مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

1996ء کا افغانستان ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے دوست رانا سعید احمد نے ایک ویڈیو بھجوائی اور پوچھا کہ حامد میر اس میں جو گفتگو کررہے ہیں وہ کتنی درست اور نادرست ہے؟ میر صاحب کی یہ ویڈیو ایک نجی چینل کی خاتون اینکر کے ساتھ صبح کے وقت نشر ہونے والے پروگرام کا کلپ ہے۔ یہ پروگرام کئی برس پرانا ہے۔

اس میں کی گئی گفتگو میں انکشاف کیا گیا کہ 1996ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کے دورہ امریکہ کے دوران پاکستان میں سابق امریکی سفیر محترمہ رابن رافیل نے محترمہ بینظیر بھٹو کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ افغان طالبان کی حمایت کریں۔

یہ بھی کہا کہ بعدازاں نصرت جاوید اور مجھے رحمن ملک اور نصیراللہ بابر نے بلایا اور ملا عمر سے ملاقات و انٹرویو کے لئے کہا۔ نصرت جاوید نے انکار کردیا لیکن میں نے یہ پیشکش قبول کرلی کیونکہ میرا خیال تھا میں صحافی ہوں مجھے انٹرویو ضرور کرنا چاہیے کیا نصرت جاوید صحافی نہیں ؟ ۔

یہ بھی کہا کہ نصراللہ بابر طالبان کو اپنی تخلیق اور بچہ قرار دیتے تھے۔ 6منٹ کے اس ویڈیو کلپ میں اسامہ بن لادن سے ملاقات اور انٹرویو بارے بھی ان کے خیالات موجود ہیں۔

روزنامہ ’’مشرق‘‘ پشاور کے سال 1996ء کے کسی سنڈے میگزین میں اس تحریر نویس کا افغان صورتحال پر تجزیہ شائع ہوا تھا کوشش کرتا ہوں کہ وہ مل جائے تو من و عن ایک دو اقساط میں پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کردوں ۔ فی الوقت ہم اس ویڈیو کلب کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔

یہ معاملہ بہت اہم ہے میں ذہنی طور پر آج شہید ذوالفقار علی بھٹو کی 44 ویں برس کی مناسبت سے لکھنا چاہتا تھا مگر بہت ضروری سمجھا کہ اس موضع پر لکھ لیا جائے جس کا ذکر بالائی سطور میں کیا ہے۔

محترمہ رابن رافیل پاکستان میں امریکہ کی سفیر رہیں بعدازاں انہیں اقوام متحدہ میں امریکہ کا مستقبل مندوب بھی بنایا گیا۔ امریکی وزارت خارجہ میں طویل عرصہ تک فرائض ادا کرتی رہیں اب بھی وزارت خارجہ اور پینٹاگون کے مختلف تھنک ٹینکس کا حصہ ہیں۔

ان کے شوہر رافیل بھی پاکستان میں امریکہ کے سفیر رہے۔ جنرل ضیاء الحق کے اسی طیارہ کے مسافروں میں شامل تھے جسے پیش آنے والے حادثے کی وجہ سے جنرل ضیاء کے گیارہ سالہ دور اقتدار کا خاتمہ ہوا تھا اس طیارے میں امریکی سنٹرل کمان کے بریگیڈیئر واسم بھی سوار تھے۔

یقیناً رابن رافیل نے محترمہ بینظیر بھٹو کو افغانستان میں منظم ہوتی نئی قوت تحریک طالبان کی حمایت کے لئے قائل کرنے کی کوشش کی ہوگی۔ یہ کوشش اس لئے بھی ضروری تھی کہ امریکی ستمبر 1995ء سے افغانستان کے بعض پشتون رہنمائوں اور مذہبی حلقوں کے سرکردہ افراد سے رابطے میں تھے۔ ان رابطوں، خواہشات اور مقاصد کی تفصیل اگر کسی نے پڑھنی ہے تو وہ معروف صحافی اور افغان امور کے ماہر ہارون رشید (ہارون الرشید المعروف چاچا کپی نہیں) کی کتاب پڑھ لے۔

افغانستان میں طالبان کے ظہور کی ابتدائی شکل ملا عبدالسلام راکٹی تھے۔ ان کا ظہور بھی لگ بھگ ستمبر اکتوبر 1995ء میں ہوا اور وجہ شہرت تجارتی قافلوں سے فی ٹرک بھتہ لینا تھا۔ ابتداً فی ٹرک 500روپے پاکستانی بھتہ طے پایا بعدازاں بھتے کی رقم 200 امریکی ڈالر فی چکر بھتہ مقرر کیا گیا۔اب فی ٹرک مال لے جانے کا بھتہ 200 ڈالر اور ٹرالر کا 300ڈالر تھا البتہ خالی واپس آنے والے ٹرک اور ٹرالرز کے لئے 50ڈالر بھتہ مقرر کیا گیا۔

1996ء میں نہ صرف بھتہ کی شرح بڑھادی گئی بلکہ پٹرولیم مصنوعات کے ٹینکرز کا الگ محصول ( بھتہ ) مقرر کیا گیا۔ گڈز ٹرانسپورٹ کے مالکان نے اس پر احتجاج کیا بات بڑھ گئی ملا راکٹی کے گروپ نے تجارتی قافلوں کے نقل و حمل پر پابندی لگادی۔

یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان کی سول حکومت (جوکہ بینظیر بھٹو کی حکومت تھی) نے پہلی بار ملا راکٹی اور چند دیگر مولوی صاحبان سے رابطہ کیا۔ نصیر اللہ بابر اور رحمن ملک کی براہ راست ملا راکٹی اور دیگرز کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں ہفتہ بھر کے مذاکرات کے بعد تحریک طالبان نے تجارتی قافلوں کی آمدورفت بحال کردی اور محصول سابقہ شرح کے مطابق لینے کا بھی اعلان کیا۔

یہی وہ عرصہ ہے جب سی آئی اے نے افغان تحریک طالبان کو منظم ہونے کے لئے وسائل اور اسلحہ فراہم کیا (اسلحہ کی فراہمی کی حوالے سے تفصیلات مشرق پشاور کے سنڈے میگزین کے لئے لکھی گئی اپنی سٹوری میں درج کی تھیں ) ملا عمر سے حامد میر کی ملاقات کا اہتمام افغان امور میں سی آئی اے کے ساجھے دار کا کردار ادا کرنے والی ایجنسی کے ذمہ داران اور مولانا سمیع الحق نے کیا تھا۔

ہوسکتا ہے کہ اس وقت کے وزیر داخلہ رحمن ملک کی معاونت شامل ہو جہاں تک نصیراللہ بابر کی اس بات کا تعلق ہے کہ طالبان ہمارے بچے ہیں۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ رحمن ملک اور نصیراللہ بابر کی ملا راکٹی اور دوسروں سے تجارتی قافلوں والے معاملے پر جو مذاکرات ہوئے ان کے اختتام پر ایک سوال کے جواب میں نصیراللہ بار نے یہ کہا تھا

’’وہ ہمارے پشتون بھائی اور بچے ہیں خانہ جنگی کی صورت حال سے پریشان ہیں ہم نے انہیں سمجھایا ہے کہ تجارتی قافلے روکنے سے افغانستان میں نیا بحران جنم لے گا ان بچوں نے ہماری بات مان لی‘‘۔

مکرر عرض کردوں کہ افغان تحریک طالبان ابتدائی طور پر امریکی چائلڈ بے بی تھا۔ امریکی اخبارات ان برسوں میں کہانیاں سنایا کرتے تھے کہ افغانستان میں 7ٹریلین ڈالر کا یورینیم اور دوسرے قدرتی ذخائر ہیں خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاکر ازسرنو منظم ہوتا روس ان ذخائر تک رسائی حاصل کرلے گا۔ اس ’’خطرے‘‘ سے نٹمنے کےلئے سی آئی اے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر تھے۔

خانہ جنگی ختم کرانے میں پیش پیش تینوں ممالک امریکہ، پاکستان اور سعودی عرب کے پاس اب کوئی چارہ نہیں تھا ماسوائے اس کے کہ افغان وار لارڈز کو سبق سیکھانے کے لئے نئی ابھرتی افغان تنظیم، افغان تحریک طالبان کی حمایت کریں اور اس کی سرپرستی۔

پاکستان کی افغان پالیسی روز اول سے اسٹیبلشمنٹ کی ملکیت رہی ہے۔ 1990ء سے 1993 ء کے درمیان کی نوازشریف کی حکومت اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت تھی۔ آئی جے آئی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا بے بی تھا لیکن اسی آئی جے آئی حکومت کے وزیراعظم میاں نوازشریف کی طرف سے افغان وار لارڈز میں صلح صفائی کے لئے جو کوششیں اسلام آباد کابل اور بیت اللہ کے صحن میں ہوئیں اس سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ ناخوش تھی۔

اسی ناخوشی کی بدولت پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے افغان لاڈلے گلبدین حکمت یار نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور ’’کابل کے قصائی‘‘ کا خطاب پایا۔

دستیاب معلومات کی بنیاد پر سال 1996ء کی طرح میں اب بھی اس بات پر قائم ہوں کہ افغان تحریک طالبان کے معاملے میں امریکہ پاکستان اور سعودی عرب کی اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر تھے۔

آپ ساعت بھر کے لئے اس سے چند سال پیچھے چلیں جنرل ضیاء الحق کے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے افغان تنازع پر جنیوا مذاکرات میں شرکت کے لئے پاکستانی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ نہ صرف جنیوا مذاکرات میں شرکت کی مخالف تھی بلکہ داخلی طور پر اعتماد سازی کے لئے پیپلزپارٹی اور اے این پی کو اعتماد میں لینے اور اے پی سی میں بلانے کی بھی مخالف تھی۔

جنرل ضیاء کا یہ بیان تاریخ کا حصہ ہے کہ افغانستان میں مجاہدین کی فتوحات کا نتیجہ سوویت یونین میں نکلنے والا تھا۔ جونیجو نے مجاہدین کی پشت میں وار کردیا۔

میر صاحب کہتے ہیں لوگ مجھ سے حسد کرتے ہیں اس لئے جھوٹ گھڑتے ہیں جبکہ سچ یہ ہے کہ انہیں روزنامہ پاکستان کا ایڈیٹر آئی بی کے سربراہ نے یہ کہہ کر بنوایا کہ وزیراعظم بینظیر بھٹو یہ چاہتی ہیں کہ یہ آپ کے اخبار کا ایڈیٹر ہو۔ ’’اوصاف‘‘ میں خالد کاشمیری کی جگہ موصوف کو ایڈیٹر انہوں نے بنوایا جنہوں نے اسامہ بن لادن سے ملاقات اور انٹرویو کا اہتمام کیا۔ ’’وہ‘‘ کون ہیں وہی افغان پالیسی کے حقیقی خالق اور مالک آستانہ عالیہ آبپارہ شریف والے۔

کیا اس ملاقات کے لئے جنرل حمید گل کا کوئی کردار نہیں تھا؟ بالکل تھاحمید گل کا کردار نہ ہوتا تو مولانا سمیع الحق تعاون کرتے بلکہ کچھ بھی ممکن نہیں تھا۔

لوگوں کو یاد ہی ہوگا کہ میر صاحب کی اسامہ بن لادن سے ملاقات اور انٹرویو کے بعد اسامہ کے ٹھکانہ پر حملہ ہوا تھا لیکن وہ اس مقام سے جاچکے تھے۔ تب اس الزام کو بہت شہرت ملی کہ اسامہ کے لئے حملہ کی نشاندہی اس مخصوص آلہ سے ہوئی جو حامد میر کے پاس تھا۔

ہم اس الزام کی تردید یا درست ہونے کی بحث نہیں کررہے البتہ یہ الزام موجود ہے۔ الزام تو کرنل امام اور خالد خواجہ کے قتل کا بھی حامد میر پر لگا، الزام لگانے والے جو وجوہات بیان کرتے تھے ان پر کبھی تحقیقات نہیں ہوئیں۔

یہ درست ہے کہ حامد میر ان چند صحافیوں میں شامل تھے جو محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے قریب سمجھے جاتے تھے بلکہ تھے بھی۔

میرے خیال میں ان سے حسد کی کوئی غالب وجہ کبھی نہیں رہی ان کی ’’ترقی‘‘ پر حیرانی ظاہر کرنے والے اپنی حیرانی میں جی رہے ہیں جیتے رہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس ملک میں پچھلے تیس چھتیس برسوں میں درون خانہ جو کچھ ہوا جب کبھی کسی نے اس پر لکھا تو بہت سارے ’’مجاہدین صحافت ‘‘ کے چہروں پر پڑے دو دو ٓتین تین نقاب ضرور اتر جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: