اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سوالوں سے بندھے سوال ہیں فقط ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے بھی حیرانی تھی کہ ’’صاحبان‘‘ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کروانے میں اتنے ’’اتاولے‘‘ کیوں ہیں۔ پی ٹی آئی نے دو صوبائی اسمبلیاں ایک خاص حکمت عملی کے طور پر تحلیل کروائی تھیں۔ ازخود نوٹس کی سفارش کرنے والے ’’صاحبان‘‘ نے دو اسمبلیوں کے انتخابات کے معاملے پر ازخود نوٹس لینے کی سفارش کی تھی ۔ پورا کیس دو اسمبلیوں کے انتخابات کے گرد گھومتا رہا۔ فیصلہ صرف پنجاب میں آئین کی پاسداری کے لئے آیا۔ خیبر پختونخوا میں آئین کی پاسداری کی ضرورت کیوں نہ محسوس کی گئی؟

ہم نے تواتر کے ساتھ یہ سوال اپنے پڑھنے والوں کے سامنے رکھا کہ جب دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا معاملہ دونوں صوبوں کی اعلیٰ عدالتوں (ہائیکورٹس) میں زیرسماعت تھا تو ازخود نوٹس کی سفارش اور نوٹس لیا جانا کیوں ضروری سمجھا گیا۔

ہم اس بات پر بحث نہیں کرتے کہ اس کیس کی سماعت اور پھر عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی درخواست کی سماعتوں کے دوران ماورائے قانون کیا باتیں ہوئیں۔ کیسے کیسے ریمارکس دیئے گئے اور پھر الیکشن کمیشن کے اختیارات بھی ’’صاحبان‘‘ نے سنبھال لئے ۔

پنجاب کے لئے انتخابی شیڈول کے ساتھ بینک دولت آف پاکستان کو حکم دے دیا کہ 21ارب روپے الیکشن کمیشن کو دے دیئے جائیں۔ ان احکامات کا نتیجہ کیا نکلا۔ ’’صاحبان‘‘ کے فیصلے اور پارلیمنٹ کی قراردادوں نے دو اداروں کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا۔

اس صورتحال سے بچا جاسکتا تھا اگر اس بنیادی سوال پر غور کرلیا جاتا کہ جو معاملات ہائیکورٹ میں زیرسماعت تھے ان پر سپریم کورٹ نوٹس لے سکتی ہے؟ اصولی طورپر نہیں لے سکتی تھی کیونکہ محض صوبائی خودمختاری ہی نہیں بلکہ عدالتی نظام کا حفظ مراتب اور سماعتوں کا طے شدہ طریقہ کار بلڈوز کرنے سے پورے نظام کی بنیادیں ہل کر رہ جاتیں۔

آپ پچھلے دو تین ہفتوں سے لگے قانونی تماشوں پر غور کیجئے۔ ان تماشوں سے کیا ملا۔ کیا اچھا نہ ہوتا کہ شخصی اور خاندانی محبتوں پر نظام انصاف کو قربان نہ کیا جاتا۔ زیادہ اچھا ہوتا کہ اس ساری کھیچل سے بچ کر اس سوال پر غور کرلیا جاتا کہ کیا ’’کسی پیشگی سیاسی معاہدہ پر اسمبلی توڑی جاسکتی ہے؟‘‘ اور یہ کہ مردم شماری کے نتائج و نئی حلقہ بندیوں کے بغیر ایک یا دو صوبوں کی اسمبلیوں کے انتخابات مسائل کو جنم نہیں دیں گے ؟ ۔

اب دوسری بات ذہن میں رکھئے انہی دو صوبوں میں پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی سے ڈنکے کی چوٹ پر مستعفی ہونے والے ارکان قومی اسمبلی کی نشستوں پر جو ضمنی انتخابات ہونے تھے ان کے خلاف حکم امتناعی کیوں دیا گیا۔ کیا استعفوں کا اعلان قومی اسمبلی میں کرکے شاہ محمود قریشی کی قیادت میں ارکان ایوان سے باہر نہیں چلے گئے تھے۔

فواد چودھر، قاسم سوری، اسد عمر اور خود عمران خان کیا ان استعفوں کے بعد یہ نہیں کہتے رہے کہ ہم مستعفی ہوچکے ہیں پی ڈی ایم کا سپیکر قانون کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ کیا پی ٹی آئی کی کور کمیٹی اور سنٹرل کمیٹی نے اپنے فیصلے میں یہ نہیں کہا تھا

’’چونکہ ہمارے ارکان قومی اسمبلی سے مستعفی ہوچکے ہیں اس لئے اب وہ سپیکر راجہ پرویز مشرف کے پاس انفرادی یا گروپ کی صورت میں استعفوں کی تصدیق کے لئے پیش نہیں ہوں گے؟ قومی اسمبلی کی 100کے قریب نشستوں پر ضمنی انتخابات کے خلاف درخواستوں کی منظوری، مستعفی ارکان کے استعفوں پر حکم امتناعی، الیکشن کمیشن کو انہیں ڈی سیٹ کرنے کا نوٹیفکیشن واپس لینے کا حکم، یہ انصاف تھا یا ’’پارٹی بازی؟‘‘

ایک لمحے کے لئے بھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی گئی کہ کیسے ایک عدالت، الیکشن کمیشن اور سپیکر آفس کے اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔

چلیئے ان باتوں کو اٹھارکھتے ہیں۔ اس پر بھی بات نہیں کرتے کہ ’’بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا، جو چیرا تو تین آڈیو اور دو ویڈیو نکلیں‘‘۔ اٹارنی جنرل کے توسط سے صاحبان سے طے کی گئی ملاقات چار گھنٹے جاری رہی۔ راوی کے بقول تین گھنٹے سنتالیس اڑتالیس منٹ (چار گھنٹے ہی ہوئے) اس ملاقات کے حوالے سے خبری طرح طرح کی خبریں ’’نچوڑ‘‘ کر لارہے ہیں۔

ایک خبر یہ ہے کہ اس ملاقات کی مکمل ویڈیو موجود ہے زیرزبر سمیت۔ بار دیگر عرض ہے تحریر نویس کو تین عدد آڈیو اور دو عدد ویڈیو سنانے دیکھانے پر یا تحفہ میں پیش کرنے والی خبر سے کوئی دلچسپی نہیں۔

اصل سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا؟ ایک جواب وزارت دفاع کی جانب سے وزارت دفاع کے سیکرٹری کے ہمراہ دو صاحبان کی صاحبان سے ملاقات کے اگلے روز دائر کی جانے والی اس درخواست میں آنکھیں اور عقل رکھنے والوں کے لئے کافی ساری نشانیاں ہیں۔ اب دیکھتے ہیں اس درخواست کی سماعت کے دوران کیسی پھلجڑیاں چھوٹتی ہیں فی الوقت تو صورت یہ ہے کہ کوئی ” جرگہ ” جاری ہے

دوسری طرف قومی اسمبلی نے ایک بار پھر الیکشن کمیشن کو فنڈز جاری کرنے کی منظوری نہیں دی۔ سٹیٹ بینک اور الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹس سپریم کورٹ میں جمع کروادی ہیں۔ وزارت دفاع کی دائر کردہ درخواست میں کہا گیاہے کہ ملک بھر میں الیکشن ایک ساتھ کروائے جائیں۔ قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری ہونے کا انتظار کیا جائے اور یہ مدت پوری ہونے پر ہی انتخابات کروائے جائیں۔

محاذ آرائی اور ہیرو گیری کے شوق میں دستور اور نظام کی بنیادیں ہلانے والوں کے پاس اب کرنے کا کام کیا ہے اس پر مغزماری کی بجائے باردیگر یہ سوال پڑھنے والوں کے سامنے رکھتا ہوں کہ 10ماہ تک قومی اسمبلی سے دیئے گئے استعفوں کو سیاسی غیرت کا مظاہرہ، غلامی سے انکار، اصولوں کی پاسداری قرار دینے والوں نے پھر اپنے ہی استعفوں کے خلاف عدالتوں میں جاکر ضمنی الیکشن کیوں رکوائے؟

کیااس معاملے میں نظام انصاف کا دامن واقعی صاف ہے؟ باردیگر عرض کردوں توقیر بنوانے منوانے میں برسوں لگتے ہیں ملیا میٹ ہونے میں صرف ایک پل اور ایک لفظ۔

آئینی و قانونی ماہرین کہلاتے صاحبان اس امر سے آگاہ نہیں تھے کہ دوسرے اداروں کے اختیارات استعمال کرنے اور طے شدہ امور پر حکم امتناعیوں کی سینچری بنانے کے نتائج کیا نکلیں گے؟ معاف کیجئے گا اس ملک کے نظام انصاف سے پہلے ہی لوگ مطمئن و شاداں نہیں تھے شکایات ہمیشہ رہیں ننانوے فیصد شکایات جائز تھیں اور ہیں۔

"فیصلوں” کی سیاست پہلی بار نہیں ہوئی مولوی تمیزالدین والے کیس سے آج تک سیاست ہی ہوئی۔ فوجی آمروں کے سامنے بچھ بچھ جانے والے دوسروں پر جیسے چڑھ دوڑتے ہیں اس سے توقیر میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ لوگ دبے لفظوں میں کہتے ہیں کہ یہاں ڈنڈا اور بندوق سیدھا رکھتے ہیں۔

ایک دو نہیں درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں اختیارات سے تجاوز اور دوسرے اداروں کے اختیارات استعمال کرنے کی۔ سیاسی عدم استحکام پر ملکہ جذبات صبیحہ خانم کی طرح نم آنکھوں سے جذباتی گفتگو کرنے والے صاحبان یہ تو بتائیں کہ سیاسی عدم استحکام کا ذمہ دار کون ہے؟

کیا یہ درست نہیں کہ ڈپٹی سپیکر (سابق قاسم سوری) کی وہ رولنگ جس میں اس نے تحریک عدم اعتماد لانے والوں کو غدار قرار دیتے ہوئے رائے شماری کے بغیر قرارداد مسترد کردی، وزیراعظم نے صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھجوادی اور صدر نے اسمبلی تحلیل کردی تینوں کام خلاف آئین ہوئے۔

کیا آئین شکنی کے مرتکب افراد کے خلاف قانونی کارروائی بنتی تھی یا ازخود نوٹس لے کر تحفظ دینے کی سہولت کاری؟

اب تواس سوال کا بھی سامناکرنا پڑے گا کہ دو جونیئر ججوں کو کیسے سپریم کورٹ لے جانے کے لئے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سہولت کاری کس نے کرائی؟

یہ سوال ہے اور یہ اس وقت تک شاہراہ دستور پر ناچے گا جب تک جواب نہیں ملتا۔

اتاولے صاحبان اور ٹائیگرز کہتے ہیں پی ڈی ایم حکومت میں ہمت ہے تو پنجاب اسمبلی کا الیکشن کروائے۔ رکیئے ذرا۔ الیکشن صرف پنجاب اسمبلی کے کیوں، خیبر پختونخوا کے کیوں نہیں اور قومی اسمبلی کی ان خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کیوں نہیں جن پر اب مستعفی ارکان کو حکم امتناعی تھمادیا گیا۔

کیا صاحبان اس امر سے لاعلم تھے کہ سپیکر آفس کا فیصلہ تبدیل کرنے کا اختیار عدالت کے پاس نہیں۔ اس نیم حکیم حکم امتناعی کا حاصل وصول کیا ہے؟

تلخ حقیقت یہ ہے کہ حالیہ عرصے میں جتنا ریلیف عدالتوں نے پی ٹی آئی اور عمران خان کو دیا اور جس طرح لاڈ اٹھائے جارہے ہیں اس پر داد کے ڈونگروں کے شور والی جگہ سے باہر نکل کر کوئی سنے کہ خلق خدا کہتی کیا ہے۔

کہنے عرض کرنے اور یاد دلانے کے لئے اور بہت کچھ ہے فی الوقت اتنا ہی اور آخری بات یہ ہے کہ دستور اور پارلیمنٹ کی بالادستی مسلمہ ہے۔ خود کو دستور اور پارلیمنٹ سے برتر سمجھنے کا شوق کسی کو نہیں پالنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: