مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رمضان کی برکتیں۔ پھل خریدوں یا آٹا؟|| راناابرارخالد

رانا ابرار سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے سینئیر صحافی ہیں ، وہ گزشتہ کئی برس سے وفاقی دارالحکومت اسلام آبادمیں مقیم ہیں اور مختلف اشاعتی اداروں سے وابستہ رہے ہیں، اکانومی کی بیٹ کور کرتے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رانا ابرار خالد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کل ٹویٹر، فیسبک، واٹس ایپ، ٹک ٹاک اور سماجی رابطے کے دیگر پلیٹ فارمز پر جہاں پی ٹی آئی کے حق میں اور اس کی مخالفت میں، موجودہ حکومت کے حق میں اور اس کی مخالفت میں شد و مد سے دھواں دار بحث چل رہی ہے بلکہ درست معنوں میں لفظی اور بد لفظی جنگ چل جاری ہے، وہیں ایک چھوٹا سا ٹرینڈ فروٹ بائیکاٹ کے نام سے بھی کچھوے کی چال چل رہا ہے۔ سست روی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ ٹرینڈ کسی سیاسی جماعت یا ریاستی ادارے کی سوشل میڈیا فورس نے نہیں چلایا بلکہ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق بے برکتی اور برکتوں والی دونوں اقسام کی مہنگائی کے مارے ہوئے ان مڈل کلاسیوں نے چلایا ہے جو میری طرح محض نام کے مڈل کلاس رہ گئے ہیں۔

ان مڈل کلاسیوں کا موقف ہے کہ اگر رمضان کے پہلے ہفتے کے دوران ( 31 مارچ تک) زیادہ سے زیادہ لوگ افطاری کے دسترخوان پر پھلوں کے بغیر روز کھولیں گے تو شاید کھجور، سیب، کیلا، امرود، خربوزہ، آڑو، انگور اور کھجور کی ساتویں آسمان پر پہنچنے والی قیمتیں قدرے نیچے آجائیں، جبکہ افطاری تو پھر بھی ہو جائے گی اور روزے کے ثواب میں بھی شاید کوئی کمی نہ ہو!

کیونکہ فری مارکیٹ اکانومی کا اصول ہے کہ طلب میں کمی سے رسد بڑھ جاتی ہے جبکہ رسد بڑھنے سے قیمتیں گرتی ہیں۔ بلکہ سرکاری و غیر سرکاری معاشی ماہرین نے آج کل اس دلیل کو اپنے ایمان کا حصہ بنالیا ہے کہ رمضان شروع ہوتے ہی پکوڑے سموسے، فروٹ چاٹ، چنا چاٹ، شربت، کھجور، سیب، کیلا، امرود، خربوزہ، آڑو، انگور اور ایسی دیگر اشیا کی کھپت بڑھ جاتی ہے، جس سے مارکیٹ میں مذکورہ اشیا کی طلب بڑھتی ہے اور طلب بڑھنے قیمتیں بڑھتی ہیں۔ لہٰذا کوئی کیا کر سکتا ہے؟

طلب و رسد کا یہ ”آفاقی“ اصول کس طرح کام کرتا ہے، اس کا عملی مظاہرہ راقم نے یکم رمضان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جب نہ چاہتے ہوئے بھی ایک پھل فروش کے پاس چلا گیا۔ حالانکہ پہلے ہی اندازہ تھا کہ رمضان شروع ہوتے ہی قیمتیں بڑھ گئی ہوں گی ، مگر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق، والدہ محترمہ باقاعدگی سے روزے رکھتی ہیں جبکہ چودہ گھنٹے کا روزہ رکھنے سے طبیعت میں کمزوری آجاتی ہے، اس لی سوچا کہ کوشش کر لینے میں کیا حرج ہے، اگر والدہ کے لئے افطاری کے وقت ایک سیب اور ایک کیلا یا دو قاشیں خربوزے کی میسر ہوجائیں تو خوش ہوجائیں گی، جبکہ اس جہان خراب میں اگر والدہ محترمہ کے چہرے پر چند لمحوں کے لئے خوشی کی لہر دوڑ جائے تو سمجھیں دونوں جہان پا لیے۔

مگر یکم رمضان کو پھلوں کے نرخ پوچھنے کی گستاخی راقم کو کافی مہنگی پڑی، معیار میں آخری درجے کے وہ سیب جو ایک دو روز پہلے ریڑھی پر 70 سے 80 روپے فی کلوگرام میں بک رہے تھے بلکہ رل رہے تھے وہی سیب ہمارے لیے وی وی آئی پی بن گئے، پھل فروش نے کہا 350 روپے، اس سے تھوڑا بہتر والے 500 روپے جبکہ اسی طرح 600 روپے اور 800 روپے فی کلوگرام والی ورائٹی بھی تھی۔ ہالا سندھ کا میٹھا کیلا 500 روپے فی درجن، میرے تھل کی سرزمین کا خربوزہ 300 روپے جبکہ خیرپور کی کھجوریں 450 سے لے کر ہزار روپے فی کلوگرام سن کر اپنی کم مائیگی کا اس حد تک احساس ہوا کہ بھاگنے میں عافیت جانی۔ پیچھے سے پھل فروش کی طنزیہ آواز آئی، میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ آپ نہیں خریدیں گے۔

درحقیقت پھل فروش کہہ رہا تھا اپنی اوقات تو دیکھو، تمھاری شکل پھل کھانے والی ہے!

درست سہی کہ ہماری کوئی اوقات نہیں۔ ہم بے اوقاتے ہی ٹھہرے مگر کیا یہ ضروری ہے کہ قدم قدم پہ ہمیں ہماری اوقات یاد دلائی جائے۔

دوسری جانب ہمدم دیرینہ کامریڈ رؤف لنڈ اس معاملے میں ہمارے مستقل ناقد ہیں، جیسا کہ مرحوم سی آر شمسی آج بھی ہمارے لیے ریفری کا کردار ادا کرتے ہیں، ادھر ”مزدور“ کے بارے میں غلط سلط سوچا ادھر وسل بجی، ایک بھاری بھرکم آواز آئی۔ رانا جی، یہ کیا کہہ رہے ہو، مزدور دشمنی کیوں کر رہے ہو؟

ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ سی آر شمسی میرے ایڈیٹر تھے جبکہ ٹیکسی ڈرائیوروں کی اوور چارجنگ بلکہ موقع سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی عادت بارے ادارتی نوٹ لکھا تو سی آر شمسی اچانک برس پڑے، کہ آپ سے یہ امید نہیں تھی کہ کسی مزدور کے خلاف ادارتی نوٹ لکھیں گے۔ بلاشبہ کامریڈ رؤف لنڈ بھی کہیں گے کہ پھل فروش تو ایک مزدور ہے، منڈی سے جس نرخ پر پھل ملے گا وہ تو اسی نرخ پر بیچے گا۔

درست سہی کہ پھل فروش ایک مزدور ٹھہرا مگر اس مزدور نے کبھی اس لمبی کار والے سے نہیں پوچھا کہ جناب اتنا دھن کہاں سے آتا ہے، کہ گاڑی سے اترنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے، کہتے ہو سیب اول ( 1000 روپے والا) پانچ کلو، خربوزہ چھ کلو، انگور دو کلو، کھجور چار کلو، سٹرابری تین کلو، امرود پانچ کلو، آڑو پانچ کلو پیک کردو جبکہ پانچ پانچ ہزار والے نوٹ دے کر بقایا بھی نہیں پوچھتے؟ کیا اس پھل فروش مزدور نے کبھی سوچا کہ بڑی گاڑی والے کی بڑی اوقات کا راز کیا ہے۔

بنیادی سوال ہے کہ ایسی کیا آفت نازل ہو گئی کہ یکم رمضان کو وہی سیب 350 روپے فی کلوگرام ہو گیا جو 29 یا 30 شعبان کو 70 سے 80 روپے فی کلوگرام فروخت ہو رہا تھا۔ حالانکہ چوبیس گھنٹے میں نہ تو پیٹرول و ڈیزل مہنگا ہوا، نہ بجلی گیس کے نرخ بڑھے اور نہ ہی حکومت نے کوئی نیا ٹیکس لگایا۔ چوبیس گھنٹے میں اس حد تک پھلوں کی قیمتوں میں اضافے کا کیا جواز ہے؟

حالانکہ رمضان تو ثواب کمانے اور برکتوں والا مہینہ ہے، لیکن یہ کون سا قانون ہے کہ سارا ثواب اور برکت ان کے حصے میں آئے جو رمضان سے مہینوں پہلے ذخیرہ اندوزی شروع کر دیتے ہیں پھر روزہ داروں کو لوٹتے ہیں۔ یہ ذخیرہ اندوز و ناجائز منافع خور کوئی باہر سے نہیں آئے بلکہ اسی ملک کے شہری اور الحمدللہ مسلمان بھی، جو سو روپے والی چیز تین سو کی فروخت کر کے شام کو چند غریبوں کو افطاری کر واکر وڈیو بناتے اور 20 رمضان کے بعد اسی لوٹ مار کے پیسوں سے عمرہ کرتے ہیں۔

برعکس اس کے وہ ممالک جن کو ہم انکاری (کافر) کہہ کر گمراہ قرار دیتے ہیں، انہی گمراہ معاشروں میں کرسمس ہو یا ایسٹر، ہولی ہو یا دیوالی، ہر مذہبی و ثقافتی تہوار سے ہفتہ دو ہفتے پہلے ہی تمام مارکیٹوں میں ڈسکاؤنٹ پیکیج کا اعلان کر دیا جاتا تاکہ کوئی غریب ثواب یا خوشی سے محروم نہ رہے۔

خدانخواستہ اگر ان گمراہ معاشروں میں کوئی چیز اچانک مہنگی ہو جائے تو وہ محدود مدت کے لئے مذکورہ چیز کا استعمال ترک کر کے طلب و رسد کے عدم توازن کو درست کرتے ہیں۔

فافن جیسے ادارے سے وابستہ ہمارے دوست رشید چوہدری کا موقف ہے کہ دوران رمضان #فروٹ بائیکاٹ جیسی مہم درحقیقت شہری مڈل کلاس کا چونچلا ہے، جس سے غریب کسانوں کی حق تلفی ہوگی جو سارا سال اس امید پہ سخت محنت کرتے ہیں کہ رمضان آئے گا تو ان کے پھل مہنگے فروخت ہوں گے اور چار پیسے ملیں گے۔ رشید چوہدری اپنے موقف کے حق میں دلیل دیتے ہیں کہ پاکستان میں اچھی خاصی زمین کا مالک کسان بھی شہروں کے تنخواہ دار یا کاروباری کے مقابلے میں غریب ہے لہٰذا اگر رمضان میں پھلوں کی قیمتیں بڑھنے سے ان کو تھوڑا بہت فائدہ ہوتا ہے تو کوئی حرج نہیں۔ نیز ٹھیلے اور ریڑھی والے پھل فروش تو مزدور ہیں، ان کا روزگاری متاثر نہ کریں۔

ہماری ایک فیسبک فرینڈ ثنا صاحبہ کا کہنا ہے کہ دوران رمضان پھل نہ خریدنے کی مہم چلا کر لوگوں کی افطاری بے مزہ کرنے سے بہتر ہے کہ پھل خریدنے والوں کو تحریک دی جائے کہ دو تین پھل ان غریبوں کو دے دیا کریں جو پھل خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔

درحقیقت ہمارے بہت سارے دوست یا تو #بائیکاٹ فروٹ مہم کی روح کو نہیں سمجھ سکے یا سمجھنا نہیں چاہتے۔ اگر یہ مہم مہینہ بھر کے لئے ہوتی تو ٹھیلے اور ریڑھی والے پھل فروشوں کا روزگار متاثر ہوتا، مہم کا دورانیہ ایک ہفتے کا ہے تاکہ اس دوران طلب و رسد میں توازن آئے اور پھلوں کی قیمتیں واپس قبل از رمضان سطح پر آجائیں۔

دوئم یہ کہ چند سال پرانی بات ہے جب راقم کا بنایا ایک وڈیو کلپ کم وبیش توشہ خانہ سکینڈل کی طرح مقبول ہوا تھا، جس میں (اس وقت کے ) وفاقی وزیر خزانہ حفیظ شیخ فرما رہے تھے کہ ’کراچی سبزی منڈی میں ٹماٹر 17 روپے کلو فروخت ہو رہے ہیں‘ جبکہ اس وقت کراچی میں ٹماٹر کی قیمت 200 جبکہ اسلام آباد میں 250 روپے فی کلو تھی۔ دراصل ڈاکٹر حفیظ شیخ سندھی اور انگریزی تو فرفر بولتے ہیں تاہم اردو میں ان کی روانی برقرار نہیں رہتی، دراصل وہ کہنا کچھ اور چاہتے تھے مگر ان کی زبان پھسل گئی، جس کی وجہ سے مذکورہ وڈیو کلپ ان کا حوالہ بن کر رہ گیا۔

دراصل جب کراچی میں ٹماٹر کی قیمت 200 روپے اور اسلام آباد میں 250 روپے تھی، تب بھی ٹھٹھہ، بدین اور حیدرآباد کے کسانوں سے ٹماٹر 17 روپے فی کلو کے حساب سے اٹھائے جا رہے تھے۔ بلاشبہ 17 روپے اور 200 روپے کے درمیان بہت بڑا فرق موجود ہے، لہٰذا ہم کہ سکتے ہیں اگر کراچی، لاہور، اسلام آباد میں ٹماٹر سو روپے کلو ہوں تو دوردراز کے کسان کو دس روپے مل رہے ہوں گے ۔ خیال رہے کہ جب سرائیکی وسیب کا چونسہ آم کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں 300 روپے کلو بک رہا ہوتا ہے تو بے چارے کسان کو زیادہ سے زیادہ چالیس روپے مل رہے ہوتے ہیں۔ درحقیقت یہ پاکستان کی منفرد فری مارکیٹ کا شاخسانہ ہے جو ہر قسم کی قانونی و اخلاقی حدود و قیود سے واقعی آزاد ہے۔

تاہم یہ کوئی جواز نہیں کہ غریب کسان کو اضافی دس بیس روپے دینے کے لئے صارف کی جیب سے سو روپے ہڑپے جائیں۔ کیا دیگر ممالک میں بھی آزاد منڈی اتنی ہی آزاد ہے جبکہ کسان کی قیمت اور صارفی قیمت کے مابین اتنا ہی بڑا فرق پایا جاتا ہے جتنا کہ پاکستان میں؟

%d bloggers like this: