نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حسب عادت صبح اٹھتے ہی یہ کالم لکھنے کے بجائے میں ٹی وی اور لیپ ٹاپ کھول لیتا۔ تمام تر اعتراضات کے باوجود، جن کے واجب یا غیر واجب ہونے کی بحث میں الجھنا نہیں چاہتا ۔ عزت مآب چیف جسٹس صاحب تین رکنی بنچ کو برقرار رکھتے ہوئے پیر کے دن ایک اہم ترین معاملہ پر سماعت جاری رکھنے کو ڈٹے ہوئے ہیں۔ مجھے چاہیے تھا کہ سماعت شروع ہونے کا انتظار کرتا اور وہاں جو موڈ بنتا محسوس ہوتا اسے تبصرہ آرائی کے لئے استعمال کرتا۔ بعدازاں مگر خیال آیا کہ ”پارٹی“ تو ابھی شروع ہوئی ہے۔ میرا کالم چھپنے سے کئی گھنٹے قبل ہی عوام جان چکے ہوں گے کہ سپریم کورٹ میں کیا ہوا تھا۔ جو بھی ہو گا اس کے بارے میں اندھی نفرت و محبت میں تقسیم ہوئے لوگ اپنی رائے بھی بنا چکے ہوں گے۔ خود کو عقل کل تصور کرنے کے زعم میں ”ذہن سازی“ کی علت مجھے ویسے بھی کبھی لاحق نہیں رہی۔
بہرحال حسب عادت اخبار میں چھپے کالم کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا۔تازہ کالم لکھنے سے قبل ٹویٹر کی بدولت نمودار ہوئی خبروں پر سرسری نگاہ بھی ڈالی۔ ٹویٹر کی بدولت پھیلی خبروں اور تصویروں سے تاثر یہ ملا کہ وکلا کا ایک پرجوش گروہ سپریم کورٹ پہنچنا چاہ رہا ہے۔ نظر بظاہر سپریم کورٹ پہنچنے کے بے قرار افراد کا مقصد پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کویقین دلانا تھا کہ ”عوام“ عدلیہ کی حفاظت کو ڈٹ چکے ہیں۔”تیرا باپ بھی دے گا-آزادی“ والے نعرے لگ رہے تھے۔ دعویٰ یہ بھی ہورہا تھا کہ اسلام آباد پولیس نے سپریم کورٹ تک جانے والے راستوں کو ”سیل“ کر دیا ہے۔
فواد چودھری صاحب سے منسوب ایک بیان بھی نظر سے گزرا۔ان کا دعویٰ تھا کہ اسلام آباد کو ”غزہ“ بنادیا گیا ہے۔ اسلام آباد پولیس گویا ان کی دانست میں ویسے ہی ہتھکنڈے اختیار کررہی تھی جن کے ذریعے صیہونی نسل پرست”غزہ“ کی پٹی میں محصور ہوئے عرب عوام کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔”تیرا باپ بھی دے گا-آز ادی“ والے نعروں کا جواز غالباََ یہ ہی سوچ تھی۔ یہ سوچ اس رویے کا تسلسل ہے جو گزشتہ برس کے اپریل سے قائم ہوئی شہباز حکومت کو ”امپورٹڈ حکومت“ پکارے جا رہا ہے۔اس حکومت کے قیام سے قبل عمران خان صاحب کو قومی اسمبلی میں پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا تھا۔ سابق وزیراعظم اور ان کے حامی اصرار کرتے رہے کہ مذکورہ تحریک واشنگٹن کے اشارے پر بروئے کار لائی گئی تھی۔ مقصد اس کا وطن عزیز کو قومی حمیت کے نگہبان وزیر اعظم سے محروم کرنا تھا۔ ”بیرونی سازش“ عمران خان شاید اپنے تئیں ناکام بنا سکتے تھے۔”سازشیوں“ کو لیکن ان کی دانست میں ہمارے ریاست کے دائمی اداروں سے ”میر جعفروں“ کی معاونت میسر ہوگئی۔ اس کے بعد حقیقی آزادی“ کی جنگ لڑنا ہر پاکستانی پر گویا واجب ہو چکا ہے۔
عمر کے اس حصے میں پہنچ چکا ہوں جہاں ”حقیقی آزادی“ کے حصول کے لئے لڑتے لشکر میں شامل ہونا تو دور کی بات ہے چند بنیادی اشیا کی خریداری کے لئے بھی گھر سے نکلنے کو جی مائل نہیں ہوتا۔ 2007 تک مگر ”آتش“ کسی حد تک جوان تھا۔ ان دنوں کے چیف جسٹس افتخار چودھری کو جنرل مشرف نے اپنے دفتر طلب کرنے کے بعد استعفیٰ دینے کو مجبور کیا۔ چودھری صاحب نے ”انکار“ کر دیا۔ مذکورہ ”انکار“ کے حوالے سے میں چودھری اعتراز احسن کے زمان پارک والے گھر میں ان کے ہمراہ بیٹھا مضطرب رہا۔ ہماری ملاقات کے دوسرے دن چودھری صاحب اسلام آباد پہنچ گئے۔ افتخار چودھری کے ”ڈرائیور“ بن کر پشاور سے کراچی تک کے ہر بڑے شہر جاتے ہوئے ”عدلیہ آزادی“ کی تحریک چلانا شروع ہو گئے۔ میرا دل سادہ بھی اس تحریک سے بہت متاثر ہوا۔ جنرل مشرف جیسے آمر کی اقتدار پر کمزور ہوئی گرفت نے جی کو خوش کیا۔ عقل کا غلام ہوا ذہن مگر اس سوال پر بھی غور کرتا رہا کہ ہم اس ”انقلاب “کی جانب واقعتا بڑھ رہے ہیں یا نہیں جس کا میں برسوں سے منتظر رہا ہوں۔
شادمانی اور وسوسوں کے ملے جلے جذبات کیساتھ آج ٹی وی کے لئے ”بولتا پاکستان“ کے عنوان سے ایک شو بھی شروع کر دیا۔ مشتاق منہاس میرا ”کو اینکر“ تھا۔ اس کا ”آتش“مجھ سے کہیں زیادہ جوان تھا اور وہ افتخار چودھری صاحب کی عقیدت میں جذباتی حد تک مبتلا ہو چکا تھا۔ اپنے پروگرام میں ہم لوگوں کی رائے جاننے کے لئے براہ راست ٹیلی فون کالز بھی لیتے تھے۔ فیصل آباد سے پروگرام کے دوران ایک کال آئی۔ ہم سے مخاطب شخص نے جنرل مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے اطلاق کا مطالبہ کر دیا۔
ٹی وی کے لئے لائیو پروگرام انتہائی ذمہ داری کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس کے اینکر کو ہمیشہ یہ حقیقت مدنظر رکھنا ہوتی ہے کہ وہ ایک ”ادارے“ کے لئے شو کر رہا ہے۔ ٹی وی چینل کے قیام اور اسے کامیاب بنانے کے لئے بھاری بھر کم سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔ سینکڑوں ملازمین کا رزق اس ادارے کے وجود پر منحصر ہو جاتا ہے۔ خود کو ”ہیرو“ ثابت کرنے کی ہوس میں اینکر کے لئے احتیاط لہٰذا لازمی ہے۔ مذکورہ تقاضے کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے فیصل آباد کے کالر کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ میری کاوش مگر مشرف کے دربار میں ”رجسٹر“ ہی نہ ہوئی۔ ”دربار“ نے میرے ماتھے پر ”تخریب کار“ کا ٹھپہ لگا دیا۔
عدلیہ آزادی کی تحریک اور میرا شو البتہ چلتے رہے۔ بالآخر نومبر 2007 آ گیا۔ جنرل مشرف نے ”ایمرجنسی پلس“ مسلط کر دی۔ اس کی وجہ سے اپنے چند ساتھیوں سمیت میں ٹی وی سکرین سے ”غائب“ ہو گیا۔ افتخار چودھری اور ان کے حمایتی جج گھروں میں نظر بند کر دئیے گئے۔ اسلام آباد میں ان کی رہائشی کالونی تک جانے والے راستوں کو خاردار تاریں لگاکر سیل کر دیا گیا۔
ٹی وی سے ”غائب“ ہوئے صحافیوں نے مگر ہمت نہیں ہاری۔ اسلام آباد ہی نہیں دیگر شہروں میں جاکر بھی پریس کلبوں اور بار کے دفاتر میں لوگوں کے روبرو اپنے ”شو“ کرتے رہے۔ جنرل مشرف مگر عام انتخاب کی تاریخ طے کر چکے تھے۔ سیاسی جماعتوں کی اکثریت انتخابی مہم میں مصروف ہو گئی۔ دریں اثناء 27 دسمبر2007 کا منحوس دن بھی آ گیا جب ملک کی دوبار رہی وزیر اعظم کو راولپنڈی کے لیاقت باغ کے قریب قتل کر دیا گیا۔ انتخابی مہم کی بدولت ”عدلیہ آزادی“ کی تحریک البتہ مانند ہونا شروع ہو گئی۔ نئے ٹی وی چینل بھی بڑی آن بان کے ساتھ متعارف ہو گئے۔ بتدریج ٹی وی سکرینوں سے ”غائب“ ہوئے صحافیوں کی اکثریت کوبھی عوام بھولنا شروع ہو گئے۔ انہیں انگیج رکھنے کو کئی ”نئے“ اور”حق گو“ چہرے ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہو گئے۔
ان دنوں اپنے گھر تک محدود ہونے کی وجہ سے آج کا کالم لکھنے سے قبل سوشل میڈیا پر ڈالی سرسری نگاہ نے مجھے غالب کے ”اندیشہ ہائے دور دراز“ میں مبتلا کر دیا ہے۔ محبوب کا ”خم کا کل“ ان اندیشوں کا باعث ہوا تھا۔وطن عزیز کے ”کاکل“ یا الجھنیں بھی کبھی سلجھتی نظر نہیں آتیں۔ تاریخ خود کو دہرائے چلی جاتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر