشنٹ جائیں گی۔ کیونکہ یہ سب سے پہلے آئی ہیں“

اسسٹنٹ نے میری طرف اشارہ کیا۔ یہ کہنے کی دیر تھی۔ اس عورت نے سیخ پا ہو کر میری طرف رخ کیا۔ میں نے سٹپٹا کر اپنی کرسی پیچھے کی۔

” میں جو بکواس کر رہی ہوں کہ مجھے ایمرجنسی ہے تم لوگوں کو سمجھ کیوں نہیں آتی؟ ذلیل کیا ہوا ہے۔ تم لوگوں کو احساس نہیں“

میں نے گھبرا کر ہاتھ کھڑا کیا۔ ”اوکے اوکے سسٹر آپ چلی جایں۔ غصہ نہ ہوں پلیز“

ڈاکٹر تک یہ شور پہنچ چکا تھا اس نے محترمہ کو بلا لیا۔ اونچا بولنے کی وجہ سے اس کی آواز باہر تک با آسانی سنائی دے رہی تھیں۔

ایمرجنسی یہ تھی کہ اسے ویک نیس محسوس ہو رہی تھی۔ اور طاقت کئی مہنگی مہنگی دوائیاں چاہیے تھیں۔ اس نے واضح الفاظ میں کہا۔ مجھے مہنگی دوائیاں لکھ دیں۔ ڈاکٹر بڑے تحمل سے اسے ٹریٹ کرتی رہی۔ دس پندرہ منٹ بعد یہ عورت سپاٹ تاثرات کے ساتھ بڑبڑاتی ہوئی باہر چلی گئی۔

اس کے بعد میں بھابھی کو اندر لے گئی۔ سلام دعا کے بعد ۔ اس نے اس پیشنٹ کے رویے کی مجھ سے معذرت کی۔ میں نے مسکرا کر اٹس اوکے کہا۔ اور پوچھا کہ اسے ایمرجنسی کیا لاحق تھی؟

” اس کے شوہر کا اسلام آباد ٹور تھا یہ ساتھ جا نہیں سکتی اس لیے ایمرجنسی بنا کر بدلہ لے رہی“
ڈاکٹر نے شرارت سے کہا۔
میں نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ بدلہ؟ کیا مطلب؟
ڈاکٹر کی مسکراہٹ میں اضافہ ہو گیا۔

”ڈاکٹروں کی کوتاہی پر تو آپ کھینچ کر رکھ دیتی ہیں۔ ذرا ایسی عورتوں کے بارے میں بھی لکھیں نا۔ جنہیں کوئی ایمرجنسی نہیں ہوتی۔ نہ ہی میڈیسن کی ضرورت۔ لیکن پھر بھی چیک اپ کے بہانے یا ویک نیس شو کر کے بلاوجہ سو ٹیسٹ کرا کے دوائیاں لکھوا کر جاتی ہیں۔ کبھی یہ سسرالیوں کی ضد میں ہوتا۔ کبھی کسی مقابلے بازی کا حصہ بننا ہوتا ہے۔ پریگنینسی کے دوران انہیں چھینک بھی آئے تو یہ سیدھا ہمارے پاس پہنچتی ہیں۔“

تو تم انہیں سمجھاتی کیوں نہیں ہو کہ ایسا نہ کریں۔ یا کوی ایمرجنسی نہیں ہے؟ میں نے سوال کیا۔

” جی جی محترمہ کئی بار یہ کوشش کی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شکایات شروع کر دیتے ہیں۔ کہ ڈاکٹر تو توجہ نہیں دیتے۔ میڈیسن نہیں لکھ دیتے۔ مغرور ہیں۔ مریض کا مرض نہیں سمجھتے وغیرہ وغیرہ۔ فیس لے کر بھی میڈیسن نہیں لکھ دیتے۔ ہماری جان تب بھی نہیں چھوٹتی۔“

اور تمہیں ایک بات بتاؤں۔ جتنے مریض ہم روزانہ ہسپتالوں میں دیکھتے یا کلینک پر۔ بہت بڑی تعداد اس وہم کی وجہ سے آئی ہوتی ہے۔ کہ ہمیں کوئی سنگین مرض ہے۔ کئی تو کہہ بھی دیتی ہیں۔ ہمیں یقیناً فلاں مرض ہو گا۔ ان کی کاونسلنگ کرنا یا انہیں سمجھانا کہ آپ بالکل ٹھیک ہے۔ تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔

آخر میں ان خواتین کو ایک میسج۔ جو اس عورت جیسا رویہ رکھتی ہیں۔

” جتنا خود کو بیمار سمجھیں یا ایسے وہم پالیں۔ سائیکولوجی کہتی ہے بندہ ایسا سوچ سوچ کر بیمار ہو ہی جاتا ہے۔

یہ بھی شوہر کے ساتھ زیادتی ہی ہے اسے بلاوجہ ڈاکٹروں کے چکر لگوائیں۔ کبھی سوچا ہے شوہر یہ پیسہ کس قدر محنت سے کماتا ہے؟ جو آپ کے وہم یا ضد کی نظر ہوجاتا ہے۔ ”

یہ پڑھ کر ہم نے تاسف سے سوچا کیا ڈاکٹر اور لکھاری جانتی ہیں کہ ان عورتوں کے ذہن میں کیا چل رہا ہوتا ہے؟

وہ اپنی زندگی سے کس قدر ناخوش اور مایوس ہوتی ہیں؟

جس عورت کو چھوٹی عمر میں بیاہ کر ڈھیروں ذمہ داریاں لاد دی جائیں وہ کیا محسوس کرتی ہے جب زندگی کا ساتھی بھی ساتھ دینے والا نہ ہو؟

شوہروں کی کمائی کو بیویوں کے لیے ان کا احسان کیوں سمجھا جاتا ہے؟

کیا سب لیڈی ڈاکٹرز نہیں جانتیں کہ حاملہ عورتیں کس جذباتی ہیجان کا شکار ہوتی ہیں اور اس ہیجان کا واحد نکاس لیڈی ڈاکٹر کا کلینک ہے؟

آخر میل شاؤنزم کی عینک خوشی خوشی پہن کر سب عورتیں اپنی ہی ہم صنف پر کیوں تنقید کرتی ہیں؟
کیا وہ نہیں جانتیں کہ پڑھی لکھی ہو یا ان پڑھ، معاشرتی رویوں کا چابک ہر عورت پر برستا ہے۔

مردوں سے ہمدردی رکھنے کے اس رویے کو نیویارک کی پروفیسر کیٹ نے Himpathy کا نام دیا ہے جو خواتین کو لاشعوری طور پہ سکھاتی ہے کہ عورت کے مقابلے میں مردوں سے ہمدردی رکھیں اور ان کی چھوٹی سے چھوٹی بات پہ ان کی احسان مند رہیں۔

مضمون کے شروع میں ہم نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ کوئی کبھی نہیں سمجھ سکتا کہ ایک عورت اپنی زندگی میں کن طوفانوں کا سامنا کر رہی ہوتی ہے سو اگر کبھی ضبط کا دامن اس کے ہاتھ سے چھوٹ جائے تو اسے فوراً ہی کٹہرے میں مت کھڑا کیجیے۔

آپ کو تصویر کے دوسرے رخ کا علم نہیں!

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: