مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

معاشی، سیاسی و عدالتی بحران اور گھٹالے ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو صحافی دوستوں کی رپورٹس ہیں اور دلچسپ و باعثِ عبرت بھی۔ ہم آگے چل کر ان پر بات کرتے ہیں۔ اولاً یہ دیکھ لیتے ہیں کہ چار اور جو حالات ہیں یہ ہمیں کہاں لے جارہے ہیں۔ فقیر راحموں کا کہنا ہے ’’شاہ سیدھی طرح لکھو کہ نظام، جمہوریت اور انصاف کا ہانکا بند گلی کی طرف کیا جارہا ہے‘‘۔

سچ یہی ہے کہ اس وقت جو سنگین مسائل و مشکلات اور بحران در بحران ہیں ان سے محفوظ انداز میں بچ نکلنے کی سعی کرنا ہوگی۔ سعی کون کرے گا، کون آمادہ ہے۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ ’’بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا‘‘۔

چند دن ادھر سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کی دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا تھا کہ فریقین ماحول میں تلخی کم کرنے کی یقین دہانی کروائیں تاکہ انتخابات سازگار ماحول میں منعقد ہوسکیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ وہ جماعت کے سربراہ کی طرف سے تحریری یقین دہانی کراسکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر بھی کہہ چکے کہ عمران خان تحریری یقین دہانی کرادیں گے، عمران خان نے بھی سب کے ساتھ مل کر بیٹھنے اور بات چیت کا عندیہ دیا ہے۔

لیکن وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا ہے کہ عمران خان چونکہ کبھی اپنی کسی بات پر قائم نہیں رہے اس لئے ان کی بات پر اعتماد کرنا بہت مشکل ہے۔ انہوں نے عمران خان کے چند پرانے ’’اقوال زریں‘‘ کا حوالہ بھی دیا۔

یہ ساری باتیں اپنی جگہ درست ہیں اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ معاملات جس طور ہاتھوں سے نکلتے دیکھائی دے رہے ہیں ان کے پیش نظر یہی کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ حالات میں وسیع البنیاد مذاکرات کی ضرورت ہے۔ حالات کیا ہیں، یہ کسی سے مخفی نہیں۔ معاشی مسائل ہیں۔ سیاسی عدم استحکام ہے۔ اور تو اور خود ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ سے جو خبریں آرہی ہیں ان سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔

اچھا لگے یا برا، سچ یہی ہے کہ سپریم کورٹ میں تقسیم نے ہمارے نظام انصاف پر سوالات اٹھوادیئے ہیں۔

یہ سطور لکھ رہا تھا کہ خبر ملی کہ پنجاب اور خیبر پختونوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے تحریک انصاف کی درخواست کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا بنچ 24گھنٹوں میں دوبارہ ٹوٹ گیا۔ جمعرات کو اس پانچ رکنی بنچ کے ایک رکن جسٹس امین الدین خان نے سماعت میں شریک رہنے سے معذرت کرلی تھی ۔ ان کا موقف تھا کہ چونکہ وہ ازخود نوٹس کے حوالے سے اکثریتی فیصلہ دینے والے بنچ میں شامل اور فیصلہ دینے والوں میں شریک تھے اس لئے اس بنچ میں نہیں بیٹھ سکتا۔

آج جمعہ کو چیف جسٹس کی سربراہی میں چار رکنی بنچ نے سماعت شروع کی تو بنچ کے ایک اور رکن جسٹس جمال مندوخیل نے بنچ سے الگ ہوتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ ملک پر رحم کرے۔

یہ اطلاع بھی ہے کہ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ اب تین رکنی بنچ سماعت کرے گا۔ ان دونوں باتوں سے قبل سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے ایک سرکلر کے ذریعے گزشتہ روز ازخود نوٹس کے حوالے سے آنے والے ایک بینچ کے اکثریتی فیصلے کو غیرموثر قرار دے دیا۔

یہاں ایک سوال ہے وہ یہ کہ کیا رجسٹرار کو کسی فیصلے کو غیرموثر قرار دینے کا اختیار ہے۔ ہمیں یہ ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ رجسٹرار نے سرکلر میں لکھا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دیا گیا فیصلہ قابل عمل نہیں۔

یہ سرکلر جاری کرنے کا مقصد بظاہر صرف پی ٹی آئی کی درخواست کی سماعت کو جاری رکھوانا ہی تھا۔ میں ان سطور میں روز اول سے عرض کررہا ہوں کہ اس سارے معاملے سے جنم لینے والے بحران سے نجات کی ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ فل کورٹ بنچ تشکیل دیا جائے۔

حیران کن بات ہے کہ ازخود نوٹس لینے اور سماعت سے اس کے فیصلے اور اب عدم عمل کے خلاف آئی درخواست کی سماعت تینوں مراحل پر فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے مگر چیف جسٹس نے ایک سے زائد بار اسے غیرضروری قرار دیا۔ سیاسی عدم ا ستحکام اور معاشی مسائل کے ساتھ اب یہ عدالتی بحران تینوں کی شدت ہر شخص کو محسوس ہورہی ہے۔

ازخود نوٹس سے آج تک اس سارے معاملے کے حوالے سے جو خبریں سامنے آئیں انہیں یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ یہ عرض کیا جاسکتا ہے کہ جب بعض جج صاحبان کے اہل خانہ کی پی ٹی آئی کے جلسوں میں شرکت کی ’’پرجوش‘‘ تصاویر موجود ہوں، موجود ہی نہ ہوں بلکہ وائرل ہوجائیں تو پھر ایک کیس کی ہر حال میں سماعت پر اصرار سے جنم لینے والے شکوک اور الزامات دونوں کو رد کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ نظام انصاف پر پڑی دھول صاف کرنے کی بجائے کسی کو محفوظ راستہ دینے کا انتظام کیا جارہا ہے۔ یہ وہ تاثر ہے جس نے نہ صرف صورتحال کو گھمبیر بنادیا ہے بلکہ پہلے سے تقسیم شدہ سماج میں نئی تقسیم کی بنیاد رکھ دی ہے۔

دو باتیں بار دیگر دہرائے دیتا ہوں اولاً یہ کہ ازخود نوٹس کی سماعت کرنے والے 9رکنی بنچ سے اعتراضات کی بدولت الگ ہونے والے دو جج صاحبان میں سے ایک جسٹس اعجازالحسن کو اس پانچ رکنی بنچ کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا جو اب تین رکنی رہ گیا ہے۔

ثانیاً یہ کہ جب تک ازخود نوٹس والے کیس کے حوالے سے موجود دو فیصلوں میں سے قانونی حیثیت کس ایک فیصلے کی ہے والی بات طے نہیں ہوجاتی مزید سماعت جاری نہیں رہنی چاہیے

فی الوقت صورت یہ ہے کہ چیف جسٹس مُصر ہیں کہ تین دو سے دیا گیا ان کا فیصلہ درست ہے جبکہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مندوخیل کے فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ فیصلہ چار تین کا ہے اور یہی قابل عمل ہے۔

اچھا اب اگر کوئی چار تین کے فیصلے کو جواز بناکر توہین عدالت کی درخواست دے گا تو کیا ہوگا؟

یہ سمجھنے کی ازحد ضرورت ہے کہ عدالتی بحران کی شدت بہت شدید ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انصاف سے زیادہ معاملہ ’’ضد‘‘ کا ہے۔

آپ ان تین اہم مسائل یعنی معاشی ابتری، سیاسی عدم استحکام اور اب عدالتی بحران انہیں مدنظر رکھ کر سوچئے کہ کیا ان حالات سے نجات وسیع البنیاد مذاکرات سے مل سکتی ہے یا اپنی اپنی ڈفلی بجانے سے؟

ہم آگے بڑھتے ہیں کالم کی ابتداء میں یہ عرض کیا تھا کہ دو صحافی دوستوں کی حالیہ رپورٹس چونکادینے والی ہیں۔

پہلی رپورٹ معاشی شعبہ میں برسوں سے رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی شہباز رانا کی ہے انہوں نے خبر دی ہے کہ

معاشی بحران کے دنوں میں جن کمرشل بینکوں نے کرنسی کی شرح تبادلے میں روپے کی قدر کو مجرمانہ طور پر کم کرکے لوگوں سے 25سے 50ارب روپے کا زائد منافع بٹورا ان کے خلاف تین ماہ گزرجانے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

27دسمبر 2022ء کو فنانس ڈویژن کو آگاہ کیا گیا تھا کہ کمرشل بینکوں نے ڈالر کی شرح تبادلہ کے سرکاری نرخ سے زائد پیسے لے کر لوگوں سے 25سے 50 ارب روپے زائد وصول کئے جوکہ مجرمانہ فعل ہے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ان کمرشل بینکوں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائی تھی یہ سطور لکھے جانے تک اس رپورٹ اور یقین دہانی کو تین ماہ اور پانچ دن گزرگئے کمرشل بینکوں کی اوورچارجنگ کا ثبوت ہونے کے باوجود ان کے خلاف کارروائی نہ ہونا حیران کن ہے۔

کارروائی کیوں نہیں ہورہی؟ اس سوال کا جواب وزیر خزانہ اور سیکرٹری خزانہ ہی دے سکتے ہیں لیکن دونوں نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔

دوسری خبر یہ ہے کہ پاکستان کے زیرانتظام آزاد جموں و کشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور سردار تنویر الیاس اس حکومت کے وزیراعظم ہیں انہوں نے حلف اٹھاتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ تنخواہ اور مراعات نہیں لیں گے لیکن راجہ افتخار کی رپورٹ کے مطابق

وہ (تنویر الیاس) آزاد کشمیر کی تاریخ کے سب سے مہنگے وزیراعظم ثابت ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے اب تک کے 9ماہ کے دوران وزیراعظم ہائوس کا خرچہ 9کروڑ سے بڑھ کر 80کروڑ روپے ہوگیا ہے۔ اسی طرح ریاستی تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم ہائوس کا ایک سال کا خرچ ایک ارب روپے سے بڑھنے والا ہے۔

آزاد کشمیر کے وزیراعظم کا سیکرٹ سروس فنڈ جوکہ 2کروڑ روپے ہوتا تھا جنوری میں اس میں 5کروڑ روپے کا اضافہ کیا گیا اور فروری میں مزید 20 کروڑ روپے خرچ کردیئے گئے۔

وزیراعظم نے نومبر 2022ء میں مختلف مدوں میں ایک بار 15کروڑ روپے کی اضافی رقم حاصل کی اور پھر اسی مہینے میں 2کروڑ 71لاکھ مزید خرچ کئے۔

جنوری میں سیکرٹ فنڈ کے 5کروڑ کے علاوہ 6کروڑ 90لاکھ اضافی خرچ کئے۔

فروری میں سیکرٹ فنڈ کے 20کروڑ کے علاوہ ایک کروڑ 27لاکھ روپے کی اضافی رقم خرچ کی گئی۔

یہ صورتحال ہے کشمیریوں کی تحریک مزاحمت کے بیس کیمپ کہلواتے آزاد کشمیر کی جہاں صاف چلی شفاف چلی پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: